امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(3) محمّد بن ابوبكر کا معاويه کو خط

(3)

محمّد بن ابوبكر کا معاويه کو خط

اب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کو مزید واضح و آشکار کرنے کے لئے محمد بن ابی بکر کے جواب میں معاویہ کے خط کو بیان کرتے ہیں۔

ابن ابى الحديد لکھتے ہیں: «نصر کہتے ہیں: محمّد بن ابى بكر نے معاویہ کو جو خط لکھا اس کا مضمون کچھ یوں تھا: خدا کے ولی امر کے سامنے تسلیم ہونے والی کی طرف سے سلام ہو خدا کی اطاعت کرنے والوں پر۔

امّا بعد! خداوند نے اپنے جلال، عظمت، قدرت و سلطنت سے مخلوق کو خلق کیا جب کہ اسے ان کی کوئی ضرورت اور احتیاج نہیں تھی ، یا یہ کہ خدا نے انہیں بے وجہ خلق نہیں کیا اور انہیں اپنا بندہ قرار دیا اور ان میں سے کچھ لوگ شقی اور کچھ سعادت مند ہیں۔

پھر ان میں سے محمّد صلى الله عليه و آله و سلم کو منتخب کیا اور انہیں اپنی رسالت اور دین سے مخصوص قرار دیا، وہ خدا کے بھیجے ہوئے رسول اور کتب الٰہی کے مصدّق ہیں۔

پس اس نے لوگوں کو حكمت اور موعظهٔ حسنه سے دعوت دی۔ سب سے پہلے جو اسلام لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ان کے چچا زاد بھائی على بن ابى طالب‏ عليہما السلام تھے۔

انہوں نے پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کی تصدیق کی اور غیب پر ایمان لائے اور انہیں سب دوستوں پر مقدم رکھا، آپ نے ہر خطرہ میں اپنی جان کو ان پر فدا کیا، آپ ان کے دشمنوں کے دشمن اور ان کے دوستوں کے دوست تھے، خوف کے عالم میں آپ نے ہمیشہ ان کی جان کو اپنی جان  پر مقدم جانا۔ نیک کاموں اور جہاد میں کوئی بھی ان کی ماند نہیں تھا۔

اے معاویہ ! اب ہم دیکھتے ہیں کہ تم خود کو ان کے ردیف میں قرار دیتے ہو حالانکہ وہ کار خیر میں سب سے پیش پیش ہیں، وہ سب سے پہلے مسلمان، خیر خواہی میں سب سے آگے، ان کی ذریت سب سے بہترین ذریت ہے، ان کی زوجہ سب سے بہتر خاتون، ان کے چچا زاد سب سے بہترین ہیں۔ اے (اے معاویہ! ) تم معلون ابن ملعون ہو۔!  

تمہاری اور تمہارے باپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ خدا کے نور کو بھجا دو، اسی لئے تم نے لشکر تیار کئے، مال و دولت خرچ کیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دشمنی کی وجہ سے تم عرب قابئل کے ساتھ دوست بنے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی کے سبب تم نے قرار دار پر دستخط کئے، تمہارا باپ اسی حالت میں مر گیا اور اب تم اس کے جانشین ہو۔

اور میری اس بات کی صداقت کی دلیل وہ گروہ ہے کہ جو اس وقت تمہاری پناہ میں ہے اور یہ منافقین کے سردار اور پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه و آله و سلم کے دشمن ہیں۔

اور دوسری جانب جو لوگ على عليه السلام کے ساتھ ہیں، وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انصار ہیں... وہ لوگ کہ جن کی خدا نے قرآن میں مدح و ثناء فرمائی ہے،

اور مہاجرین و انصار ان کے ہم رکاب ہیں کہ جو خود کو ان پر فدا کرتے ہیں، ان کے ساتھ کو فضیلت اور ان کی مخالفت کو معصیت سمجھتے ہیں۔

اے معاويه! تم پر افسوس ہو! تم خود کو کیسے حضرت على‏ عليه السلام کے برابر سمجھتے ہیں؟ حالانکہ وہ وارث پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم اور ان کے وصى اور ان کی اولاد کے جد ہیں؟ وہ سب سے پہلے مسلمان اور ‏پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے تابع ہیں اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام وہ ذات ہیں کہ جن سے پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم نے سب سے آخر میں وداع کیا۔

پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم انہیں اپنا محرم اسرار سمجھتے تھے اور اپنے ساتھ شریک کرتے تھے۔ اور پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے دشمن ہو اور تم پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے دشمن کے بیٹے ہو۔ اور جہاں تک ہو سکا تم نے باطل میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

اور اب عاص؛ گمراہی میں تمہاری مدد  کر رہا ہے  اور جلد ہی تمہاری موت کا وقت آ پہنچے گا اور تمہارا مکر و حیلہ ختم ہو جائے جائے اور جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اچھی عاقبت کن کی ہے۔

اور جان لو ! تم خدا سے دشمنی کر رہے ہو اور تم رحمت حق سے مأيوس ہو چکے ہو اور خداوند تمہاری كمين میں  ہے اور تم غفلت اور غرور مىں ہو! «والسّلام على من اتّبع الهدى»(31).

آپ اس خط پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں معاویہ کے لئے وعظ و نصیحت ہے  اور اس میں حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے ماضی کو واضح کیا گیا ہے اور اس میں آخر الزمان تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی علیہ السلام کی خلافت کے اثبات کے لئے برہان بھی ہے۔

اور معاويه سے کہتے ہیں: تم خود کو کس طرح علی علیہ السلام کے برابر شمار کر سکتے ہو اور کیسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خلافت کا دعویٰ کر سکتے ہو کہ جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا حق ہے؟

انہوں نے حضرت على‏ عليه السلام کو آپ کے فضائل و مناقب اور آپ کے ماضی سے پہچانا اور انہوں نے حق کو بیان کیا اور ھق کی تشخیص دی اور پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے بعد آنحضرت کی جانشینی کا حق ایسی ہی ہستی کو حاصل ہے نہ کہ کسی اور کو۔

اب آپ اس خط کے جواب پر غور فرمائیں۔ معاویہ نے محمد بن ابی بکر کے خط کا جواب کچھ اس طرح سے دیا:

یہ خط معاویہ کی طرف سے محمّد بن ابى بكر کے لئے ہے کہ جس نے اپنے باپ پر اعتراض کیا اور اس کی عیب جوئی کی۔

تمہرا خط ملا کہ جس میں خدا  اور اس کے انتخاب کردہ پیغمبر کی مدح و ثناء شامل تھی۔ تم نے جو باتیں کیں وہ تمہاری فکری کوتاہی کی نشان دہی کرتی ہیں۔  تم نے اپنے باپ کی سرزنش کی اور تم نے ابو طالب کے بیٹے کے ھق ، اس کے قدیم ماضی ، اس کی ہپیغمبر سے رشتہ داری ، اس کی طرف سے پیغمبر کی نصرت اور خطرناک مقامات پر اس کی پیغمبر سے مواسات کو بیان کیا ہے اور تم نے مجھ سے دوسروں کے فضل کو بیان کیا ہے لیکن مجھ پر اپنے فضل کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

خدا کا شكر ہے کہ اس نے تم سے فضل کو دور کیا اور دوسرے کو عطا کیا۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں میں اور تمہارا باپ؛ ابو طالب کے بیٹے کے حق اور فضل کو ثابت اور اپنے لئے آشکار سمجھتے تھے۔

اور چونکہ خداوند پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کو دعوت کے ظہور اور غلبہ کے بعد اپنی طرف بلا لیا، اور اس کے بعد تمہارے باپ اور فاروق نے سب سے پہلے اس  ( علی علیہ السلام)سے دشمنی کی اور اس کی مخالفت کی اور اپنا کام سنوار لیا۔ اس وقت اسے اپنی طرف دعوت دی لیکن وہ تسلیم نہ ہوئے اور انہوں نے اس کام سے انکار کر دیا۔

پس انہوں نے اس کے بارے میں کچھ ارادہ کئے اور بڑے اقدامات کرنے کے بارے میں سوچا ، پس اس نے ان کی بیعت کی اور وہ دونوں مختلف امور میں اس سے مشورہ نہیں کرتے تھے اور اسے اپنے اسرار سے مطلع نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ وہ دونوں اس دنیا سے چلے گئے اور انہوں نے عثمان کو اپنی جگہ مقرر کر دیا اور عثمان نے بھی انہی کی راہ و روش کو جاری رکھا۔

لیکن تم نے اور تمہارے صاحب نے اس کی برائی ، بد گوئی اور عیب جوئی کی تا کہ معصیت کار لوگ اسے قتل کرنے کے درپے ہو جائیں۔ تم دونوں نے عثمان کے حق میں اپنی دشمنی کو ظاہر کیا تا کہ تم اپنے مقصد تک پہنچ جاؤ۔

اے ابوبكر کے بیٹے! احتیاط سے کام لو اور اپنے انجام دے ڈرو! تم اس سے بہت چھوٹے ہو کہ تم اپنی برابری اس شخص کرو جس کا حلم پہاڑوں سے برابری کرتا ہے۔

تمہارے باپ نے میری حکومت و سلطنت تیار کی ، پس اگر ہم صحیح روش پر ہوں تو تمہارا باپ اس میں سب سے پہلے ہے اور اگر ہم باطل پر ہیں تو تمہارا باپ اس کا منبع اور منشأ ہے۔ ہم تو اس پر یقین رہنے والے اور اس کے پیچھے چلنے والے ہیں۔

پس تم اپنے باپ کی جتنی چاہو برائی کرو اور اس کے عیب بیان کرو ، یا خاموش ہو جاؤ۔ «والسلام على من أناب و رجع من غوايته وناب»(32).

ابن ابى الحديد نے یہ خط اور اس کا جواب قدماء محدثین و موثّقین میں سے نصر بن مزاحم (33) کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ جو عصر پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم میں حضرت على‏ عليه السلام  کے مقام و مرتبہ کو واضح و روشن کرتا ہے۔ نیز اس سے فتنہ و فساد  کا منشأ و منبع بھی آشکار ہو جاتا ہے۔

معاويه نے اپنی تمام تر گمراہیوں کے باوجود یہاں حق بات کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ: پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے زمانۂ حیات میں ہم خود پر على ‏عليه السلام کے حق کو لازم سمجھتے تھے لیکن ‏ پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کی رحلت کے بعد ابوبكر اور اس کے فاروق نے یہ بساط بچھائی اور علی عليه السلام کو خانہ نشین کر ے خلافت سے دور کر دیا۔

اسی طرح معاویہ نے اس خط میں یہ بھی ذکر کیا کہ: ان دونوں افراد نے ہی عثمان کو خلافت تک پہنچایا۔ اس کی یہ بات بھی درست ہے جیسا کہ ہم اسے اس کے مقام پر ثابت کریں گے کہ شوریٰ کے چالبازیوں کے ذریعہ عثمان کو معین کیا گیا۔

بلكه معاویہ نے تو یہ بھی کہا کہ (اے محمد بن ابی بکر) تمہارے باپ نے ہی میری سلطنت کی بنیاد رکھی۔ معاویہ کی یہ بات بھی درست ہے۔

عمر نے شوریٰ کے اراکین کو سمجھایا کہ معاویہ تم پر مقدم ہو گا اور انہوں نے شوریٰ کے ذریعہ عثمان کی خلافت اور بنی امیہ کی سلطنت کو برقرار کیا۔ عمر نے معاویہ کو شام کی سلطنت سے اس وجہ سے معزول نہ کیا کہ وہ علی علیہ السلام کے مقابلہ میں رہے۔ (34)


31) شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد: 189 - 188 / 3، جلوه تاريخ در شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد: 92/2.

32) شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد: 190 - 189 / 3، جلوه تاريخ در شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد: 94/2.

33) وقعه صفين: 118 - 121.

34) تاريخ أميرالمؤمنين‏ عليه السلام ج 1 ص 144.

 

منبع : معاویه : ج ... ص ...

 

بازدید : 1001
بازديد امروز : 24621
بازديد ديروز : 228689
بازديد کل : 168107069
بازديد کل : 123768524