حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1 محرم الحرام) حضرت يحيی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ میں حضرت زکریا کی دعا کا مستجاب ہونا

حضرت يحيی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ میں حضرت زکریا کی دعا کا مستجاب ہونا

 (۱)

ماه محرّم کے اعمال

اس میں ماه محرّم کے اعمال کا بیان ہے اور اس میں تین فصلیں ہیں۔ پہلی فصل میں ماہ محرم کے پہلے عشرہ کے اعمال کا بیان ہے....

اس مہینہ کی دس تاریخ کو سید الشہداء امام حسین علیہ السلام درجۂ شہادت پر فائز ہوئے اور آپ  اکثر اس عشرہ میں محزون و غمگین ہوتے۔ اخبار اور روایات میں ہے کہ آئندہ زمانے میں آنحضرت کے شیعہ آپ کی عزداری کریں اور غمگین و محزون رہیں اور آپ کے ذکر مصائب پر مشتل احادیث و روایات بیان کریں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس دن بعض لذتوں کو بھی ترک کریں۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ماہ محرم ایسا مہینہ ہے کہ جس میں کافر جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے لیکن اس امت کے منافقوں نے اس مہینہ میں ہمارا خون بہانا حلال قرار دیا، ہماری ہتک حرمت کی، ہمارے بچوں اور عورتوں کو اسیر کیا۔ہمارے خیموں کو آگ لگائی، ہمارے مال و اسباب کو لوٹا، اور ہمارے سلسلہ میں رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرمت کو پامال کیا۔ بیشک امام حسین علیہ السلام کی مصبت اور غم نے ہماری آنکھوں کو زخمی کر دیا ہے ،ہماری آنکھوں سے آنسؤوں کو جاری کیا ہے ، ہمارے عزیزوں کو خوار کیا ہے اور وہ واقعۂ کرب و بلا وجود میں لائے۔ پس امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر عزادار گریہ کریں کیونکہ آپ پر رونا گناہان کبیرہ کا خاتمہ کرتا ہے۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا:جب ماہ محرم کا آغاز ہوتا تو کوئی میرے بابا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو مسکراتے ہوئے نہ دیکھتا اور پہلے عشرے میں آپ پر غم و حزن کے آثار نمایاں ہوتے اور دس محرم کا دن آپ کے لئے غم و حزن اور گریہ کا دن ہوتا۔ اور آپ فرماتے آج امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے  اور ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ جب میرے جد حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو آسمان سے خون اور سرخ خاک برسی۔

اگر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام پر اس قدر گریہ کریں کہ آنسو رخسار پر جاری ہو جائیں تو خدا وند متعال تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ کو بخش دے گا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ جب تم اس دنیا سے جاؤ تو تمہارا کوئی گناہ بھی نہ ہو تو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرو اور اگر چاہتے ہو کہ بہشت میں رسول  خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ہو تو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرو اور اگر شہدائے کربلا کا ثواب چاہتے ہو تو جب بھی امام حسین علیہ السلام کو یاد کرو تو کہو: ياليتنى كنت معهم فافوز فوزاً عظيما۔ یعنی اے کاش!میں ان کے ساتھ ہوتا تو عظیم کامیابی تک پہنچ جاتا۔اور اگر چاہتے ہو کہ جنت کے اعلیٰ درجات میں ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غم میں غمگین رہو اور ہماری خوشی میں خوش رہو۔ اور یہ جان لو کہ یکم محرم الحرام کا روزہ مستحب  ہے اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ یکم محرم الحرام کو حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی اور خدا سے فرزند طلب کیا، خداوند عالم نے ان کی دعا مستجاب فرمائی اور انہیں حضرت یحییٰ سے نوازا۔ پس جو کوئی بھی اس دن روزہ رکھے تو خداوند عالم اس کی دعا مستجاب فرمائے گا جیسا کہ حضرت زکریا کی دعا مستجاب فرمائی اور شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ماہ محرم کے تیسرے دن روزہ رکھنا بہتر ہے اور اس دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، پس جو کوئی بھی اس دن روزہ رکھے خداوند متعال اس کے مشکل اور دشوار امور کو آسان بنا دے گا ،اس کے غموں کو زائل کر دے گا اور بہتر یہ ہے کہ نویں اور دسویں محرم کو روزہ نہ رکھیں کیونکہ بنی امیہ لعنهم اللَّه نے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کے لئے بطور برکت ان دو دنوں میں روزہ رکھا جب کہ انہوں نے متعدد ایسی روایات گھڑی ہیں کہ جس میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ان دو دنوں کے روزہ کی فضیلت کی نسبت دی ہے ۔جب کہ اہلبیت علیہم السلام کے طرق سے ان دنوں  اور بالخصوص عاشور کے دن کے روزہ کی مذمت میں بے شمار روایات وارد ہوئی ہیں۔ بنی امیہ لعنہم اللہ  اپنے گھروں میں برکت کے لئے عاشور کے دن پورے سال کا اناج ذخیرہ کرتے تھے لہذا حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص بھی عاشور  کے دن اپنی دنیاوی حاجات  کے حصول کی کوشش نہ کرے اور  کام کاج کو چھوڑ دے تو خداوند متعال دنیا و آخرت میں اس کی حاجتوں کو پورا فرمائے گا ،جو شخص بھی عاشورا کے دن کو غم و حزن، مصیبت اور اپنے لئے گریہ کا دن قرار دے تو خداوند متعال روز قیامت کو ان کے لئے فرح و سرور اور خوشی کا دن قرار دے گا  اور اس کی آنکھوں کو بہشت میں ہماری زیارت سے منور فرمائے گا اور جوکوئی بھی عاشورا  کو برکت کا دن قرار دے اور اپنے گھر کے لئے اس دن کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اس کے لئے اس ذخیرہ کو مبارک قرار نہیں دے گا  اور روز قیامت اسے یزید ، عبید اللہ ابن زیاد اور عمر بن سعد علیہم اللعنۃ و العذاب الشدید کے ساتھ محشور کرے گا۔ پس روز عاشورا کوئی شخص بھی کسی بھی دنیاوی کام میں مشغول نہ ہو بلکہ گریہ و عزاداری اور نوحہ و مصائب میں مصروف رہے  اور اپنے اہلخانہ کو سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا حکم دے اور ماتم و عزداری میں مشغول رہے کہ جیسے کوئی اپنے عزیز کے غم میں محزون ہوتا ہے اور اس دن روزہ کی نیت کئے بغیر کھانے پینے سے گریز کرے   اور عصر کے بعد اسے افطار کرے  اگرچہ وہ کوئی شربت ہو اور اس دن پورا روزہ نہ رکھے مگر یہ اس دن کوئی واجب روزہ ہو کہ جو نذر وغیرہ کی وجہ سے واجب ہوا ہو  تو اس صورت میں وہ روزہ رکھے لیکن اس دن گھر میں کوئی خوراک وغیرہ ذخیرہ نہ کرے ،ہنسنے سے پرہیز کرے اور لہو و لعب میں مشغول نہ ہو اور ہزار مرتبہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرے: اللّهمّ الْعنْ قَتَلَةَ الحُسَيْنِ

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص بھی عاشورا کے دن ہزار مرتبہ سورۂ قل ھو اللہ احد کی تلاوت کرے تو خداوند کریم پر اس پر رحمت کی نظر کرے گا اور جس پر خدا کی نظر رحمت ہو جائے خدا اسے ہرگز عذاب نہیں دے گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں شب عاشورا  شب بیداری کرے کیونکہ شب عاشورا صحرائے کربلا میں تیس ہزار سے زیادہ کافروں کے درمیان بھی آنحضرت  اور آپ کے اصحاب نے پوری رات عبادت میں گزاری اور پوری رات  شہادت و سعادت کو طلب کرتے رہے۔  

دوسری فصل:

شب عاشور اور روز عاشور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت معتبر سند سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہوئی ہیں۔ جو شخص بھی شب عاشور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے نزدیک ہو اور آنحضرت کی زیارت کرے تو وہ روز قیامت خون آلود حالت میں شہدائے کربلا کے ساتھ محشور ہو گا اور جو شخص شب و روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تو گویا وہ امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہوا ۔

نیز حضرت امام صادق علیہ السلام سے صحیح السند روایت سے منقول ہے کہ جو شخص بھی عاشور کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے اس پر جنت واجب ہے۔

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی مشہور زیارت کو شیخ طوسی، ابن قولویہ اور دوسرے بزرگوں(خدا ان پر رحمت کرے) نے سیف بن عمیرہ اور صالح بن عقبہ سے روایت کیا ہے اور ان دونوں نے محمد بن اسماعیل اور علقمہ بن محمد خضرمی سے اور ان دونوں سے خالد جہنی روایت کی ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی بھی محرم کے دسویں دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے یا آنحضرت کی قبر مطہر کے قریب گریہ  کرے تو وہ روز قیامت خدا اسے دو ہزار حج، دو ہزار عمرہ، اور دو ہزار ایسے جہاد کا ثواب عطا فرمائےگا کہ جو اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے ہم رکاب کیا ہو۔

مالک نے کہا:میں آپ پر قربان!جو شہر سے دور ہو اور وہ امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے نہ جا سکے تو اس کے لئے کیا ثواب ہو گا؟فرمایا:جب عاشور کا دن ہو تو گھر سے باہر نکل کر صحرا کی طرف جائے یا گھر کی چھت پر جائے اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی طرف اشارہ کرے اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کرے اور آپ کے دشمنوں پر لعنت کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز بجا لائے ۔یہ عمل دن کے آغاز میں ظہر سے پہلے انجام دے اور پھر  امام حسین علیہ السلام پر گریہ و ماتم اور عزاداری کرے  اور پھر گھر کے تمام افراد کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور عزداری کرنے کا حکم دے اور اپنے گھر میں امام کی عزاداری برپا کرنے میں کسی سے تقیہ نہ کرے  اور ایک دوسرے سے ملیں اور گریہ و عزاداری کریں اور ایک دوسرے کو تعزیت پیش کریں ۔ جو کوئی بھی یہ اعمال انجام دے خداوند متعال اسے یہ ثواب عطا فرمائے۔ مالک نے عرض کیا :کیا آپ اس ثواب کی ضامن اور کفیل ہیں؟فرمایا:ہاں

عرض کیا:ایک دوسرے کو کس طرح تعزیت پیش کریں؟فرمایا:یوں کہیں:

عَظَّمَ اللَّهُ اُجُورَنا بِمُصابنا بالحسين عليه السلام وَجَعَلَنا وَإيّاكُمْ مِنَ الطّالِبيْنَ بِثارِهِ‏ مَعَ وَليّهِ الإمامِ الْمَهْدى مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلامُ

اگر ہو سکے تو اس دن کسی کام کے لئے گھر سے نہ نکلو کیونکہ یہ نحس دن ہے ،اس دن کسی مؤمن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہو جائے تو اس کے لئے مبارک نہیں ہو گی اور وہ اس میں کوئی خیر و رشد نہیں دیکھ پائے گا اور اپنے گھر کے لئے کوئی چیز ذخیرہ نہ کرو کیونکہ یہ اس کے لئے اور اس کے اہلخانہ کے لئے مبارک نہیں ہو گا۔ پس جو کوئی بھی اس دن یہ عمل انجام دے تو خداوند کریم اسے ہزار حج،ہزار عمرہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے ہمراہ ہزار جہاد کا ثواب دے گا اور دنیا کی خلقت سے روز قیامت تک اسے ہر پیغمبر، صدیق، رسول، صدیق اور شہید کی مصیبت کا ثواب ملے گا چاہے وہ قتل ہوئے ہوں یا وفات پا گئے ہوں.(1048)


1048) زاد المعاد: 369.

 

منبع: الصحیفة الحسینیة الجامعة : 228

 

ملاحظہ کریں : 1
آج کے وزٹر : 74264
کل کے وزٹر : 171324
تمام وزٹر کی تعداد : 144102067
تمام وزٹر کی تعداد : 99407186