Imam Shadiq As: seandainya Zaman itu aku alami maka seluruh hari dalam hidupku akan berkhidmat kepadanya (Imam Mahdi As
کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

وہ خود کہتاہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخر کیاہوا لیکن اتناضرورجانتاہوں کہ ایک بجلی کی طرح کی لہر نے میرے دماغ کو صاف کر دیا اور اس میں دیگر افکار ڈال دیئے۔ بعض اوقات سوچتا ہوں کہ میں پاگل ہو گیا ہوںکبھی دل سے یہ خواہش کرتا ہوں کہ کہ واقعاََ پاگل ہو جاؤں تاکہ اس چھٹی حسّ سے نجات پاجاؤں کیونکہ جو کوئی بھی میرے کمرے میں داخل ہوتا ،میں ایک ہی لمحہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے ماضی کو جان جاتا ۔اس کی تمام خواہشات اور غموں کو بھی جان جاتا۔ایک ہی لمحہ میں اپنے دل میں کہتا : یہ چور ہے،آج اس نے اپنی بیوی پر تشدد کیا ہے ،اس نے آج فلاں کام کیا ہے.....

لیکن یہ سب کچھ جان کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔میں لوگوں کے راز کی باتیں نہیں جاننا چاہتا لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔کسی سے اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہی میرا دماغ مجھے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ہوش میں آنے کے چار یا پانچ دن کے بعد پیٹر نے ایک بیمار کو دیکھا کہ جو ہسپتال سے جارہا تھا پیٹر اس سے ہاتھ ملا رہا تھا کہ یہ اسے الوداع کہتے ہوئے اچانک سے سمجھ گیاکہ شخص اپنے ادعا کے برخلاف ہالینڈ کا باشندہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انگلینڈسے ہے جو ایک خفیہ انٹیلی جنٹ ایجنسی کا جاسوس ہے اور جاسوسی کی غرض سے ہالینڈ آیا ہے۔

پیٹر اسی وقت سمجھ گیا کہ گشتاپو(جاسوسی کے خلاف جرمنی کی بنائی جانے والی فورس) کو اس جاسوس کے بارے میں پتہ چل چکا ہے اور وہ جلدہی اسے گرفتار کرکے قتل کر دیں گے۔وہ اپنے ذہن میں جاسوس کے ٹھہرنے کی جگہ سے بھی واقف ہو گیاکہ وہ کالور اسٹریٹ میں رہتا ہے۔وہ اس جاسوس کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتاتھا ،لیکن وہ جلدی میں وہاں سے نکل چکا تھا۔

پیٹر نے یہ سار اماجرا ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ ہر قیمت میں جاسوس کو اس واقعہ سے آگاہ کر دے۔دو دن کے بعد جرمن اہل کاروں نے اس جاسوس کاکالور اسٹریٹ  پرپیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔پیٹر کی پیشن گوئی کا نہ صرف اس جاسوس کو کوئی فائدہ ہوا بلکہ اس کی وجہ سے ہالینڈ کے اہل کار اس پر بھی شک کرنے لگے اور اسے کہنے لگے کہ جب تمھیں پہلے ہی سے علم تھاوہ انگلینڈ کے جاسوس کا پیچھاکریں گے تو یقیناََ تم بھی گشتاپو کے جاسوس ہو۔اس گمان میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ دو دن کے بعددو افراد تکیہ کے ذریعہ پیٹر کی سانس بند کرکے اسے مارنے کے لئے ہسپتال میں آئے۔لیکن اس بار بھی پیٹر کی چھٹی حسّ نے اس کی مدد کی اور اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

 

 

    Mengunjungi : 7627
    Pengunjung hari ini : 66521
    Total Pengunjung : 164982
    Total Pengunjung : 142108373
    Total Pengunjung : 97990732