امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
24) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام

کی دوسری پیشنگوئی

     ابن ابی الحدید نے ''ولئن أمھل اللّٰہ الظالم فلن یفوت أخذہ وھو لہ بالمرصاد فرض کرو کہ اگر خداوند ظالم کو مہلت دے لیکن ان کا مؤاخذہ کرنے سے باز نہیں آئے گا اور خداوند اس کے لئے کمین میں ہے''سے شروع ہونے والے خطبہ میں کلمات کی تشریح کرنے کے بعد اس طرح سے بحث بیان کی ہے:

     امیر المؤمنین علی علیہ السلام  قسم کھاتے ہیں کہ شامی ضرور عراق کے لوگوں پر کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ حق پر اور عراقی باطل پر ہیں ، بلکہ اس کا یہ سبب ہے کہ وہ اپنے امیر کے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہیں۔

     جنگ میں فتح کا دارومدار فوج کی کمانڈ اور اس کے امور کو منظم رکھنے پر ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کا دارومدار حق پر ہوتا ہے۔اگر عقیدے کے لحاظ سے کوئی لشکر حق پر ہو لیکن ان کی آراء مختلف ہوں اور وہ اپنے سپہ سالار کی فرمانبرداری نہ کریں تو اس جنگ میں ان سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ اسی لئے ہم نے کئی باردیکھا ہے کہ مشرک ، اہل توحید پر فتح پا جاتے ہیں۔

     پھر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اس بارے میں ایک لطیف نکتہ نقل کیا ہے اور فرمایا ہے:

     عام طور پر عرف میں یہ ہوتا ہے کہ رعایا حاکم کے ظلم و ستم سے ڈرتی ہے جب کہ میں خود پراپنی رعایا کے ستم سے خوفزدہ ہوں۔

جو کوئی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دورۂ حلافت کے حالات پر غور کرے تو وہ یہ سمجھ جائے گا کہ آنحضرت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں جو کچھ تھا آپ وہ نہیں کر سکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت کو حق وحقیقت سمجھنے والے بہت کم تھے اور اکثر لوگوں کا آنحضرت کے بارے میں ویسا عقیدہ نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہئے تھااور وہ آپ سے پہلے خلفاء کو آپ سے افضل سمجھتے تھے اوران کا یہ خیال تھا کہ افضلیت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے۔ان کی نئی نسل بھی  اپنے آباء  و اجداد کی تقلید کرتی تھی اور ان کا یہ کہنا تھا: اگر ہمارے آباء و اجداد ان کی فضیلت سے آگاہ ہوتے تو انہیں دوسروں پر مقدم کرتے اور وہ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کوپہلے خلفاء کی رعایا اور پیروکار سمجھتے تھے! آنحضرت کے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے بھی اکثر کی بنیاد تعصب، جوش، تکبراورعربی گھمنڈتھا نہ کہ وہ عقیدے اور دین کی وجہ سے جنگ کر رہے تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام انہیں  مجبوراً برداشت کررہے تھے اور آپ جو کچھ چاہتے تھے اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔([1])

 


[1]۔ جلوۂ تاریخ ددر نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج٣ص٣٧٠
 

 

 

 

    بازدید : 1924
    بازديد امروز : 15812
    بازديد ديروز : 165136
    بازديد کل : 140992199
    بازديد کل : 97364749