حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1 محرم الحرام) رسول خدا صلی الله عليه وآله کے حکم پر اسلام میں پہلی مرتبہ زکاۃ کی جمع آوری(سنہ ۹ ہجری)

عمر کی تند مزاجی اور معاويه و مغيره کے ساتھ اس کا نرم رویّہ

*********************************************

یکم محرم الحرام: رسول خدا صلي الله عليه وآله  وسلّم کے حکم پر اسلام میں پہلی مرتبہ زکاۃ کی جمع آوری(سنہ ۹ ہجری)

*********************************************

 

«فَبِما رَحْمَةً مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظّاً غَليظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ«(11).

«یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ».

اس آيهٔ شريفه سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی نرم مزاجی اور عفو و درگذر کی وجہ سے مسلمان پراکندہ اور منتشر نہیں ہوئے  اور اگر آنحضرت سختی کرتے تو وہ لوگ متفرق ہو جاتے۔

پس اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے كه مسلمانوں کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہواتھا ورنہ اگر پیغمبر اکرم  صلى الله عليه وآله وسلم سختی کرتے تو وہ متفرّق نہ ہوتے ۔

قرآن نے اس بات کی تصریح کرتے ہوئے کہا ہے: پیغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے نرم لہجہ کی وجہ سے مسلمان جمع‏ ہوئے ۔

عمر کی بدمزاجی کی وجہ سے «طائفهٔ غسان» کا بزرگ  «جبلة بن الايهم» اسلام سے خارج ہو گیا جو تازہ مسلمان ہوا تھا جس کے نتیجہ میں وہ شخص اور اس کے قبیلہ کے پانچ سو افراد مرتد ہو گئے اور وہ بادشاہ روم کی پناہ میں چلے گئے(12) حالانکہ اگر عمر اس عرب مرد کو نرم مزاجی سے راضی کرتا اور پیسے لے کر قصاص کو نظرانداز کر دیتا جیسا کہ اس نے «مغيرة بن شعبه» کو حد رجم سے نجات دی اور اسے سنگسار ہونے سے بچا لیا (۱۳) اس صورت میں «جبله» بھی اسلام پر قائم رہتا۔

عمر، «جبلة» جیسے بزرگ افراد کے ساتھ سختی سے پیش آتا تھا لیکن  «مغيره» اور «معاويه» کے ساتھ تواضع سے پیش آتا اور ان کے ساتھ سختی نہیں کرتا تھا۔

اگر پيغمبرصلى الله عليه وآله وسلم کے زمانے مییں «جبله» کا واقعہ رونما ہوتا تو پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم‏ قطعی طور پر سختی نہ کرتے اور پیسے لے کر اس عرب شخص کا حق ادا کر دیتے اور اس کے نتیجہ میں پانچ سو افراد کو مرتد ہونے سے نجات دیتے۔

پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم – جو نرمی سے پیش آتے اور مال  کے ذریعہ اسلام کی طرف مائل کرتے – اور دوسروں میں یہی فرق ہے۔ اسی وجہ سے پيامبرصلى الله عليه وآله وسلم نے اولاد عبدالمطلب سے فرمایا:

يا بني عبدالمطلب؛ إنّكم لن تسعوا الناس بأموالكم فسعوهم ‏بأخلاقكم(14).

اے بنی عبدالمطلب!تم  لوگوں کو مال سے راضی نہیں کر سکتے  پس حسن اخلاق سے انہیں اپنے ساتھ رکھو۔

پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے نرم مزاجی اور حسن خلق سے مسلمانوں کو جمع فرمایا اور ایسا بھی نہیں تھا ان سب لوگوں نے ایمان کا مزہ چکھا ہو اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہو چکا ہو بلکہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے اخلاق اور انہیں مال عطا کرنے کے وجہ سے ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوتے۔اسی وجہ سے «مؤلفة القلوب» کے لئے زکاۃ میں ایک حصہ معین ہوا ہے.(15)


11) سوره آل عمران، آيه 159.

12) منتظم: 256 - 260/5، حوادث سال 53، مروج الذهب: 85/2، و شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 183/1 و 343/6.

13) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 227 - 241/12.

14) بحارالانوار: 384/71 ح 22.

15) تاريخ أميرالمؤمنين‏ عليه السلام: 47/1.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 1
آج کے وزٹر : 74398
کل کے وزٹر : 171324
تمام وزٹر کی تعداد : 144102335
تمام وزٹر کی تعداد : 99407320