حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۷ ۔ اہم مشکلات کے حل کے لئے نماز اور دعا ئے فرج

(٧)

اہم مشکلات کے حل کے لئے نماز اور دعا ئے فرج

ابو جعفر بن جریر طبری مسند فاطمہ علیہا السلام میں لکھتے ہیں:

 ابو حسین کاتب کہتے ہیں: میں ابو منصورکے وزیر کی طرف سے ایک کام کے لئے مامور ہوا لیکن اسی دوران اس کے اور میرے درمیان اختلاف پیش آیا ،نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ میں اس کے خوف سے چھپ کرزندگی گزارنے پر مجبور ہو گیاجب کہ و ہ میری تلاش میں تھا اور مجھے ڈرایا دھمکایاکرتا تھا۔

 ایک مدت تک میں وحشت زدہ حالت میں چھپا رہا اور شب جمعہ(کہ جب بارش ہو رہی تھی) قریش کے قبرستان میں گیااورمیں وہاں ایک حجرے میں دعا و مناجات کے لئے بیٹھ گیا اور ابن جعفر قیم سے درخواست کی کہ وہ دروازوں کو بند کر دیں اور کوشش کریں کہ وہاں خلوت رہے تا کہ میں تنہائی میں خدا سے رازو نیاز کروںحضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے مرقد مطہر کی زیارت سے مشرف ہوں گاتاکہ رات دعااوررازو نیاز میں گذار وں اور ایسے شخص کے ورود سے محفوظ رہوں کہ جس سے مجھے کوئی خطرہ ہو۔ اس نے میری درخواست قبول کر لی اورحرم کے دروازے بند کردیئے۔

 آدھی رات ہوگئی، طوفان کے ساتھ تیز بارش کی وجہ سے اس مبارک جگہ پر لوگوں کی رفت و آمد بند ہو گیا ۔حرم پوری طرح خالی ہو گیا،میں راز و نیاز میں مشغول ہو گیا۔ کبھی دعا  پڑھتا تھا تو کبھی زیارت اور نماز ۔

اسی حال میں تھا کہ اچانک میرے مولا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی قبرمطہر کے پاس سے میرے کانوں میں کسی کے چلنے کی آواز آئی ، ایک شخص زیارت میں مشغول تھا ،وہ اپنی زیارت میں حضرت آدم  علیہ السلام اور اولوا العزم پیغمبروں علیہم السلام پر سلام کررہا تھا ،پھر اس نے ائمہ معصوم علیہم السلام میں سیہر ایک معصوم امام علیہم السلام پر سلام کیا ،یہاں تک کہ حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کا اسم مبارک آیا لیکن اس کا ذکر نہ کیا ۔

ہمیں اس کے اس عمل پر تعجب ہوا اورمیں نے اپنے آپ سے کہا :شاید بھول گئے ہوں یا اس شخص کاعقیدہ ہی یہی ہو۔

جب وہ زیارت سے فارغ ہو گئے تودورکعت نماز پڑھی اور ہمارے مولا امام محمد تقی علیہ السلام کی ضریح کے پاس گئے اوراسی طرح سے زیارت کی اور سلام کیا اور دورکعت نماز پڑھی ۔میں ا نہیں نہیں پہنچانتا تھا اسی وجہ سے میں ان سے ڈر رہا تھا،وہ ایک کامل جوان تھے انہوں نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سرپر بندھے ہوئے عمامہ سے تحت الحنک لٹک رہی تھی ،عبا کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے  میری طرف رخ کیا اور کہنے لگے :

 اے ابو حسین  ابن ابو العلا ء! تم دعائے فرج کیوں نہیں پڑھتے ؟

میں نے عرض کیا :اے میرے آقا!دعائے فرج کیا ہے؟

 فرمایا: دو رکعت نماز پڑھو اور کہو :

یٰا مَنْ أَظْہَرَ الْجَمِیْلَ وَسَتَرَ الْقَبِیْحَ،یٰا مَنْ لَمْ یُؤٰاخِذْ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَہْتِکِ السِّتْرِ، یٰا عَظِیْمَ الْمَنِّ، یٰا کَرِیْمَ الصَّفْحِ، یٰا مُبْتَدِئاً النِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقٰاقِہٰا، یٰا حَسَنَ التَّجٰاوُزِ، یٰا وٰاسِعَ الْمَغْفِرَةِ، یٰا بٰاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ، یٰا مُنْتَہٰی کُلِّ نَجْویٰ، وَیٰا غٰایَةَ کُلِّ شَکْویٰ، وَیٰا عَوْنَ کُلِّ مُسْتَعِیْنٍ، یٰا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقٰاقِہٰا۔

اے وہ کہ جس نے خوبصورتی کو ظاہر کیا اور قبیح کو چھپایا،اے وہ  کہ جو گناہ پر مؤاخزہ نہیں کرتا  اور  پردہ فاش نہیں کرتا،اے عظیم احسان کرنے والے،اے چشم پوشی کرنے والے کریم،اے استحقاق سے پہلے نعمتیں عطا کرنے والے،اے بہترین درگزر کرنے والے،اے وسیع بخشش والے،اے وہ کہ جس کے دست رحمت کھلے ہیں،اے ہر راز کی انتہا اور اے ہر شکوہ و شکایت کی انتہا،اور اے ہر مددطلب کرنے والے کے مددگار،اے استحقاق سے پہلے نعمتیں عطا کرنے والے۔

پھردس مرتبہ ’’یٰا ربّٰا ہُ ‘‘(اے میرے پالنے والے)دس مرتبہ’’یٰاسَیَّدٰاہُ ‘‘(اے میرے سرور و آقا) دس مرتبہ ’’یٰامَولاٰہُ ‘‘(اے میرے مولا)د س مرتبہ ’’یٰاغٰایَتٰاہُ‘‘(اے میرے مقصد کی انتہا)دس مرتبہ’’یٰامُنْتَھیٰ رَغْبَتٰاہُ‘‘(اے میری رغبت و شوق کی انتہا)۔

 أَسْئَلُکَ بِحَقِّ ھٰذِہِ الْاَسْمٰاءِ، وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطّٰاہِرِیْنَ عَلَیْہِمُ السَّلاٰمُ الاّٰ مٰا کَشَفْتَ کَرْبِيْ، وَنَفَّسْتَ ھَمِّيْ، وَفَرَّجْتَ عَنِّيْ، وَأَصْلَحْتَ حٰالِيْ۔

میں ان اسماء کے صدقے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد اور ان کی پاک آل کے طفیل کہ جن پر درود و سلام ہو،مگر یہ کہ میری مصیبت وسختی کو ختم کر دے،میرے غم کو برطرف کردے اور میرے امور میں آسانی فرا اور میرے حال کی اصلاح فرما۔

اس کے بعد جو چاہو دعا کرو اورپھر اپنے داہنے رخسار کو زمین پر رکھو اور سجدہ میں سومرتبہ کہو :

يَا مُحَمَّدُ يَا عَلِيُّ ، يَا عَلِيُّ يَا مُحَمَّدُ،اِکْفِیٰانِيْ فَاِنَّکُمٰا کٰافِیٰانِيْ، وَانْصُرٰانِيْ فَاِنَّکُمٰانٰاصِرٰانِيْ۔

اے محمد،اے علی،اے علی اے محمد،میری کفایت کیجئے، بیشک آپ دونوں میرے حامی ہیں اور میری مدد کیجئے،آپ دونوں میری  مددکرنے والے ہیں

پھر بائیں رخسار کو زمین پر رکھو اور سومرتبہ کہو’’أَدْرِکْنِيْ‘‘ (مجھے پہنچئے)یا اس سے بھی زیادہ بار کہواور اس کے بعدایک ہی سانس میں جتنی بار ’’ أَلْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ‘‘(مدد کرنے والے،مدد کرنے والے،مدد کرنے والے)کہہ سکتے ہوکہو۔پھرسجدہ سے سراٹھاؤ، انشاء اللہ خدا وند کریم تمہاری حاجت پوری کرے گا۔

جب میں نماز و دعا میں مشغول ہوگیا تو وہ  حرم سے باہر چلے گئے۔میں نے نمازا ور دعا تمام کی اور ابن جعفر کے پاس آیا تاکہ اس شخص کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کیسے حرم میں داخل ہوئے؟

میں نے دیکھا کہ سارے دروازے بند ہیں اور تالے لگے ہوئے ہیں ،مجھے تعجب ہوا ۔ اپنے آپ سے کہا :شاید وہ اوّل شب سے یہیں موجود ہوں اور مجھے علم نہ رہا ہو۔

میں ابن جعفر کے پاس گیا، وہ اس کمرہ سے باہر آئے جس میں حرم کے چراغوں میں ڈالا جانے والا تیل رکھا ہوا تھا ان سے اس بارے میں پوچھا۔

 انہوں نے کہا :جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ سارے دروازے بند ہیں ۔میں نے سارا ماجرا انہیں بتایا:

انہوں نے کہا: وہ ہمارے مولا حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تھے۔ اسی طرح رات میں جب لوگ چلے جاتے ہیں اور حرم خالی ہو جاتا ہے تو میں نے کئی باران کی زیارت کی ہے ۔

میں نے جو چیز کھو دی تھی،مجھے اس پر شدت سے افسوس ہوا ،طلوع فجرکے وقت حرم مطہر سے باہر آیااور ’’کرخ‘‘(جہاں میں چھپا ہوا تھا )چلا گیا ۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ ابو منصور کے کارندے مجھ سے ملاقات کے لئے میرے دوستوں سے پوچھ رہے تھے۔ان کے ہاتھ میں وزیر کا امان نامہ تھا جسے خود اس نے لکھا تھا اس میں صرف اچھائی اور نیکی ہی لکھی ہوئی تھی۔

میں اپنے ایک قابل اطمینان دوست کے ساتھ وزیر کے پاس گیا ،وہ اٹھا اور اس نے مجھے گلے لگا لیا،اس نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ ابھی تک میں نے اس سے ایسا سلوک نہیں دیکھا تھا اور اس نے میری طرف دیکھ کر کہا:

 اب یہ نوبت آگئی ہے کہ تم حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے میری شکایت کرتے ہو ؟

 میں نے کہا : وہ ایک دعا اور درخواست تھی ۔ اس نے کہا : تم پر وائے ہو ، کل رات یعنی شب جمعہ میں نے اپنے مولا حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کو خواب میں دیکھا ،انہوں نے مجھے اچھے کاموں کا حکم دیا اور اس  بارے میں مجھ سے ایسی سختی کے ساتھ پیش آئے کہ میں ڈر گیا ۔

میں نے تعجب کیا اور کہا : لاٰاِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہ !میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ حق ہیں اور حق کی انتہا ہیں۔گذشتہ رات میں نے اپنے مولا کی بیداری کے عالم میں زیارت کی اور مجھ سے اس طرح فرمایا ۔ اور میںنے جوکچھ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حرم میں دیکھا تھا اس سے بیان کیا۔

وہ اس واقعہ سے حیران ہوا ور میرے ساتھ نیک سلوک کیا۔اس کی طرف سے مجھے ایسا مقام ملا جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ سب کچھ حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی برکت تھی۔[1]

علامہ شیخ علی اکبر نہاوندی’’عبقری الحسان ‘‘میں کہتے ہیں:

میں نے اس دعا و عمل کا کئی بار تجربہ کیا اور حاجت پوری ہونے میں اسے مؤثر پایااور پھر انہوں نے مرحوم ملا محمود عراقی کے  ’’دارالسلام‘‘میں بیان کو یوں نقل کیا:میں نے اس دعا میں عجیب اثر دیکھا سب سے پہلے میں نے تہران میں١٢٦٦  ھ میں اس کا مشاہدہ کیا اور میں امام جمعہ حاجی مرزا باقر کے ساتھ تھااور جناب مہدی ملک التجار تبریزی کے گھر میں تھے ،انہیں ان کے وطن سے نکال دیا گیا تھا اور انہیں حاکم کی طرف سے تبریز واپس جانے کی اجازت نہیں تھی ۔

میں اگرچہ ان کا  مہمان تھا لہذا کھانے پینے کا خرچہ مجھ پر نہیں تھا لیکن دوسرے اخرجات کی وجہ سے میرے لئے قرض کا بھی کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ میں وہاں کے لوگوں سے آشنا نہیں تھا جس کی وجہ سے تنگدستی کے عالم میں زندگی بسر کر رہا تھا ۔

ایک دن میں امام جمعہ کے ساتھ صحن میں بیٹھا آرام کر رہا تھا اور پھر ظہر کے وقت میں نماز پڑھنے اور آرام کرنے کی غرض سے  اوپر والے کمرے میں گیا اور ظہر و عصر کی نماز پڑھنے کے بعد کمرے میں ایک کتاب دیکھی ،میں نے وہ کتاب اٹھائی اور دیکھا کہ وہ بحار الانوار کی تیرہویں جلد کا ترجمہ ہے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حالات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔

میں نے کتاب کو کھولا اور آنحضرت کے معجزات کے باب میں یہ دعا دیکھی اور میں نے اپنے آپ سے کہا۔میں بھی اس وقت سخت مشکل میں گرفتار ہوں ،اس عمل کا تجربہ کرنا چاہئے ۔میں اٹھا اور میں نے نماز پڑھی اور دعا کی اور پھر سجدہ کیا۔پھر میں شیخ کے پاس گیا اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا اسی وقت ایک شخص ہاتھ میں کاغذ لئے امام جمعہ کے پاس آیا اور اس نے امام جمعہ کو سفید رومال کے ساتھ وہ خط دیا۔امام جمعہ نے وہ خط پڑھا اور اس رومال کے ساتھ مجھے دے دیا اور کہے لگے:یہ تمہارے  لئے ہے۔جب میں نے وہ رومال کھولا تو دیکھا کہ تاجر علی اصغر تبریزی نے اس میں بیس تومان رکھے ہیں اور خط میں لکھا ہے کہ وہ مجھ تک پہنچا دیئے جائیں۔میں نے غور کیا تو وہ خط ٹھیک اسی وقت لکھا گیا تھا کہ جس وقت میں نے دعا کی تھی ۔مجھے بہت تعجب ہوا اور سبحان اللہ کہتے ہوئے ہنسنے لگا۔

امام جمعہ نے مجھ سے اس کی علت پوچھی تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔

انہوں نے کہا:سبحان اللہ،اب میں بھی اپنی مشکل کے حل کے لئے یہ عملانجام دوں گا۔

میں نے ان سے کہا اٹھو اور جلدی کرو۔

وہ اٹھے اسی کمرے میں گئے ،ظہر و عصر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد یہ عمل انجام دیا۔ ابھی تھوڑا وقت بھی نہ گزرا تھا کہ انہیں اطلاع ملی کہ جس امیر نے انہیں تہران بلایا تھا اسے معزول کر کے کاشان بھیج دیا گیا تھااور شاہ نے امام جمعہ سے معذرت کی اور انہیں نہایت احترام سے واپس تبریز بھیج دیا گیا۔

اس کے بعد میں نے یہ عمل محفوظ کر لیا اور اہم حاجات اور مشکلات کے وقت اسے انجام دیتا ہوں اور میں نے اس کے نہایت ہی سریع اور عجیب اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔

ایک سال نجف میں بیمارتی اور وباء پھیل گئی تھی جس کی وجہ سے بہت سے افراد ہلاک ہو گئے تھے اور لوگ بہت مضطرب اور پریشان تھے ۔جب میں نے انہیں ایسے دیکھا تو میں چھوٹے دروازے سے شہر سے باہر گیا اور خالی جگہ پر اس عمل کو انجام دیا اور خدا سے وباء کے خاتمہ کے لئے دعا کی۔پھر جب میں شہر میں واپس آیا اور میں نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ میں نے کیا عمل انجام دیاہے،لیکن میں نے اپنے قریبی افراد کو وباء کے ختم ہونے کی اطلاع دی۔

انہوں نے مجھ سے کہا :تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو ؟

میں نے کہا :میں اس کی علت بیان نہیں کروں گا ۔

انہوں نے کہا:کل رات سے فلاں فلاں اس وباء میں مبتلا ہوا ہے ۔میں نے کہا:ایسانہیں ہے مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ کل رات سے پہلے اس وباء میں گرفتارہوئے ہیں ۔اور تحقیق کرنے کے بعد میری بات درست ثابت ہوئی۔

کئی بار میرے دوست مشکلات میں گرفتار ہوئے اور میں نے انہیں یہ عمل تعلیم دیا اور جلد ہی ان کی مشکل حل ہو گئی۔

ایک دن میں اپنے ایک دوست کے گھر تھا اور مجھے اس کی مشکلات اور پریشانیوں کا علم ہوا تو میں نے اسے یہ عمل تعلیم دیا اور پھر اپنے گھر واپس چلا گیا لیکن کچھ دیر کے بعد دروازے پر دستک کی آواز آئی ،وہی شخص میرے گھر آیا اور اس نے کہا:دعائے فرج کی برکت سے میری مشکل حل ہو گئی ہے اور میرے ہاتھ کچھ مال آیا ہے ۔تمہیں جس قدر ضرورت ہو میں تمہیں دے دوں۔

میں نے اسے کہا:میں اس عمل کی وجہ سے محتاج نہیں ہوں لیکن تم بتاؤ کہ تمہاری  یہ مشکل کیسے حل ہوئی؟

اس نے کہا:واقعہ یہ ہے کہ جب تم چلے گئے تو میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے حرم میں گیا اور میں نے یہ عمل انجام دیا  اور جب حرم مطہر سے باہر نکلا تو میری ایک شخص سے ملاقات ہوئی اور اس نے مجھے میری ضرورت کے مطابق رقم دے دی۔

المختصر یہ کہ ہم نے اس عمل کے بہت سے آثار دیکھے ہیں لیکن میں نے یہ دعا اسے ہی تعلیم دی جو بہت ہی تنگدست اور پریشان حال ہو اور میں خود بھی یہ عمل تب تک انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ میں بھی کسی سخت مشکل میں گرفتار ہوں کیونکہ آنحضرت نے اس دعا کو دعائے فرج کا نام دیا ہے تو یہ دعا سخت مشکلات کے وقت اثر رکھتی ہے۔[2]

 


[1] ۔ تبصرة الولی: ١٩٢،بحارالانوار :ج ۹۱ ، ص ٣٤٩،دلائل ا الامامة:٥٥١

[2] ۔ العبقری الحسان:١٢٩١،المسک الأذفر و دارالسلام عراقی:١٩٢،مگر کچھ فرق کے ساتھ۔

    ملاحظہ کریں : 180
    آج کے وزٹر : 56767
    کل کے وزٹر : 93671
    تمام وزٹر کی تعداد : 136244547
    تمام وزٹر کی تعداد : 93973041