حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

فرمودات اہل بیت علیہم السلام میں اخلاص کے لئے مہم و قیمتی آثار ذکر ہوئے ہیں ۔ اخلاص  اس حد تک اہمیت کا حامل ہے شاید کچھ لوگ گمان کریں کہ اخلاص کا حصول، سب کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف ممتاز شخصیات اور اولیاء خدا کے لئے ضروری ہے فقط وہ ہی اخلاص کی نعمت سے بہرہمند ہوں ۔ لیکن قرآن مجید ایک عمومی دعوت میں فرماتا ہے :

'' فَادعُوا اللہ مُخلِصِینَ لَہ الدِّ ینَ وَ لَوکَرِہَ الکَافِرُونَ'' ([1])

پس دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرکے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دینی اعمال ریاء سے پاک ہوں اور انہیں اخلاص اور خشوع اور خضوع سے بجا لائے۔ بلکہ اس طرح روایات میں آیا ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال اور رفتار وکردار میں تظاہر ریاء اور خود نمائی سے پرہیز کرے ۔

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' اِخلِص حَرَکَاتِکَ مِن الرِّیَائِ''([2])

اپنی حرکات کو ریاء سے پاک کرو ۔

کیونکہ انسان کی رفتار وکردار اس وقت ارزشمند ہوتی ہے جب اس میں ریاء وتظاہر نہ ہو۔

می فروشد زاھد خود بین بہ دنیا دین خویش

گشتہ معلومش کہ در عقبی متاعش باب نیست

جب متکبر اور خود پسند عبادت گزار کو یہ معلوم ہوا کہ آخرت میں اس کے لئے کوئی متاع نہیں ہے تو اس نے دنیا کے مقابل میں اپنے دین کو فروخت کر دیا ۔

پس اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ہم سب کو اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ غفلت کی وجہ سے خدا کو صرف سخت مشکلات میں مخلصانہ یاد کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہے:

''ھُو الَّذی یُسَیِّرُکُم فِی البِرِّ وَالبَحرِ حَتّیٰ اِذَا کُنتُم فِی الفُلکِ وَ جَرَینَ بِھِم بِرِیحٍ وَ فَرِ حُوا بِھا جَائَتھَا بِرِیحٍ عَاسِفٍ وَ جَا ئَھُم المَوجُ مِن کُلِّ مَکَانٍ وَ ظَنُّوا اَنَّھُم اُحِیطَ بِھِم دَعَوُاللّٰہ مُخلِصِینَ لَہ الدِّ ین لَئِن اَنجَیتَنَا مِن ھٰذِہ لَنَکُونَنَّ مِن الشَّاکِرِین''([3])

وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے چنانچہ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر موافق ہوا کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں ۔ اتنے میں کشتی کومخالف تیز ہوا کاتھپیڑا لگتا ہے اور ہرطرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ

اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ۔

دوسرے مورد میں خدا وند تعالی ارشاد فرماتا ہے :

''فَاِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُ اللہ مُخلِصِینَ لَہ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّینٰھُم اِلی البَرِّ اِذَا ھُم یُشرِکُونَ '' ([4])

پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان وعقیدہ کے پورے اخلاس کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچادیتا ہے تو فورا شرک اختیار کرلیتے ہیں ۔

زاھد کہ ترس روز جزا  را بھانہ ساخت

بیمش ز خلق بود ، خدا رابھانہ ساخت

جو زاہدروزِ قیامت کو بہانہ بنا کر زہد اختیار کرے حقیقت میں لوگوں سے ڈرتا تھا مگر اس نے خدا سے ڈرنے کا بہانہ کیا۔

آیات قرآنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ۔ ہرعبادی برنامہ میں اخلاص ہونا چاہیئے ،لیکن بہت سے لوگ خدا کو صرف شدید مشکل میں یاد کرتے ہیں ۔

 

 


[1]۔ سورہ غافر آیت: ١٤

[2]۔ بحارالانوار:ج ٧١ ص ٢١٦

[3]۔ سورہ یونس آیت: ٢٢

[4]۔ سورہ عنکبوت آیت: ٦٥

 

 

    ملاحظہ کریں : 7336
    آج کے وزٹر : 5701
    کل کے وزٹر : 110833
    تمام وزٹر کی تعداد : 133248192
    تمام وزٹر کی تعداد : 92232282