امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی  ایک اور پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ١٤٤ کے آغاز میں پیغمبر اور رسول مبعوث کرنے کی حکمت بیان فرمائی اور پھرخطبہ کے ایک حصہ میں گمراہوں کی پہچان اور عبدالملک کے مظالم کاتذکرہ کیا:

 امام علی علیہ السلام نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا:

بعث اللّٰہ رسلہ بِما خصّہم بِہِ مِن وحیِہِ، وجعلہم حجّة لہ علی خلقِہِ، لِئلاّ تجِب الحجّة لہم بِتَرکِ الاِعذارِ اِلیہِم، فدعاہم بِلِسانِ الصِّدقِ اِلٰی سبِیلِ الحقِّ۔

....أین الّذِین زعموا أَنَّہم الرّٰاسِخون فِی العِلمِ دونناکذباً وبغیاً علینا؟ أَن رفعنا اللّٰہ ووضعہم، وأعطانا وحرمہم، وأَدخلَنا وَأَخرجہم، بِنا یُستعطَی الہُدی،  وَیُسْتجلَی العمی، اِنَّ الْأَئِمَّةَ مِن قریش غُرِسوا فِی ہذا البطنِ مِن ہاشِم، لا تصلح علی سِواہم، ولا تصلُح الوُلاة مِن غیرِہم۔

 پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نواز کر بھیجا اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تا کہ بندوں کی یہ حجت تما م نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔پروردگار نے ان لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف دعوت دی ہے۔

 ....کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے وہی راسخون فی العلم ہیں؟اور یہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا ہوا ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنا دیا ہے اور انہیں پست رکھا ہے،ہمیں کمالات عنایت فرما دیئے ہیں اور انہیں محروم رکھا ہے،ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا ہے اور انہیں باہر رکھا ہے، ہمارے ہی ذریعہ سے ہدایت طلب کی جاتی ہے اور اندھیروں میں  روشنی حاصل کی جاتی ہے۔یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشف زار میں قرار دیئے گئے ہیں۔([1]) اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی ان کا اہل ہو سکتا ہے۔ (ولایت و امامت اور رہبری و قیادت صرف خاندان ہاشم سے مخصوص ہے)

 آثروا عاجِلاً، وأَخَّروا آجِلاً، وترکوا صافِیاً، وشرِبوا آجِناً کأَنِّ أنظر اِلی فاسِقِہِم وقد صحِب المنکر فألِفَہ، وَبَسَِ بِہِ ووافقہ، حتی شابت علیہِ مفارِقہ، وصُبِغت بِہِ خلائِقہ،ثمّ أَقبل مُزبِداً کالتّیّارِ لا یبالِی ما غرّق، أو کَوَقْع النّٰارِ فی الہَشیمِ لا یحفِل ما حرَّق۔

 (بنی امیہ) ان لوگوں نے حاضر دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور دیر میں آنے والی آخرت کو پیچھے ہٹا دیا ہے، صاف پانی کو نظر انداز کر دیا ہے اور گندہ پانی کو پی لیاہے،گویا کہ میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں جو منکرات سے مانوس ہے اور برائیوں سے ہم رنگ و ہم آہنگ ہوگیا ہے،یہاں تک کہ اسی ماحول میں اس کے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں اور اسی رنگ میں اس کے اخلاقیات رنگ گئے ہیں۔اس کے بعد ایک سیلاب کی طرح اٹھا ہے جسے اس کی فکر نہیں ہے کہ کس کو ڈبو دیا ہے اور بھوسہ کی ایک آگ ہے جسے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کیا کیا جلا دیا ہے۔

 امام علی علیہ السلام نے اس خطبہ میں ایک شخص کو مدنظر رکھا ہے کہ برائی،  پلیدی اور ناپاکی اس کی طبیعت کا حصہ بن گئی ہیں ۔ امام علیہ السلام کا مورد نظر شخص ذات و صفات کے لحاظ سے ناپاک اور بد طینت ہے اور اسی بد طینتی کے ساتھ وہ بوڑھاہو جائے گا۔

 ان دونوں طرح کے اشخاص میں فرق ہے کہ جو کبھی جہالت و نادانی یا دنیا طلبی یا غرور کی وجہ سے کوئی ناپسندیدہ کام انجام دے  اور اپنے گناہ و معصیت کی طرف متوجہ ہوکر توبہ کرے اور اس نے جو کچھ انجام دیا ہو اس پر پشیمان ہو، اورجو ناپسندیدہ کام اور برائیاں اس طرح سے انجام دے کہ یہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جائیں تو اس صورت میں وہ اپنے اعمال کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے کام کی برائی اور اچھائی کو سمجھنے سے عاجز ہوتا ہے۔

 ہندو شاہ ''تجارب السلف'' میں کہتا ہے:ایک دن عبدالملک مروان نے سعید بن مسیب سے کہا: میں ایسا بن گیا ہوںکہ اگر کوئی اچھا کام کروں تو خوش نہیں ہوتا اور اگر کوئی شر بپا کروں تو میں غمگین نہیں ہوتا۔

 سعید نے کہا: ''الآن تکامل فیک موت القلب''

 اب تمہارے دل کی موت مکمل ہو گئی ہے۔

 عبدالملک مروان ان میں سے ہے کہ جس نے اپنی حکومت  کے اکیس سال کے دوران بے  شمار  شرمناک کام انجام دیئے ہیں: جن میں سے ایک حجاج بن یوسف ثقفی کو منتخب کرناتھاجو عراق کی حکومت کے لئے عرب کامشہور خونخوار تھا۔

 حجاج کے قید خانہ میں کئی ہزار قیدی تھے جن میں سے اکثر سادات بنی ہاشم ،قرآن کے قاری،اسلام کے فقہاء اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے شیعہ تھے۔اس نے حکم دیا تھا کہ زندان میں قیدیوں کو نمک یا چونا ملا پانی دیا جائے اور کھانے کی بجائے گدھے کا فضلہ۔([2])

 اس کا دوسرا گناہ خانۂ کعبہ کو آگ لگانا اور اسے ویران کرنا تھا۔

 فاسق سے امام علی علیہ السلام کی مراد کون ہے؟اس کے بارے میں نہج البلاغہ کے شارحین نے مختلف اقوال بیان کئے ہیں۔ابن میثم کہتے ہیں:ممکن ہے فاسق سے ان کی مراد عبدالملک مروان ہو   اس صورت میں اس ضمیر سے مرادبنی امیہ ہیں۔

لیکن ابن ابی الحدید کہتے ہیں: میرے نزدیک بعید نہیں ہے کہ فاسق سے مراد وہ لوگ ہوں کہ جنہیں صحابی تو کہا جاتا ہے لیکن ان کی روش بہت بری تھی جیسے مغیرة بن شعبہ،عمروعاص، مروان بن حکم،معاویہ اور کچھ دوسرے لوگ....۔

 ممکن ہے کہ امام علیہ السلام کی مراد وہی معاویہ بن ابی سفیان ہو کیونکہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے بیس سال تک حکومت کی اور اس مدت کے دوران اس نے بے شمار گناہ و منکرات انجام دیئے اور وہ کبھی بھی اپنے اعمال پر پشیمان نہیں ہوا کیونکہ پلیدی و ناپاکی اس کی فطرت ثانیہ اور اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔

 حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں معاویہ نے جنگ صفین شروع کی کہ جس میں بے شمار مسلمان قتل ہوئے اور آنحضرت کی شہادت کے بعد اس نے حکم دیا کہ تمام مساجد اور منبروں سے خلیفۂ مسلمین پر سبّ و شتم کیا جائے اور یہ گناہ عظیم ساٹھ (٦٠)  سال تک رائج رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے اس گناہ کو ختم کیا۔

 معاویہ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یزید کو اپنا جانشین بنایا کہ جو  برملا گناہ انجام دیتا تھا اور وہ یہ گناہ انجام دینے میں  بے باک تھا۔

 کہتے ہیں: کہ جب معاویہ ثانی ( یعنی اسی معاویہ کا پوتا ) کو حکومت ملی تو چالیس یا اس سے کچھ زیادہ دنوں کے بعد شام کی مسجد میں منبر پر گیا اور اس نے کہا: اے لوگو!جو کام میرے آباء و اجداد کرتے تھے چاہے وہ حق تھا یا باطل، میں اب اس سے زیادہ انجام نہیں دے سکتا،تم لوگ جسے چاہو معین کر لو ۔ یہ کہہ کر وہ منبر سے نیچے اتر آیا اور اپنے گھر جا کر اس نے اپنا دروازہ بند کر لیا یہاں تک کہ مر گیا یا قتل ہو گیا۔اس کی یہی بات باعث بنی کہ بنی سفیان سے حکومت بنی مروان کی طرف منتقل ہوئی۔

 لیکن معاویہ بن ابی سفیان میں اتنی بھی شرافت  اور اتنا انصاف نہیں تھا  اور اس نے اپنے ناپاک  و پلید بیٹے یزید  کے لئے مکر وفریب اور درہم و دینار کے ذریعہ قبائل کے سربراہوں سے بیعت لے لی اور انہیں مسلمانوں کی گردن پر سوار کر دیا ۔ معاویہ ستّر سال تک زندہ رہا اور حقیقت میں وہ اپنی عمر کے آخری حصہ کو پہنچ چکا تھا کہ جب امام علیہ السلام نے اس کی طرف اشارہ کیا۔([3])

 


[1] ۔  امام علیہ السلام کا یہ سخن گویا واقعہ سقیفہ کی طرف اشارہ ہے۔جب انصار نے خلافت کا دعوی کیا تو ابوبکر نے کہا: ''الأئمة من قریش'' اور اپنے اس کلام سے اس نے انصار کے دعوی کوردّ کیا۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں:جی ہاں؛ امام قریش سے ہیں لیکن قریش کے کسی بھی طائفہ سے نہیں بلکہ صرف خاندان ہاشم  میںسے ہیں۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام باپ کی طرف سے بھی اور ماں کی طرف سے بھی ہاشمی ہیں۔

[2]۔ تجارب السلف ہندو شاہ  نخجوانی:٧٥

[3]۔ پیشنگوئی ھای امیرالمؤمنین علیہ السلام :٣٢٢

 

 

    بازدید : 2067
    بازديد امروز : 48620
    بازديد ديروز : 167544
    بازديد کل : 143708267
    بازديد کل : 99210218