امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
ابن زياد لعنة الله علیہ کی برطرفی کے بعد عمر سعد لعنۃ اللہ علیہ کی فرمانروائی اور کوفہ کے لوگوں کی مخالفت

********************************************

9 ربیع الاوّل؛ عمر سعد لعنۃ اللہ علیہ کی ہلاکت

********************************************

ابن زياد لعنة الله علیہ کی برطرفی کے بعد عمر سعد لعنۃ اللہ علیہ

کی فرمانروائی اور کوفہ کے لوگوں کی مخالفت

یزید بن معاویہ اور معاویہ بن یزید کی موت کے بعد عبید اللہ بن زیاد بصرہ کا حاکم بن گیا تو اس نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ان کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا:خلافت کے امور دشوار ہیں اور انہوں نے کسی کو اس عنوان سے منصوب نہیں کیا اور پھر کہا: اب تم لوگوں کی زمین سے زیادہ کوئی اور زمین وسیع نہیں ہے اور تمہاری تعداد سے زیادہ کسی کی تعداد نہیں ہے اور تمہارے مال سے زیادہ کسی کا مال نہیں ہے اب تم لوگوں کے بیت المال میں دس لاکھ درہم موجود ہیں۔تم لوگ ایک ایسے شخص کا انتخاب کرو جو تمہارے امور کے لئے قیام کرے، تمہارے دشمنوں سے جہاد کرے، ظالم سے مظلوم کا حق لے اور تمہارے درمیان اموال تقسیم کرے۔

بصرہ کے اشراف احنف بن قيس تميمى، قيس بن هيثم سلمى اور مسمع بن مالك‏ عبدى ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کھڑے ہو کر کہا: اے امیر! آپ کے علاوہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے ،آپ ہمارے امور سنبھالنے کے لئے سب سے زیادہ شائستہ ہیں تا کہ سب لوگ آپ کو خلیفہ کہیں۔

اس نے کہا: اگر میرے علاوہ کسی اور کا بھی انتخاب کریں تو میں اس کی اطاعت کروں گا۔

عبید اللہ کی طرف سے عمرو بن حريث خزاعى کوفه کا حاکم تھا. عبيداللَّه نے اسے خط لکھا اور اسے بصرہ والوں کے اس عمل کی خبر دی اور کہا کہ کوفہ کے لوگوں کو بھی بصرہ کے لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبور کرے۔

عمرو بن حريث منبر پر بیٹھا اور خطبہ دیا اور بصرہ والوں کے اس عمل کے بارے میں بتایا۔يزيد بن ‏رويم شيبانى کھڑا ہوا اور کہا:اس خدا کی قسم جس نے ہمیں آزاد خلق کیا ہے! ہمیں بنی امیہ اور ابن مرجانہ کی حکومت کی ضرورت نہیں ہے (مرجانه؛ عبيداللَّه کی ماں تھی ، اور اس کے باپ زيادکی ماں سميّه تھے)، بيعت کا کام  اہل حجر (حجاز) کے ہاتھوں میں ہے۔

اس طرح سے کوفہ کے لوگ بنی امیہ کی اطاعت سے خارج  ہو گئے اور ابن زیاد کو حکومت سے نکال دیا اور وہ لوگ خود اپنا امیر منتخب کرنا چاہتے تھے تا کہ وہ اپنے امور میں گور و فکر کر سکیں۔

کچھ لوگوں نے کہا: عمر بن سعد بن ابى وقّاص اس کام کے لئے موذوں ہے! اور جب انہوں نے اسے حکمرانی کے لئے منتخب کرنا چاہا تو ہَمْدان ، كہلان ، ربيعه اور نخع کی کچھ عورتیں آئیں اور وہ گریہ و فریاد کرتی ہوئی مسجد میں داخل ہوں اور انہوں نے امام حسين‏ عليه السلام کو مصائب کو یاد کیا اور وہ کہہ رہیں تھیں: عمر بن سعد  کے لئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اس نے امام حسين ‏عليه السلام کو قتل کیا، اور اب وہ کوفہ کا حاکم بننا چاہتا ہے؟

کوفہ کے لوگوں نے بھی گریہ کیا اور عمر بن سعد کی حکومت سے منصرف ہو گئے ۔ اس بارے میں سب سے زیادہ ہمدان کی عورتوں نے کوشش کی کیونکہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو ہمدانیوں سے محبت تھی اور آپ انہیں دوسروں پر ترجیح دیتے تھے اور آپ نے فرمایا: اگر میں بہشت کا دربان  ہوتا تو ہمدان کے لوگوں سے کہتا ہے کہ آرام سے جنت میں داخل ہو جاؤ.(1)


1) مروج الذهب: 88/2.

 

منبع: معاويه ج ... ص ...

 

 

بازدید : 1009
بازديد امروز : 145212
بازديد ديروز : 164145
بازديد کل : 159321874
بازديد کل : 118120573