حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
قرآن کی نظر میں معصومین علیہم السلام اور تمام اولیائے خدا کی زیارت

قرآن کی نظر میں معصومین علیہم السلام اور تمام اولیائے خدا کی زیارت

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سورۂ توبہ کی ۸۴ ویں آیۂ شریفہ «وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُم مَاتَ أَبَداً وَلاَتَقُمْ» واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ  خداوند متعال نے کفار پر نماز پڑھنے اور ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہونے سے منع کیا ہے ۔ اس  کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند کریم نے مؤمنین پر نماز پڑھنے، ان کی قبروں کے پاس جانے اور بالخصوص معصومین علیہم السلام کی قبروں کے پاس جانے سے منع نہیں کیا ، بلکہ یہ جائز اور پسندیدہ عمل ہے ، اور دوسرے دلائل کی بنیاد پر اولیاء خدا کی زیارت دین کے شعائر میں سے ہے  ۔

بعض علماء نے اس آیۂ شریفہ میں  کلمہ «لا تصلّ»کا ترجمہ یہ نہیں کیا کہ’’نماز نہ پڑھو‘‘، بلکہ کہا ہے کہ «لا تصلّ»سے  یہ مراد ہے کہ کفار کی قبروں کے پاس درود اور صلوات نہ بھیجو ۔  اس بنا پر آیۂ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ صلاۃ سے مراد مؤمنین کی قبور کے پاس مطلق طلب رحمت ہے ، نہ کہ یہ نماز میت سے مخصوص ہے ۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لئے اس قول پر توجہ فرمائیں :

قبرستان میں جانا اور مومنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر  ان پر درود بھیجنا، یعنی قرآن کے مطابق ان کے لئے خدا سے رحمت طلب کرنا، قرآنی آیات کی بنیاد پر  یہ عمل رسول  اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا اہم حصہ ہے ، کیونکہ اس آیۂ شریفہ «وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ»[1]  میں آنحضرت کو منافقین کے سلسلہ میں اس کام سے منع کیا گیا ہے  اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کے سلسلہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ سیرت رہی ہے کہ آپ مؤمنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا کرتے تھے اور ان پر صلوات بھیجتے تھے ۔  اگر کوئی کہے کہ اس سے دفن کے وقت قبر کے پاس کھڑے ہونا مراد ہے نہ کہ دفن کے بعد  زیارت کے لئے کھڑے ہونا تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے :

اوّلاً : لفظ  «وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ»مطلق ہے  ، لہذا اس میں قید  اور تخصیص کے لئے کسی دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔

ثانیاً : جملہ «وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ» میں واو عاطفہ کی وجہ سے اس میں لفظ  «ابداً»تقدیر میں ہے  اور اب اس کا معنی یوں ہو گا :  ابداً یعنی کبھی بھی اس کی قبر کے پاس کھڑے نہ ہو ۔ یعنی کسی بھی وقت وہاں کھڑے نہ ہو ۔ پس اس میں دفن کے بعد زیارت کے لئے کھڑے ہونا (جیسا کہ رائج ہے کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ ، یا مرحوم کے چہلم ، برسی یا دوسرے اوقات میں اس کی قبر پر جانا) بھی شامل ہے ۔  چنانچہ اگر کوئی اپنے غلام سے کہے :  «لا تطعم زيداً ابداً ولاتسقه» تو ’’واو‘‘عاطفہ کے حکم سے اس کا معنی یہ ہو گا  کہ «ولاتسقه ابداً» یعنی زید کو ہرگز طعام نہ دو ، ہرگز کسی بھی وقت اسے سیراب نہ کرو ۔ ہم نے جو دو وجوہات بیان کی ہیں، شاید انہی کی بنا پر تفسیر جلالین میں  اس آیت کی تفسیر و توضیح میں یوں بیان کیا گیا ہے : «چاہے دفن کے لئے اور چاہے زیارت کے لئے (کھڑے مت ہو )»[2]اور جس طرح قیام سے کھڑے ہونا مرادہے ، اسی طرح صلوات سے طلب رحمت مراد ہے نہ کہ نماز میت ، کیونکہ اگر اس سے صرف نماز میت مراد ہوتی تو لفظ  «ابداً»لغو ہو جاتا ، کیونکہ یہ واضح ہے کہ نماز میت  صرف ایک مرتبہ ہے اور پوری عمر میں اسے تکرار نہیں کیا جاتا  کہ جس کے لئے  لفظ  «ابداً» کی ضرورت ہوتی... ۔»[3]

قرآن پاک کی کچھ دوسری آیات بھی لوگوں کو معصومین علیہم السلام اور تمام اولیاء کی زیارت کی  تشویق دلاتی ہے ، جیسے یہ آیۂ مبارکہ : «وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوب »[4]   ’’اور جو بھی خدا کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہو گی‘‘۔

اور اسی طرح یہ آیۂ شریفہ « فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ »[5] ’’یہ چراغ ان گھروں میں جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے ‘‘۔

یہ واضح سی بات ہے کہ معصومین علیہم السلام اور تمام اولیائے الٰہی کے حرم کی تعظیم گویا   سب سے بزرگ شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اور ان کے حرم خدا کی نشانیاں ہیں اور یہ ایسے گھر ہیں جہاں خدا نے اذن دیا ہے کہ اس کا نام لیا جائے ۔

* * *

ائمہ اطہار علیہم السلام اور تمام اولیاء الٰہی کی زیارت پر دلالت کرنے والی مذکورہ آیات کے علاوہ سینکڑوں ایسی روایات بھی موجود ہیں جو ان ہستیوں کی زیارت کی عظمت اور اس کے حیات بخش دنیوی و اخروی آثار کو بیان کرتی ہیں ۔

 


[1] .« اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا »؛ سورۂ  توبه،  آیت :۸۴.

[2] . الجلالين : ۲۶۶، سورۂ توبہ کی ۸۴ویں  آیت کی تفسیر کے ذیل میں.

[3] . حديث غدير و مسئله ولايت : ۲۲۵ تا ۲۲۸.

[4] . سورهٔ حج ، آيت : ۳۲.

[5]. سوره نور، آيت :۳۶.

    ملاحظہ کریں : 239
    آج کے وزٹر : 10253
    کل کے وزٹر : 180834
    تمام وزٹر کی تعداد : 141667040
    تمام وزٹر کی تعداد : 97702960