امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
25) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام

کی دوسری پیشنگوئی

     کتاب''الغارات'' میں لکھتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہر دن مسجد کوفہ میں ایک مقام پر تشریف فرما ہوتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ منبر پر تشریف لے جاتے اور اپنی انگلیاں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے اور فرماتے تھے: صرف کوفہ باقی رہ گیا ہے کہ جس میں میرا حکم چلتا ہے ۔ اور فرمایا:

لعمر أبیک الخیر یا عمرو انّن           علی وضر من ذا الاناء قلیل

     ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے کوفہ؛ اب صرف تم ہی میرے پاس ہو ،کاش کہ تو بھی نہ ہوتا اور مجھے اپنے طوفانوں سے پریشان نہ کرتا ۔ اے کوفہ؛ تمہارا منہ کالا ہو۔

     نیز آپ نے فرمایا:اے لوگو؛بسر بن ارطاة یمن پر ظاہر ہوا اور اب عبیداللہ عباس اور سعید بن نمران آگئے ہیں ۔ میں دیکھ رہا کہ یہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گی اور باطل غالب آجاے گا؛لیکن تم لوگ حقپر ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہو۔وہ لوگ اپنے رہبر کی اطاعت کرتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے امام کی بات نہیں سنتے ۔وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں   لیکن تم لوگ امانت میں خیانت

کرتے ہو۔

     میں نے فلاں شخص کو ولی بنایا اور اس نے خیانت کی،مسلمانوں کے مال اور غنائم لے کر معاویہ کی طرف چلا گیا۔دوسرے کو حاکم بنایا تو اس نے بھی اسی کی طرح خیانت کی۔اب مجھے اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ میں ایک تازیانہ بھی تم لوگوں کے پاس بطور امانت رکھوں۔

     میں گرمیوں میں تم لوگوں سے کہوں کہ جہاد کے لئے جاؤ تو کہتے ہو:اب موسم گرم ہے ،کچھ تأخیر کر دیں تاکہ گرمیاں گذر جائیں۔اگر سردیوں میں جنگ پر جانے کا حکم دوں تو کہتے ہو کہ ابھی موسم سرد ہے ،کچھ مدت تک رک جائیں تا کہ سردیاں گذر جائیں۔

     خدایا:وہ مجھ سے تھک گئے ہیں اور میں ان سے تھک گیا ہوں، مجھے ان سے بہتر (امت) عطا کر اور ان پر مجھ سے برا (حاکم) مسلط کر۔ان کے دل کو پانی کر دے ؛جس طرح نمک پانی میں گھل ہو جاتا ہے۔

     حارث بن سلیمان کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     یہ قوم تم لوگوں پر غالب آ ئے گی؛کیونکہ تم لوگمتحد نہیں ہو اور حق کا دفاع نہیں کرتے ہو ، لیکن وہ لوگ اپنے باطل پرمتحد ہیں ۔ جب بھی تم لوگوںمیں  ک  وئی ایسا امام ہو کہ جو لوگوں میں عدالت سے کام لے اور مال تقسیم کرنے میں سب کو یکساں دیکھے تو اس کی اطاعت کرواور اس کی باتوں کو سنو۔ لوگوں میں نظم و ضبط نہیں پایا جاتا مگر یہ کہ ان میں کوئی امام ہو،خواہ وہ امام اچھا عمل کرے یا برا عمل کرے۔اگر وہ نیک  کام کرے تو اس کے اپنے لئے بھی اچھا ہے اور لوگوں کے لئے بھی اور اگر بدکار ہو تو اس کی حکومت میں مؤمن خدا کی عبادت میں مشغول ہو جائیں اور فاسق و فاجر اس وقت تک کام کرتے رہیں گے جب تک ان کے لئے معین ہواہو۔

     اے لوگو!میرے جانے کے بعد تم لوگوں کو حکم  دیا جاے گا کہ مجھ پر سبّ و شتم کرو اور مجھ سے بیزاری  و برائت اختیارکرو۔جو بھی مجھپر سبّ و شتم کرنا چاہے اس میں کوئی مانع نہیں ہے،لیکن مجھ  سے برائت اختیار  نہ کرنا کیونکہ میرا دین اسلام ہے۔

ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:لوگ ایک دوسرے سے ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کی مذمت کی  اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے، اشراف اور بزرگ افراد آپس میں مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے اور پھر وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:یاامیر المؤمنین ؛آپ کسی شخص کو معین کریں اور اس کے ساتھ ایک لشکر بھیج دیں تا کہ اسے سبق سکھا سکیں،اور اس کے بعد بھی آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی اطاعت کریں گے اور آپ کی  خوشنودی کے برخلاف کوئی فعل انجام نہیں دیں گے۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے اس مرد کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا مگر یہ کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو مار دے اور اسے اس ملک سے باہر نکال دے،اب تم لوگ استقامت کا مظاہرہ کرو اور میری باتوں کو سنو اور خود کو شامیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار کرو۔

     اسی دوران سعید بن قیس ہمدانی اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛خداکی قسم؛اگر آپ ہمیں قسطنطنیہ یا روم کی طرف پیدل بھی بھیج دیں اور ہمیں کوئی تنخواہ اور کوئی فائدہ بھی نہ دیں  پھر بھی میں اور میری قوم آپ کی مخالفت نہیں کرے گی۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     تم سچ کہہ رہے ہو،خدا تمہیں جزاء خیر عطا فرمائے۔

     اس کے بعد زیاد بن خصفہ اور وعلة بن مخدوع اٹھے اور انہوں نے کہا:یا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ؛ہم آپ کے شیعہ ہیں اور آپ کا حکم مانتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہماری کوئی مخالفت نہیں ہے۔

     فرمایا: ہاں؛ تم سچ کہہ رہے ہو اور اب خود کو شام جانے کے لئے تیار کرو۔

     لوگوں  نے اپنی اطاعت کاا علان کیا اور آپ نے فرمایا:کسی ایسے شخص کے بارے میں بتاؤ جوعراقی سرحدوں کی طرف سے لوگوں کو جنگ کی دعوت دے۔

     سعید بن قیس نے کہا:خدا کی قسم؛ عربوں کے اس جنگی امور کے لئے ایسے شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جو مکمل طور پر آپ کا دفاع کرے گا اور آپ کے دشمنوں سے سختی سے پیش آئے گا۔

     حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: وہ شخص کون ہے؟

     کہا: معقل بن قیس ریاحی۔

     آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے بلایا اور اور کوفہ کی سرحد کی طرف بھیجا اور ابھی تک وہ واپس نہیں آیا تھا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام  شہید ہو گئے۔[1]

 


[1]۔ الغارات و شرح اعلام آن: ٣٣٣
 

 

 

    بازدید : 2012
    بازديد امروز : 43516
    بازديد ديروز : 167544
    بازديد کل : 143698062
    بازديد کل : 99205114