حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
سچی محبت

سچی محبت

محبت اور دوستی کی کچھ علامتیں اور نشانیاں ہوتی ہیں جن سے دوستوں کوپہچانا جا سکتا ہے اور سچی محبت کرنے والوں میں اور دوسروں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔چونکہ محبت اکسیر ہے اس لئے یہ محب میں  کچھ آثار پیدا کرتی ہے اور جومحبوب کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔فہم و فراست رکھنے والے افراد یہ درک کر لیتے ہیں کہ کن افرد کی محبت اور دوستی کو دل میںجگہ دینی چاہئے؟کیونکہ وہ اپنے رفتار و کردار اور حرکات و سکنات سے اپنے محبوب کو پہچان لیتے ہیں۔

محبت اور دوستی جتنی زیادہ ہو ،محب میںمحبوب کی نشایناں اتنی ہی زیادہ جھلکتی ہیں۔کبھی محبت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ محب محبوب کو کائنات کی سب چیزوں پر فوقیت دیتا ہے ۔ایسی محبت محبوب کے لئے محب کے ایمان و اعتقاد کی نشانیوںمیں سے ہے۔

اگر خاندان نبوت علیھم السلام سے آپ کی محبت اس حد تک ہو تو یہ خدا پر آپ کے کامل ایمان کی نشانی ہے۔یہ پیغمبر اکرم ۖ کی حدیثوں میں  سے ہے:

''لاٰ یُؤْمِنُ عَبْد حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ،وَیَکُوْنَ عِتْرَتِْ أَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ عِتْرَتِہِ،وَیَکُوْنَ أَھْلِْ أَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ أَھْلِہِ،وَ یَکُوْنَ ذٰاتِ أَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ ذٰاتِہِ''([1])

بندہ اس وقت تک ایمان نہیں جب تک میں اس کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اور میری عترت اس کے نزدیک اس کی عترت سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے اور میرے اہل اس کے نزدیک اس  کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں اور میری ذات اس کے نزدیک اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔

جس کی محبت اس حد تک ہو یقینا اس کی محبت سچی ہے۔

اب ہم جس کوفی شخص کا ایک بہترین واقعہ بیان کررہے ہیں ،وہ بھی ان افراد میں سے ہیجس نے حقیت میں  پیغمبر اکرمۖ ،امیر المؤمنین علیہ السلام  اورآپ کے فرزندوں کو اپنے خاندان پر  مقدم جانا۔

کوفہ میں ایک بہت دولت مند شخص رہتا تھا جو سادات اور ان کے فرزندوں کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔اس کے حساب کی کاپی میں امیر المؤمنین  علیہ السلام کے نام سے کچھ حساب تھا ۔جب بھی اس سے کوئی شخص کوئی چیز خریدتا اور اگر اس کے پاس اداکرنے کے لئے پیسے نہ ہوتے تو وہ اپنے غلام سے کہتا کہ اسے حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام کے حساب میں لکھ دو۔

بہت مدت کے بعد وہ امیر شخص فقیر اور خانہ نشین ہو گیا ۔وہ اپنے گھر میں بیٹھا اپنے حساب کی کاپی دیکھ رہا تھا ۔اگر وہ اس میں اپنے کسی مقروض کا نام دیکھتا کہ جو زندہ بھی ہوتا تو وہ کسی کو اس کے پاس بھیج دیتا تا کہ وہ اس سے اپنا قرض واپس لے لے اور اگر وہ دنیا سے جا چکا ہو تا اور اس کا کوئی مال بھی باقی نہ ہونا تو کاپی سے اس کا نام مٹا دیتا۔

ایک دن وہ گھر  کے دروازے پر بیٹھا  اپنی وہی کاپی دیکھ رہا تھا اچانک وہاں سے ایک ناصبی گزرا اور اس نے اسے طعنہ دیا کہ تمہارے سب سے زیادہ مقروض علی بن ابیطالب نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟

اس بات پر اسے بہت دکھ ہوا اور غمگین حالت میںگھر میں داخل ہوا۔اسی رات اس نے پیغمبر اکرمۖ  کو خواب میں دیکھاکہ آپ ۖ ایک جگہ تشریف فرما ہیںجب کہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے سامنے چل رہے ہیں۔رسول اکرمۖ نے دونوں اماموں سے پوچھا کے آپ کے بابا کہاں ہیں؟

امیر المؤمنین علیہ السلام پیغمبر اسلام ۖکے پیچھے کھڑے تھے۔آپ نے جواب دیا:یا رسول اللہ !میں حاضر ہوں۔پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:آپ اس شخص کا قرض کیوں نہیں دے رہے؟

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:یارسول اللہ!یہ اس کا دنیا ویحق ہے جومیںساتھ لایا ہوں۔

رسول اکرمۖ نے فرمایا:اسے دے دو۔

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرمۖ نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔([2])

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: 

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُہُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد ''([3])

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمدۖ پر ہے۔

 

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت ۖ کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴۲۱

[2]۔ فوائد الرضویہ:٣١١

[3]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

 

 

    ملاحظہ کریں : 2222
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 91613
    تمام وزٹر کی تعداد : 135395588
    تمام وزٹر کی تعداد : 93547081