امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(4) محمّد بن ابى‏ بكر کا معاوية بن ابى سفيان کو خط

(4)

محمّد بن ابى‏ بكر کا معاوية بن ابى سفيان کو خط

  (شيخ مفيد سے)  نقل کرنے کی رو سے ابو على احمد بن حسين بن احمد بن عمران  نے كتاب ‏اختصاص میں محمّد بن ابى‏ بكر رضى اللَّه عنه کا معاوية بن ابى سفيان کو لکھے گئے خط کی کچھ یوں وضاحت کی ہے:

   خداوند نے تمام مخلوقات پر اپنی جلالت و عظمت اور سلطنت و قدرت کے سبب  مخلوقات کو خلق کیا اور نہ تو اس نے کسی کو بیہودہ خلق کیا ہے اور نہ ہی اس کی قدرت میں کوئی ناتوانی ہے اور نہ خدا نے مخلوقات کو اپنی ضرورت و احتیاج کی بناء پر خلق کیا ہے۔ بلكه خدائے سبحان نے انہیں اپنی بندگی کے لئے خلق کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو گمراہ اور کچھ کو ہدایت یافتہ پایا، بعض کو شقی اور بعض کو سعادت مندقرار دیا۔ اور پھر اپنے علم سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منتخب کیا اور انہیں اپنا خلیل قرار دیا اور انہیں ان کی رسالت کی امانتداری کے لئے مبعوث کیا اور انہیں اپنی وحی کے ساتھ بھیجا۔ اور آپ پر اپنے امر مں صادق و امین ، ہادی و رہنما، بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے رسول کے عنوان سے اعتماد کیا۔ سب سے پہلے جس نے آپ کی دعوت پر لبیک کیا اور آپ کی تصدیق کی، آپ پر ایمان لائے ، اسلام کا اظہار کیا اور تسلیم ہوئے ؛ وہ آپ کے چچا زاد، آپ کے صفی و وصی، آپ کے علم کے وارث اور آپ کے بعد آپ کے خلیفہ تھے کہ جنہیں خدائے عزّ وجلّ نے وپنے پیغمبر پر وحی کے ذریعے معین کیا تھا اور رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے ان کی خلافت کی تصریح فرمائی تھی۔  اور وہ امير المؤمنين علىّ بن ابى طالب‏ عليہما السلام کی ذات تھی۔ جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غیبی اسرار کی تصدیق کی اور انہیں ان کے خاندان کے نزدیک ترین افراد پر ترجیح دی اور ہر خطرہ میں ان کی حفاظت کی، اور ہر خوفناک واقعہ میں ان کی نصرت کی ، انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرنے والوں سے جنگ کی اور آنحضرت سے صلح کرنے والوں سے صلح کی، انہوں نے ہمیشہ بھوک، سختی اور خطرناک حالات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی جان پر فوقیت دی ، یہاں تک کہ خداوند متعال نے ان کی دعوت کو آشكار کیا اور ان کی حجت کو تمام کیا۔

   لیکن میں  نے تم کو گمراہ دیکھا اور تم خود کو ان سے برتر سمجھتے ہو حالانکہ تم تم ہو اور وہ پاک شخصیت ہے کہ جو ہر حال میں امت پر سبقت رکھتے ہیں ، وہ سب سے نیکو کار ہیں، ان کی صفات سب سے برتر، ان کی زوجہ سب سے بہترین اور ان کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام وہ ذات ہے کہ جس نے ہجرت کے وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دشمنوں سے بچایا اور ان کے بستر پر سوئے اور آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بچانے کے لئے اپنی جان کو بیچ کر رضائے الٰہی کو خرید لیا۔

   ان کے چچا سید الشہداء (حضرت حمزہ علیہ السلام) جنگ احد میں شہید ہوئے اور ان کے والد گرامی نے دشمنوں کے مقابلہ میں ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دفاع کیا۔ اور (اے معاویہ!) تم وہی ہو کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر فساد برپا کیا اور مشرکین کے ساتھ مل کر ہمیشہ نور الٰہی کو بجھانے کی کوشش کی۔ عرب قبائل کو مال و دولت سے خرید کر لشکر تیار کیا۔ تمہارا باپ اسی عقیدہ پر ہلاک ہو گیا اور تم اس کے جانشین بن گئے۔ اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ مشرکین کے گروہ، منافقین کے سردار ، رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم اور آپ کی اہلبیت علیہم السلام کے تمام دشمن اب تمہاری ساتھ ہیں۔ اور جو چیز علی السلام کی آشکار فضیلت کی دلیل ہے وہ اسلام میں آپ کی دیرینہ سبقت ہے۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی یاور و انصار وہ لوگ ہیں کہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں جن کے فضائل کو بیان کیا ہے اور مہاجرین و انصار کو توصیف کی ہے۔ ان کے ساتھ کچھ پیادہ اور کچھ سوار ہیں کہ جو اپنی تلواروں سے جنگ کرتے ہیں اور ان کے دفاع میں اپنا کون بھی بہا دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیروی میں فضیلت اور آنحضرت کے امر کی مخالفت میں شقاوت ہے۔

   (اے معاویہ!) تم پر افسوس ہو! اور پھر بھی تم افسوس ہو! تم کس طرح علی علیہ السلام سے اپنی برابری کر رہے ہو حالانکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھائی اور ان کے بیٹوں کے پدر ہیں۔ اور (اے معاویہ!) تم‏ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سم کے دشمن اور ان کے دشمن کے بیٹے ہو۔ پس تم اپنے باطل سے ہی بہرہ مند ہو اور عاص کے بیٹے نے تمہیں گمراہی کے مزید عمق میں دھکیل دیا اور گویا اب تمہاری مہلت ختم ہو گئی ہے اور تمہارا مکر و حیلہ بھی تمام ہونے والا ہے ۔ اور جان لو ! کہ تم نے اپنے پروردگار سے مکر و حیلہ کیا اور تم خود کو اس کے مکر سے امان مں سمجھتے ہو ، اور تم رحمت الٰہی سے دور ہو چکے ہو اور اب خدا تمہاری کمین میں ہے لیکن تم اب بھی اس کے ساتھ غرور اور عناد رکھتے ہو۔ اور ہم خدا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہلبیت رسول خدا علیہم السلام کی مدد سے تم سے بے نیاز ہیں۔ والسّلام على من اتّبع الهدى.

اور خط کے آخر میں یہ اشعار لکھے:

معاوى ما امسى هوى يستقيدني

إليك ولا أخفى الّذي لا اعالن

ولا أنا في الاُخرى إذا ما شهدتها

بنكسٍ ولا هيابة في المواطن

حللت عقال الحرب جبناً وإنّما

يطيب المنايا خائناً وابن خائن

فحسبك من احدى ثلاث رأيتها

بعينك أو تلك الّتي لم تعاين

ركوبك بعد الا من حرباً مشارفاً

وقد ذميت أضلافها والسناسن

وقدحك بالكفين تورى ضريمة

من الجهل ادتها إليك الكهائن

ومسحك أقراب الشموس كأنّها

تبس بإحدى الداحيات الحواضن

تنازع أسباب المروءة أهلها

وفي الصدر داء من جوى الغل كامن(660). (661)


660) الإختصاص: 121.

661) نبرد جمل: 81.

 

منبع : معاویه : ج ... ص ...

 

بازدید : 968
بازديد امروز : 22978
بازديد ديروز : 228689
بازديد کل : 168103784
بازديد کل : 123766882