امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
16) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی دوسری پیشنگوئی

معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی دوسری پیشنگوئی

رسول خداۖ نے معاویہ کے بارے میں ایک د وسری پیشنگوئی بھی کی اور یہ پیشنگوئی جناب ابوذر کے بارے میں بیان فرمائی ۔ یہ ایک مفصل واقعہ ہے جسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے اور  اس میں عثمان کے کھانے اور کھلانے کے بارے میں بھی اہم مطالب موجود ہیں لہذا ہم اسے نقل کرتے ہیں:

     جناب ابوذر  کا واقعہ اور انہیں ربذہ کی طرف نکال دینا ان کاموں میں سے ہے کہ جن کی وجہ سے عثمان پر اعتراضات کئے گئےہیں ۔ یہ بات ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے کتاب السقیفة  میں عبدالرزاق سے،انہوں نے اپنے پاب سے ،انہوں نے عکرمہ اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ہے: جب ابوذر کو ربذہ کی طرف نکال دیا گیا تو عثمان نے حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کروا و کہ کوئی بھی ابوذر سے ہم کلام نہ ہو اور نہ ہی انہیں دداع کرے اور مروان بن حکم کو حکم دیا کہ ابوذر کو مدینہ سے باہر نکال دے۔

     اس نے ایسا ہی کیا اور لوگوں نے ابوذر کی مدد کرنے سے اجتناب کیالیکن حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ،آپ کے بھائی جناب عقیل، حضرت امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام اور جناب عمار یاسر ،جناب ابوذر کے ساتھ شہر سے باہر آئے اور آپ کو وداع کیا۔

 امام حسن علیہ السلام نے جناب ابوذر سے گفتگو کا آغاز کیا: مروان نے آنحضرت سے کہا: اے حسن؛آرام کرو،لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ امیر المؤمنین !نے اس شخص سے بات کرنے سے منع کیا ہے؟!اگر نہیں جانتے تو اب جان  لو۔

     اسی وقت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مروان پر حملہ کیا اور تازیانہ سے اس  کی سواری دونوں کانوں کے درمیان مار کر فرمایا: دور ہو جا کہ خدا تمہیں آگ میں ڈالے۔

     مروان غصہ کے عالم میں عثمان کے پاس واپس لوٹ گیا اور عثمان سے سار واقعہ بیان کیا،پھر عثمان حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے ناراض ہوا!

     جب جناب ابوذر کھڑے ہوئے تو ان حضرات نے انہیں وداع کیا ۔ ذکوان (ام ہانی بنت ابوطالب کا آزاد کیا ہوا کہ جو حافظ حدیث،قوی حافظہ کا مالک اور ابوذر کے ساتھ تھا) نے کہا ہے: میں نے ان حضرات کی ابوذرسے ہونے والی گفتگو کو حفظ کر لیا کہ جو یہ تھی:

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے ابوذر !تم نے خدا کے لئے ناراضگی اختیار کی ہے، یہ قوم تم سے اپنی دنیا کے لئے خوفزدہ تھی اور تم ان سے اپنے دین و آخرت کے لئے خوفزدہ تھے، انہوں نے تمہیں اپنی دشمنی اور بغض کی وجہ سے مشکلات میں ڈالا اور ایسی مصیبت میں گرفتار کر دیا اور تمہیں ایسے خشک صحرا کی طرفبھیج دیا۔خدا کی قسم! اگر آسمان و زمین کسی بندے  کے لئیبند ہو جائے اور وہ خدا سے ڈرے اور پرہیز گاررہے تو خداوند اس کے لئے ان ددونوں سے باہر آنے کا راستہ فراہم کرے گا۔

     اے ابوذر!حق کے علاوہ کوئی چیز بھی تم سے مأنوس نہ ہو اور باطل کے علاوہ تم کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہونا۔

     پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے ساتھ موجود افراد سے فرمایا: اپنے چچا سے خداحافظی کرو۔

     اور عقیل سے فرمایا:اپنے بھائی سے خداحافظ کرلو۔

     اس وقت عقیل نے گفتگو کی اور یوں اظہار کیا: اے ابوذر!اب کیا کہیں ، تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں کس قدر دوست رکھتے ہیں اور تم بھی ہمیں کس قدر دوست رکھتے ہو،خدا سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو کہ پرہیزگاری ہی کامیابی ہے، اور صبر کرو کیونکہ صبر ہی  کرامت ہے، اور جان لو کہ اگرتم نے صبر کو  مشکل سمجھا تو یہ بے تابی کا سبب بنے گا ، اور اگر عافیت آنے میں دیر سمجھوتو یہ ناامیدی ہے، اس لئے ناامیدی و بے تابی کو رہا کر دو۔

     پھر حضرت امام حسن علیہ السلام نے یوں فرمایا:

     چچا جان؛ اگر ایسا نہ ہوتا اور یہ امر پسندیدہ نہ ہوتا کہ و شخص خدا حافظی کہے وہ خاموش رہے اور وداع کرنے والا لوٹ جائے تو تمام غم و اندوہ کے ساتھ کلام بھی مختصر ہو جاتا ہے۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس قوم نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟! اور اب دنیا کو یاد کرنا چھوڑ دیں  کہ اس کاانجام اچھا ہو گا اورمشکلات کو امید سے اپنے لئے حل کریں، صبر کریں تا کہ اپنے پیغمبر(ان پر اور ان کی آل پر خدا کا درو ہو) کا دیدار کریں اور وہ آپ سے راضی و خوشنود ہوں۔

     پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے یوں فرمایا:

     چچا جان؛ خداوند اس چیز پر قادر ہے کہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے تبدیل کر دے اور وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے۔

     اس قوم نے اپنی دنیا کو آپ سے دور کیا اور آپ نے اپنا دین ان سے دور رکھا،  انہوں نے آپ سے جو چیز دور کی آپ اس سے بے نیاز ہیں، اور آپ نے ان سے جو چیز دورکردی انہیں اس کی شدید ضرورت ہے۔ اب خدا سے صبر و نصرت طلب کریں،  بے تابی  نہ کریں اور خدا سے پناہ مانگیں کیونکہ صبر دین و کرامت میں سے ہے اور لالچ حتی کہ ایک دن کو بھی مقدم نہیں کرتا اور بے تابی موت میں تاخیر نہیں کرتی ۔

     پھرجناب عمار یاسرنے غصے میں گفتگو کی اور یوں اظہار کیا:جس نے تمہیں مصیبت میں ڈالا خدا اسے آرام و سکون نہ دے اور جس نے تمہیں ڈرایا خدا اسے امان نہ دے ۔ بیشک خدا کی قسم؛اگر تم ان کی دنیا طلب کرتے اور ان کے ساتھ ہماہنگ ہوتے تو وہ تمہارے لئے دنیا فراہم کر دیتے اور اگر تم ان کے امورپر راضی ہوتے تووہ تمہیں دوست رکھتے۔ کسی بھی چیز نے لوگوں کو تمہارے کلام اور اعتقاد  سے بازنہیں رکھا مگر دنیا پر ان کی رضائیت اور موت سے خوف و بے تابی۔

     وہ اس چیز کی طرف مائل ہو گئے کہ جس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ''اور بادشاہی اسی کی ہے کہ جوفاتح ہو''([1]) لوگوں نے اپنا دین انہیں بخش دیا اور اس قوم نے بھی اپنی دنیا انہیں دے دی اور وہ اس دنیا اور اس دنیا میں نقصان اٹھانے والے بن گئے، بیشکیہ آشکار  نقصان ہے۔

     جناب ابوذر جو کہ بوڑھے ہو چکے تھے، بہت روئے اور انہوں نے کہا:اے خاندان رحمت؛خدا آپ پر رحمت کرے کہ میں جب بھی آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں  تو مجھے رسول خدا ۖ  کی یاد آتی ہے، مدینہ میں آپ کے علاوہ میرے لئے نہ تو کوئی سہارا اور آرام تھا اور نہ ہے۔اب میں حجاز میں میراوجود عثمان پرگراں گذر رہا ہے کہ جس طرح شام میں میرا وجود معاویہ پر گراں گذر رہاتھا۔عثمان نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کے بھائی اور خالہ زادبھائی کے جوار میں ان دو شہروںمیں سے ایک میں رہوں([2])کہ کہیں میںان دوشہروں کے لوگوں کو ان کے خلاف نہ بھڑکاؤں۔اس نے مجھے ایسی سر زمین کی طرف بھیج دیا کہ جہاں خدا کے علاوہ کوئی میری نصرت کرنے والا اور میرادفاع کرنے والا نہ ہو گا اور خدا کی قسم! میں خدا کے علاوہ کسی کی ہمنشینی نہیں چاہتا اور مجھے خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہے۔([3])

 سیرت نگاروں،مؤرخوں اور راویوں میں سے اکثر کا یہی خیال ہے کہ عثمان نے پہلے ابوذر کو شام کی طرف جلا وطن کر دیا تھا اور جب معاویہ نے ان کی شکایت کی تو انہیں واپس مدینہ بلا لیااور چونکہ وہ جس طرح شام میں اعتراض کرتے تھے اسی طرح انہوں نے مدینہ میں بھی اعتراضات کئے لہذا انہیں ربذہ کی طرف جلا وطن دیا گیا۔

 اصل واقعہ کچھ یوں ہے:چونکہ عثمان نے مروان بن حکم اور دوسرے لوگوں کو اموال عطا کئے تھے اور اس میں سے کچھ حصہ زید بن ثابت سے مخصوص کیا تھا،ابوذرگلی کوچوں میں لوگوں کے درمیان کہتا تھا۔کافروں کو دردناک عذاب کا مزہ چکھاؤ اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتا تھا:

( وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ)([4])

 اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ پیغمبر،آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

     عثمان کو بارہا اس کی خبر دی گئی اور وہ خاموش رہا اور اس کے بعد عثمان نے اپنے ایک رشتہ دار اور اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کو ابوذر کے پاس بھیجا اور کہا:تمہارے بارے میں مجھ تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں ،اب ان سے دستبردار ہو جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا عثمان مجھے کتاب خداوند کی تلاوت کرنے اور حکم خدا کو پامال کرنے والے کے عیب بیان کرنے سے منع کر رہا ہے؟ خدا کی قسم !اگر میں عثمان کی ناراضگی مول لے کر خداوند کریم کو راضی کر لوں تو یہ میرے لئے اس سے بہتراورپسندیدہ ہے کہ میں عثمان کی رضائیت سے خدا کو ناراض کروں۔یہ پیغام سن کر عثمان سخت غصہ میں آگیا اور اس نے اس بات کو ذہن نشین کر لیا جب کہ ظاہری طور پر وہ صبر سے کام لے رہا تھا،یہاں تک کہ ایک دن عثمان لوگوں کے درمیان تھا تو اس نے پوچھا: کیا امام کے لئے ایسا کرنا جائز ہےکہ وہ خدا کے مال سے کچھ قرض لے لئے اور پھر جب چاہئے اسے واپس کر دے؟

     کعب الأحبار نے کہا:اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے!

     ابوذر نے کہا:اے دو یہودیوں کے بیٹے؛کیا تم ہمارا دین ہمیں کو سکھا رہے ہو؟

     عثمان نے ابوذر سے کہا:تم نے مجھے اور میرے دوستوں کو بہت اذیت پہنچا  لی ،  اب بس تم شام کی طرف چلے جاؤ۔

     عثمان نے  جناب ابوزر کو مدینہ سے جلاوطن  کر شام کی طرف بھیج دیا۔ ابوذر معاویہ کے اعمال کو بھی برا شمار کرتا تھا۔ایک دن معاویہ نے ان کے لئے تین سو دینار بھیجے۔

     ابوذر نے معاویہ کے قاصد سے کہا: اگر یہ میرا مقررشدہ مال ہے کہ جس سے اس سال تم نے مجھے محروم رکھا تو میں یہ قبول کروں گا اور اگر یہ صلہ و بخشش ہے تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ،لہذا اسے واپس لے جاؤ۔

     اس کے بعد معاویہ نے دمشق میں سبز محل بنوایا !جناب ابوذر نے معاویہ سے کہا:اگر تم نے یہ محل خدا کے مال سے بنوایا ہے تو یہ خیانت ہے اور اگر تم نے اپنے مال سے بنوایا ہے تو یہ اسراف ہے۔

     وہ شام میں کہتے تھے:خدا کی قسم؛ایسے امور رونما ہوئے  ہیں کہ جنہیں میں نہیں جانتا اور خدا کی قسم نہ تو ہ خدا کی کتاب میں ہیں اور نہ ہی رسول خداۖکی سنت میں۔خدا کی قسم؛بیشک میں دیکھ رہا ہوں کہ چراغ حق بجھ جائے گا اور باطل زندہ ہو جائے گا اور میں سچے کو دیکھ رہا ہوں کہ جسے جھٹلایا جائے گا اوربے تقویٰ لوگوں کو منتخب کیا جائے گا اور دوسروں کو نیک لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

     حبیب بن مسلمۂ فہری نے معاویہ سے کہا: ابوذر تمہارے لئے شام کو تباہ کر دے گا،شام کے لوگوں سے ملو اور اگر تمہیں شام کی ضرورت ہے تو اس کے بارے میں کچھ سوچو۔

     ابوعثمان جاحظ کتاب''السفیانیّة'میں جلام بن جندل غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا:

     میں معاویہ کا غلام تھا اور ایک دن عثمان قنسرین اور عواصم([5])آیا تھا اور وہ ایک دن معاویہ کے پاس آیا تا کہ اس سے اپنے امور کے بارے میں پوچھے،اچانک میں نے سنا کے معاویہ کے دربار کے دروازے پر کوئی چلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:اونٹوں کی یہ قطار پہنچ گئی جس پر آگ حمل کی جائے گی،خدایا؛جو امر بہ معروف کرتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے اور جو نہی از منکر کرتے ہیں اور خود اسے انجام دیتے ہیں ان پر لعنت فرما۔

     معاویہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،اس کا رنگ بدل گیااور اس نے کہا:اے جلام!کیا تم اس چلانے والے شخص کو جانتے ہو؟

     میں نے کہا:ہر گز نہیں۔

     کہا:کون جندب بن جنادة سے میری جان چھڑاسکتا ہے؟ہر روزوہ میرے دربار کے دروازے پر آتا ہے اور یہی بات کہتا ہے کہ جو اب تم نے سنی ہے۔

     پھر کہا:ابوذر کو میرے پاس لایا جائے۔

     جناب ابوذر کو کچھ لوگ کھنچتے ہوے لے کر آئے!اور انہیں معاویہ کے سامنے کھڑا کر دیا،معاویہ نے ان سے کہا:اے خدا اور رسول خدا کے دشمن!ہر دن تم میرے سامنے آتے ہو اور ایسے ہی کرتے ہو؟ بیشک اگر میں امیرالمؤمنین عثمان! کی اجازت کے بغیراصحاب محمد (ص) میں سے کسی کو قتل کر سکتا تو بلا شک و شبہ  میں تمہیں قتل کر دیتا،اور اب میں تمہارے بارے میں اس سے اجازت لے لوں گا!

     جلام کہتاہے:میں ابوذرکا دیدار کرناچاہتا تھا چونکہ وہ میری قوم میں سے تھے،جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے گندمی رنگ  کا ایک کمزور شخص نظر آیا جن کے چہرے کی ہڈیاں ظاہر تھین اور کمر جھکی ہوئی تھی۔

     انہوں نے معاویہ کی طرف رخ کیا اور کہا:میں خدا اور رسول خداۖ کا دشمن نہیں ہوں؛بلکہ تو اور تیرا باپ ، تم دونوں خدا اور رسول خداۖ کے دشمن ہو ،جنہوںنے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور اپنے کفر کو چھپا لیا اور رسول خداۖ نے تم پر لعنت کی ہے اور کئی بار تم پر نفرین کی ہے کہ تمہار کبھی پیٹ نہ بھرے اور میں نے خود سنا کہ رسول خداۖ نے فرمایا:

     جب بھی تم موٹی آنکھوں والا اور موٹی گردن والا (جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا)شخص میری  امت کا حکمران بن جائے تو میری امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

معاویہ نے کہا:میں وہ شخص نہیں ہوں۔

     ابوزر نے کہا:نہیں؛تم ہی وہ شخص ہو،رسول خداۖ نے مجھے اس بارے میں بتایا ہے اور ایک بار تم آنحضرت ۖ کے پاسسے گذرے تھے تو میں سنا کہ آنحضرت نے فرمایا:

     اے خدا!اس پر لعنت فرما اور اسے خاک کے علاوہ کسی اور چیز سے سیر نہ فرما۔

     اور میں نے پیغمبر اکرمۖ سے  یہ بھی سنا کہ آپ نے فرمایا:

     معاویہ کا ٹھکاناجہنم میں ہے۔

     معاویہ ہنسا اور اس نے ابوذر کو قید کرنے کا حکم دیااور اس کے بارے میں عثمان کو لکھا۔

عثمان نے معاویہ کے جواب میں لکھا:جندب کومنہ زور اور سرکش ترین سواری پر بٹھا کر میرے پاس بھیج دو اور اسے کسی ایسے کے ساتھ بھیجو کہ جو شب و روز اسے تازیانے مارے!

     معاویہ نے ابوزر کو ایک بوڑھے اونٹ پر پالان کے بغیر سوار کیا اور اسے مدینہ بھیج دیا جب کہ ان کی ران کا گوشت راستے کی سختیوں کی وجہ سے گر گیا تھا۔

     جب ابوذر مدینہ پہنچے تو عثمان نے انہیں پیغام دیا:تم جہاں جانا چاہو چلے جاؤ۔

     جناب ابوذر نے کہا:کیا میں مکہ کی طرف چلا جاؤں؟

     کہا:نہیں۔

     ابوذر نے کہا:بیت المقدس کی طرف چلا جاؤں؟

     کہا:نہیں۔

     کہا:کیا میں ان دوشہروں میں سے ایک کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا: نہیں بلکہ میں خود تمہیں ربذہ کی طرف جلاوطن رہا ہوں۔

     عثمان نے ابوذر کوربذہ کی طرف جلاوطن کردیا اور وہ آخر تک وہیں تھے ،یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

     واقدی کی روایت ذکر ہوا ہے کہ جب ابوذر عثمان کے پاس آئے تو عثمان نے ان کے لئے ایک شعر پڑھا کہ جو یوں تھا:خداوند قین کی آنکھوں کو کبھی روشن نہ کرنا اور کبھی اسے خوبصورتی نہ دینا اور جب بھی ہمارا آمنا سامنا ہوتا ہے تو ہمارا تحیت و سلام غصہ اور ناراضگی ہے۔

ابوذر نے کہا:میں اپنے لئے کبھی بھی ''قین''نام کو نہیں جانتا۔

     ودسری روایت میں آیاہے کہ عثمان نے ابوذرکے نام کو مصغّر کیا اور کہا:اے جنیدب!خدا تمہاری آنکھوں کو کبھی روشن نہ کرے۔

     ابوذر نے کہا:میرا نام جندب ہے اور رسول خداۖ نے مجھے ''عبداللہ ''کا نام عطا کیا ہے اور میں نے اپنے لئے وہی نام منتخب کیا ہے کہ جو نام پیغمبرۖ نے مجھے دیا ہے۔

عثمان نے کہا:تم وہی ہو کہ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم نے کہاہے:خدا کے ہاتھ بندھے ہیں اور خداوند فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں؟

     ابوذر نے کہا:اگر تم لوگوں کا ایسا اعتقاد نہ ہوتا تو خدا کا مال خدا کے بندوں پر خرچ کرتے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خداۖ سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:

     جب ابوالعاص کے بیٹوں کی تعدا د تیس تک پہنچ جائے تو وہ خدا کے مال کو اپنا مال،خدا کے بندوں کو اپنا غلام اور خدا کے دین کو تباہی کا وسیلہ قرار دیں گے۔([6])

     عثمان نے حاضرین سے کہا:کیا تم نے یہ بات رسول خداۖ سے سنی ہے؟

     انہوں نے کہا: نہیں

     عثمان نے کہا:ابوذر ؛وای ہو تم پر!تم رسول خداۖکی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو؟

     ابوذر نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں سچ بولتا ہوں؟!

     انہوں  نے کہا:خدا کی قسم!نہیں۔

     عثمان نے کہا:علی(علیہ السلام)کو میرے پاس بلاؤ اور جیسے ہی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ابوذر سے کہا:ابوالعاص کے بیٹوں کے بارے میں اپنی حدیث علی (علیہ السلام) سے بیان کرو۔

     ابوذر نے وہ حدیث دوبارہ بیان کی۔

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کہا:کیا آپ نے یہ حدیث رسول خداۖ سے سنی ہے؟

     فرمایا:نہیں؛لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ابوذر سچ بول رہے ہیں۔

     عثمان نے کہا: تم اس کی سچائی سے کیسے آگاہ ہو؟فرمایا:

     میں نے خود رسول خداۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے انسان پرسایہ نہیں کیا اور زمین نے اس سے زیادہ کسی سچے انسان کو خود پر حمل نہیں کیا۔([7])

     وہاں پر موجود لوگوں نے کہا:ہم سب نے یہ حدیث رسول خداۖ سے سنی ہے۔

     ابوذر نے کہا:میں تمہارے لئے حدیث بیان کرتا ہوںجو کہ میں نے پیغمبراکرمۖ سےسنی ہے لیکن تم مجھ پرتہمت  لگاتے ہو، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی زندگی گذاروں گا کہ مجھے اصحاب محمدۖ سے ایسا سننے کو ملے گا!

     واقدی نے ایک دوسری روایت میں اپنی سند سے صہبان (اسلمیوں سے وابستہ)سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:جس دن ابوذر کو عثمان کے پاس لائے تومیں

نے دیکھا کہ عثمان نے ابوذر سے کہا:تم وہی ہو کہ جس نے ایسا ویساکیا ہے؟

ابوزر نے کہا:میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور تم سوچ رہے ہوکہ میں خیانت کر رہا ہوں، میں تمہارے دوستوں کو نصیحت کر رہا ہوں جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:تم جھوٹ بول رہے ہو،تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو اور فتنہ طلب ہو اور تم نے ہمارے لئے شام کو تباہ کر دیاہے!

     ابوذر نے کہا:اپنے وو دوستوں کی روش کی پیروی کرو تا کہ کوئی بھی تم پر بات نہ کرے۔

     عثمان نے کہا:اے بے مادر!تمہارا اس بات سے کیا سرو کارہے؟

     ابوذر نے کہا:خدا کی قسم!میرے پاس امربہ معروف اور نہی ازمنکر کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے۔

     عثمان غصہ میں آگیا اور اس نے کہا:مجھے اس بوڑھے اور جھوٹے آدمی کے بارے میں میری رہنمائی کرو کہ میں اس کا کیا کروں؟اسے ماروں؛قید میں ڈال دوں، قتل کر دوں یا اسے اسلامی ممالک سے نکام دوں کہ اس نے مسلمانوں کی جماعت کو منتشرکر دیا ہے؟!

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرمایا کہ جو وہاںموجود تھے:

     میں  تمہاری اس طرح رہنمائی کرتا ہوں کہ جس طرح مؤمن آل فرعون نے کہا:''اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں ۔ بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے''۔([8])

     عثمان نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کوبہت تند جواب دیا اور آنحضرت نے بھی ویسا ہی جواب دیا اور ہم ان دونوں جوابوں کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ ان میں مذمت کی گئی ہے۔

     واقدی کہتا ہے:اس کے بعد عثمان نے لوگوں کو ابوذر کے ساتھ اٹھنے بیٹھے اور گفتگو کرنے سے منع کر دیا اور انہوں  نے کچھ عرصہ اسی طرح گذارا۔پھر انہیں عثمان کے پاس لایا گیا اور جب وہ عثمان کے سامنے کھڑے ہوئے تو عثمان سے کہا:اے وای ہو تم پر! کیا تم نے رسول خداۖ ، ابوبکر اور عمر کو نہیں دیکھا ؛کیا تمہارا طریقۂ کار انہیں کے طریقۂ کار کی طرح ہے؟تم مجھ پر اس طرح ظلم و ستم کر رہے ہو جس طرح ظالم ظلم کرتے ہیں۔

     عثمان نے کہا:میرے سامنے اور میری ریاستوں سے دور چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:ہاں ؛ تمہاری ہمسائیگی  میرے لے کتنی ناخوشگوار ہے، بتاؤ میں کہاں چلاجاؤں؟

     کہا:جہاں چاہو چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:شام چلے جاؤں، جو جہاد کی سرزمین ہے؟

     عثمان نے کہا:میں نے تمہیں شام سے یہاں اسی لئے بلایا تھا کہ تم نے شام کو تباہ کر دیا تھااور اب میں تمہیں دوبارہ وہیں بھیج دوں؟ ابوذر نے کہا:عراق چلاجاؤں؟

     کہا:نہیں،اگر تم عراق چلے گے تو تم ایسی قوم کے پاس چلے جاؤ گے جو رہبروں اور حکمرانوں پر شک و شبہ کرتے ہیں اور انہیں طعنہ دیتے ہیں۔

     ابوذر نے کہا: کیا میں مصر کی طرف چلا جاؤں؟

     عثمان نے کہا:نہیں۔

     ابوزر نے کہا: تو پھر میں کہاں جاؤں؟

     کہا: صحرا کی طرف چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا: تم کہتے ہو کہ ہجرت کے بعد پھرسے عرب صحرا نشین ہو جاؤں؟

     کہا:ہاں!

     ابوذر نے کہا:میں نجد کے بادیہ کی طرف جا سکتا ہوں؟

     عثمان نے کہا:نہیں؛مشرق سے دوچلے جاؤاور اس راستہ سے جاؤ اور ربذہ سے آگے مت جاؤ۔

     جناب ابوذر ربذہ کی طرف چلے گئے۔

     واقدی نے اسی طرح مالک بن ابی الرجال  اور موسی بن مسیرة سے نقل کیا ہے کہ ابوالأسود دئلی نے کہا ہے:

     میں ابوذر کو دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں ان سے ربذہ کی طرف جانے کا سبب پوچھوں؛ میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا:کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مدینہ سے اپنی مرضی سے چلے آئے ہیں یا کسی نے آپ کو آنے پر مجبور کیا ہے؟

     کہا:میں مسلمانوں کی ایک سرحد کے کنارے پر تھا اور دفاع کر رہا تھا ، میں مدینہ واپس گیا اور میں نے کہا کہ یہ ہجرت اور میرے دوستوں کی جگہ ہے اور میں مدینہ سے بھی یہاں آ گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

     پھرکہا: پیغمبر اکرمۖ کے زمانے میں ایک رات میں مسجد میں سو رہا تھا کہ پیغمبر اکرمۖ میرے پاس سے گذرے اور اپنے پاؤں سے مجھے مارا اور فرمایا:میں یہ نہ دیکھوں کہ مسجد میں ہی سو رہے ہو۔

     میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں؛ مجھ پر نیند نے غلبہ کر دیا تھا اور آنکھ لگ گئی اور  میں مسجد میں ہی سو گیا۔

     فرمایا:تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں اس مسجد سے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے گا؟

     میں نے کہا:میں  اس صورت میں شام چلا جاؤں گا کہ جو مقدس سرزمین اور جہاد کی جگہ ہے۔

     فرمایا:اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیں تو تم کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اسی مسجد میں واپس آجاؤں گا۔

     فرمایا:اگر پھر تمہیں اس مسجد سے نکال دیں تو کیا کرو گے؟

     میں نے کہا:میں اپنی تلوار نکال کر ان کے ساتھ لڑوں گا۔

     فرمایا:کیا اس کام میں تمہاری رہنمائی کروں؟وہ تمہیں جہاں کھینچیں ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کے فرمانبردا بنو اور ان کی سنو۔

     میں نے سنا اور اطاعت کی اور اب بھی سن رہا ہوں اور اطاعت کر رہا ہوں اور خدا کی قسم؛عثمان اس حال میں خدا سے ملے گا جب کہ وہ میرامجرم ہوگا۔([9])

     اس گذشتہ واقعہ میں جناب ابوذر نے معاویہ کے مستقبل کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ سے تین روایات نقل کی ہیں جو معاویہ کے گمراہ ہونے،لعنت نفرین کے حقدارہونے اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔

ان سب کے باوجود  رسول خداۖ کی سنت کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معاویہ کو کیوں پسند کرتے ہیں ؟!

 کیاپیغمبر اکرمۖ نے یہ نہیں فرمایا:''امت کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے''؟

کیا انہیں سب سے زیادہ سچے شخص یعنی جناب ابوذر کا بھی یقین نہیں ہے؟!

کیا عثمان نے رسول خدا ۖکے محبوب ترین صحابی جناب ابوذر کو اس شہر سے اس دیار میں صرف اس لئیجلاوطن نہیں کر دیا تھا کہ وہ عثمان پر اعتراض کرتے تھے کہ عثمان اپنے داماد مروان اور اپنے دوسرے چہیتے لوگوں کو بیت المال سے مال عطا کرتا تھا؟!

کیا عثمان کا یہ فعل بھی سنت رسول خداۖ کی پیروی تھا؟!کیوں عثمان نے معاویہ کو شام کی حکمرانی پر باقی رکھا جب کہ رسول خداۖ نے بارہا س پر لعنت و نفرین کی ہے؟رسول خداۖ کے فرمان کی رو سے کیا عثمان کو اس کا پیٹ چیر دینا چاہئے تھا یا اسے گورنر بنانا چاہئے تھا؟

     ان سوالوں کے جواب کے لئے پیشنگوئیوں کے ان واقعات کی طرف توجہ کریں:

 


[1]۔ یہ ایک ضرب المثل ہے۔

[2] ۔ ظاہراًیہاں دو شہروں سے بصرہ اور مصر مراد ہیں۔مصر کا حاکم عبداللہ بن سد بن ابی شرح کہ جو ثمان کا رضاعی بھائی تھا اور بصرہ کا حاکم عبداللہ بن عامر کہ جو عثمان کی خالہ کا بیٹا تھا، ان دونوں کے حالات زندگی، مشکلات اور گندے کردار کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ''اسد الغابة: ج٣ص١٧٤اور ١٩٢ ''کی طرف رجوع کریں۔

[3]۔ یہ واقعہ کتاب''السقیفة'' (جوہری متوفی ٣٢٣ھ) میں تفصیل کیے ساتھ ذکر ہوا ہے۔

[4]۔ سورۂ توبہ،آیت:٣٤

[5]۔ واصم،حلب کے نزدیک ایک قلعہ ہے۔ معجم البلدان:ج٦ص٢٣٧

[6]۔ یہ حدیث''النہایة ابن اثیر:ج۲ص۸۸اور ١٤٠''میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

[7] ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنیوں کی مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ بحار الانوار مرحوم علامہ مجلسی: ج٢٢ص٣٩٣، نئی چاپ کہ جس میں مختلف منابع بھی لائے گے ہیں اور النہایة ابن اثیر: ج٢ص٤٢۔

[8]۔ سورہ غافر، آیت:۲۸

[9]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۴ص۲۰۴

 

 

 

    بازدید : 2095
    بازديد امروز : 49898
    بازديد ديروز : 167544
    بازديد کل : 143710822
    بازديد کل : 99211496