امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
مخالفت نفس کی عادت

مخالفت نفس کی عادت

جو عمل بھی نفس کی خاطر انجام پائے ، اگر چہ وہ بہت چھوٹا کام ہو تو وہ عمل روحانی طاقت کی کچھ مقدار کو زائل کر دیتا ہے نفس کی مخالفت سے انسان میں یہ قوت متمرکز ہوتی ہے کہ جس سے نورانیت ایجاد ہوتی ہے جس قدر نفس کی مخالفت زیادہ ہو اسی قدر روحانی قوت بھی بیشتر ہوجاتی ہے ۔ نفس کی مخالفت کے ہمراہ بہت سی مشکلات ا ور سختیاں بھی آتی ہیں کہ بہت سے لوگ ان ہی مشکلات کی  وجہ سے اس کام سے  ہاتھ روک لیتے ہیں دوسرا گروہ خواہشات نفسانی کے ساتھ مبارزہ آرائی کرتا ہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ ہونے کی وجہ سے کچھ مدت کے بعد وہ اپنے کو آزاد چھوڑدیتا ہے اور پھر وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل پڑتا ہے۔

ایک نکتہ کی جانب توجہ کرنے سے آپ ایسے افراد کو روحانی اعتبار سے تقویت دے سکتے ہیں اور جو اس راہ کو ادامہ نہیں دے سکے ، ان میں امید کی شمع روشن کر سکتے ہیں۔ وہ نکتہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی اہمیت سے عبارت ہے نفس کی مخالفت سے وجود میں آنے والی سختیاں اور زحمات نیک کاموں کے عادی ہوجانے سے بر طرف ہوجاتی ہیں کہ پھر مخالفت نفس کو ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ، اسی وجہ سے حضرت امام باقر(ع) کا فرمان ہے :

'' عَوِّدُوا اَنفُسَکُم اَلخَیرَ''([1])

اپنے نفوس کو نیک کاموں کی عادت ڈالو۔

کیونکہ نیک کاموں کی عادت سے نہ صرف انسان برے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے بلکہ نیک کاموں کی مزید عادت ڈالتا ہے اگرچہ وہ کام بہت مشکل اور پر زحمت ہی کیوں نہ ہو ں کسی بھی چیز کی عادت انسان کی ذات کا حصہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے ، پھر انہیں انجام دینا مشکل نہیں ہوتا بلکہ انہیں ترک کرنا رنج والم کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا کار خیر کو انجام دینے اور ان کی عادت سے آپ نہ صرف بہت آسانی سے نفس کی مخالفت کرسکتے ہیں ، بلکہ ان کی عادت ہوجانے سے ان کو ترک کرنا آپ کے لئے رنج آور ہوگا ۔

جب کوئی خائن شخص پہلی بار چوری یا کوئی اور خیانت انجام دے تو اس کا ضمیر شرم وگناہ محسوس کرے گا ، اس کا ضمیر قبول کر لے گا کہ اس کے نفس نے زشت وناپسندیدہ کام انجام دیا ہے لیکن گناہ کو تکرار کرنے سے آہستہ آہستہ اس میں سے احساس شرم وندامت ختم ہوجائے گی پھر گناہ کو انجام دینے سے اسے نہ گناہ وشرم کا احساس ہوگا بلکہ اس کی عادت پڑ جانے سے اس کو چھوڑنا بھی بہت مشکل ہوجائے گا ۔

جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گناہ کو بارہا تکرار کرنے سے بعض اس کے عادی ہوجاتے ہیں پھر ان کے لئے ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح اولیاء خدا اور اہل بیت کے تقرب کی راہ میں جستجو کوشش کرنے والوں کے لئے سخت عبادی برنامہ کو انجام دینے میں کوئی مشکل وزحمت نہیں ہوتی۔

بلکہ انہیں اس سے لگن ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کسی صورت بھی اسے ترک نہیں کر سکتے مخصوصا ًجب وہ اپنے اور برنامہ کے مہم آثار کو جانتے ہوں تو اس طرح بعض افراد کے لئے مخالفت نفس مشکل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے لئے موافقت نفس مشکل ہوتی ہے۔

بعض افراد کو مخالفت نفس کی عادت ڈالنے اور خواہشات نفسانی کو ختم کرنے کے لئے مرور زمان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ناگہانی تفسیر سے اپنے نفس میں تحول ایجاد کرتے ہیں اور ایک  نئی شخصیت  کے مالک بن جاتے ہیں۔ پوریا ولی ان ہی افراد میں سے ایک ہیں۔

پوریا ایک پہلوان تھا کہ اس کے شہر میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا وہ دوسرے شہروں میں جاکر بھی تمام پہلوانوں کو مغلوب کردیتا۔پھر اس نے دارالخلافہ جانے کا قصدکیا تاکہ وہاں جاکر بھی تمام پہلوانوں کو شکست دے اور خود ان کی جگہ بیٹھے۔

اس کی طاقت کا چرچابہت دور دور تک ہو ررہا تھا اسی وجہ سے جب اس نے دارالخلافہ جانے کا قصد کیا تو وہاں کے پہلوانوں کے دل میں اس کا بہت رعب بیٹھ گیا اور وہ مہموم  ومتفکر ہو گیا اس کی ماں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو ا س نے اپنی پریشانی کی علت بیان کی ۔

اس کی ماں ایک صالحہ اور بااعتقاد عورت تھی وہ متوسل ہوئی اورہر روز نذر کرتی وہ حلوا پکاتی اور شہر کے دروازے پر بیٹھے فقراء و مساکین میں  تقسیم کرتی ۔پھر ایک دن پوریا اس شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک عورت بیٹھی ہے جس کے سامنے کچھ حلوا  پڑا ہے وہ قریب آیا اور پوچھا اس کی کتنی قیمت ہے؟ عورت نے کہا کہ فروخت کرنے کے لئے نہیںبلکہ نذر کی ہے؟

عورت نے کہا : میرا بیٹا دارالخلافہ کا پہلوان ہے اور اب کسی پہلوان نے یہاں آکر اسے شکست دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ایسا ہو اتو ہمارا مال اور اعتبار دونوں برباد ہوجائیں گے ۔ پوریا نے دیکھا کہ وہ عورت حضرت حق سے متوسل ہوئی ہے یہاں اسے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی:

'' یا اَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا کُونُوا اَنصَارَاللہ ''([2])

اس نے سوچا کہ اس جوان کو پچھاڑدوں تو سلطان کے دارالحکومت کا پہلوان بن سکتا ہوں اور اگر اپنے نفس کو شکست دے دوں تو خدا کے دارالحکومت کا پہلوان بن جائوں گا پس اس نے اپنے آپ سے کہا کہ رضائے خدا کے لئے اس بوڑھی عورت کو ناامید نہیں کروں گا۔

پھر اس نے عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ ماں تمہاری نذر قبول ہو گئی۔ اس نے اپنے چالیس حامیوں میں  حلوا تقسیم کیا اور شہر میں وارد ہو گئے ۔

معین دن میں  دارلحکومت کا پہلوان ، ہواس باختہ پوریا کے ساتھ کشتی لڑنے کے لئے حاضر ہوا۔پوریا کے حامیوں نے اس سے کہا کہ ہم میدان میں جاکر اس کو سبق سکھاتے ہیں۔انہوں نے بہت اصرار کیا لیکن پوریانے قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ میرا کام ہے اور کسی دوسرے کو اس سے سروکار نہیں۔

پوریا میدان میں گیا وہ اپنے نفس کو ہرانے کی ہمت رکھتا تھا دارالحکومت کا پہلوان اس سے لڑنے کے لئے آیا ۔پوریا نے اپنے آپ کو سست  کرلیا اور اس کے حریف نے دیکھا کہ وہ بہت سست ہے اس کا دل قوی ہوگیا اس نے پوریا کو اٹھا کر زمین پر دے مارا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گیا ۔ جب پوریا کی پیٹھ زمین پہ لگی تو اس کے لئے بہت سے راز منکشف ہو گئے ۔

افتادگی  آموز اگر قابل فیضی         ھر گز نخورد آب زمینی کہ بلند است

اگرچہ اس جوان نے پوریا کو پچھاڑ دیا ۔ لیکن خدا نے اسے اولیاء پاک میں سے قرار دیا یہ شعر پوریا ولی کے سرود میں سے ہے ۔

گر بر نفس خود امیری مردی            وربر دگری نکتہ نگیری مردی

مردی نبود فتاد را پای زدن               گر دست فتادہ ای بگیری مردی

اگر تمھیں اپنے نفس پر اختیار ہواور دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو  تو تم مرد ہو،گرے ہوئے کو ٹھوکر مارنا مردانگی نہیں ہے  بلکہ گرے ہوئے کو تھامنا مردانگی ہے۔آپ بھی پوریا کی طرح پختہ عزم وارادہ اور خدا کی امداد اور مہربانی سے نفس کی مخالفت کر سکتے ہیں اور مختصر مدت میں اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

 


[1]۔ بحارالانوار :ج٤٦ ص٢٤٤،الخرائج٢٢٩

[2]۔ سورہ صف آیت :١٤

 

 

    بازدید : 7614
    بازديد امروز : 41853
    بازديد ديروز : 103128
    بازديد کل : 132346537
    بازديد کل : 91781039