حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
١١-٩ ۔ شدید مشکلات سے نجات پانے کے لئے حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی دعائیں

(١١-٩)

شدید مشکلات سے نجات  پانے کے لئے

حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی دعائیں

مرحوم محدث نوری کتاب ’’دارالسلام‘‘ میں لکھتے ہیں :

جلیل القدر عالم جناب حاج ملا فتح علی سلطان آبادی نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں: مقدس فاضل آخوند ملا محمد صادق عراقی نہایت ہی فقر و تنگدستی  اورشدید پریشانی کے عالم میں زندگی گزاررہے تھے۔مشکلات انہیں امان نہ دیتی تھی اور ایک عرصہ سے ان مشکلات سے رہائی کا کوئی راستہ نظرنہیں آرہا تھا یہاں تک کہ ایک دن خواب میں صحراء کے اندر ایک بڑا خیمہ دیکھا جس کا بڑا ساقبہ بھی تھا ۔

شیخ نے پوچھا:یہ خیمہ کس کا ہے ؟

جواب ملا: یہ خیمہ مظلوموں اوربیکسوں کے مسیحا اور ان کی فریاد سننے والے امام منتظر حجت قائم حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا خیمہ ہے۔

شیخ تیزی سے اس کی طرف گئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کے سارے دردوں کا علاج وہیں تھا ۔

اورجب بیکسوں کی اس پناہ گاہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو روز گار کی سختی اور اہل و عیال کی فقر وپریشان حالی بیان کی اور آنحضرت سے دعا کی درخواست کی تاکہ مشکلات اور پریشانیوں سے چھٹکارہ ملے ۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنے فرزندوں میں سے ایک سید کے حوالے کیا اور اشارہ سے سید اور ان کا خیمہ دکھایا۔

 مقدس فاضل آنحضرت کے خیمہ سے نکل کر اس سید کے خیمہ کی طرف چلے جہاں حضرت نے اشارہ فرمایا تھا ۔اچانک معتمد اور دانشور سید محمد سلطان آبادی (ناقل کے والد ) کو دیکھتے ہیں جو سجادہ پر بیٹھے دعا و قرائت قرآن میں مشغول ہیں ۔

سلام کے بعد آنحضرت نے جس امر کے لئے ان کے حوالہ کیا تھا ان سے بیان کیا ، انہوں نے ایسی دعا تعلیم فرمائی جو ان کی سختی و پریشانی کو دور کر دے اور ان کے رزق و روزی میں اضافہ کردے۔

 جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں دعا یاد ہوچکی تھی ۔اس بزرگ سید کے گھر کی طرف چل پڑے حلانکہ اس خواب سے پہلے ان کاسید سے کوئی اچھا رابطہ نہ تھااور ان سے اس طرح کنارہ کش تھے کہ جس کا یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا۔

 جب اس بزرگ سید کے گھرداخل ہوئے تووہ اسی حالت میں تھے کہ جس حالت میں انہیں خواب میںدیکھا تھا۔ اسی طرح جانماز پر بیٹھے ذکر خدا و استغفار میں مشغول تھے۔ سلام کیا اور سید نے جواب دیا اور دیکھ کر مسکرائے، گویاوہ اس سارے واقعہ سے باخبر ہیں اور اس راز سے واقف ہیںان سے پھر وہی سوال کیا جو خواب میں کیا تھا اور سید نے پھر وہی دعا تعلیم کی جو خواب میں تعلیم فرمائی تھی ۔

شیخ نے کچھ مدت کے لئے یہ دعا پڑھی اور تھوڑے ہی عرصہ میں دنیانے ان کی طرف رخ کیا اور مشکلات دور ہوگئیں۔

محدث نوری کہتے ہیں : ہمارے استاد سید کے خاص احترام اور ان کے بلند مقام کے قائل تھے اوران کی تعریف کرتے تھے۔آخری عمر میں انہوں نے سید سے ملاقات کی اور ان کی شاگردی میں آگئے ۔

عالم خواب اور بیداری میں سید نے شیخ کو تین چیزیں تعلیم فرمائیں :

١۔طلوع فجر کے بعد سینہ پر ہاتھ رکھ کرستّر مرتبہ کہے: ’’َا فَتّاحُ‘‘

 مرحوم کفعمی کتاب ’’المصباح‘‘ میں لکھتے ہیں: جو بھی یہ عمل انجام دے گا،پروردگار عالم اس کے دل سے حجاب اور پردوں کو اٹھا دے گا ۔

٢۔شیخ کلینی نے کتاب’’کافی ‘‘میں یہ روایت ذکر کی ہے :پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا ایک صحابی ایک مدت تک آنحضرت کی خدمت میں نہ آیا اور جب ایک عرصہ کے بعد آیا تو آنحضرت نے فرمایا :

کس چیز کی وجہ سے تم ایک عرصہ سے ہماری زیارت کو نہیں آئے؟

اس نے عرض کیا: میں  بیماری و فقر کی وجہ سے آپ کی خدمت میں  نہ آسکا۔

آنحضرت نے فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو ایسی دعا تعلیم دوں کہ تمہاری بیماری ا و رفقر دور ہو جائے؟  اس نے کہا :جی ہاں، یا رسول اللہ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا : کہو :

لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ [الْعَلِيِّ الْعَظيمِ] ، تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذي لايَمُوتُ ، وَالْحَمْدُ للَّهِِ الَّذي لَمْ يَتَّخِذْ [صاحِبَةً وَلا] وَلَداً ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَريكٌ فِي الْمُلْكِ ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ ، وَكَبِّرْهُ تَكْبيراً.

نہیں ہے کوئی حرکت و قوت نہیں ہے مگر وہ  جو پروردگار( بلند و برتر) سے ملتی ہے،میں نے اس زندہ خدا پر توکل کیا کہ جس کے      لئے موت نہیں ہے  اور  حمد اس خدا  کے لئے ہے کہ جس کی کوئی اولاد نہیں ہے  ،  اور نہ ہی کوئی اس کی سلطنت میں اس کا شریک ہے،  اور نہ بوجہ اس کے عجز کے کوئی اس کا مددگار ہے اور تم کی کبریائی بیان کیا کرو۔

راوی کہتاہے : کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ صحابی آیا اور کہنے لگا :

یا رسول اللہ !پروردگار عالم نے میری بیماری وفقر دور کر دیا ہے۔

٣۔ شیخ ابن فہد حلی نے ’’عد ة الداعی‘‘ میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت کیا ہے کہ  آنحضرت نے فرمایا :

جو بھی نماز صبح کے بعد اس دعا کو پڑھے اور بارگاہ خدا میں دست حاجت و نیاز بلند کرے تو پروردگار عالم جلد ہی اس کی حاجت کوپوری فرمائے گا اور اس کے تمام مہم کاموں کو پورا کردے گا ۔

بِسْمِ اللَّهِ وَصَلَّى اللَّهُ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ ، وَاُفَوِّضُ أَمْري إِلَى اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ بَصيرٌ بِالْعِبادِ ، فَوَقيهُ اللَّهُ سَيِّئاتِ ما مَكَرُوا ، لا إِلهَ إِلّا أَنْتَ ، سُبْحانَكَ إِنّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمينَ ، فَاسْتَجَبْنا لَهُ وَنَجَّيْناهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذلِكَ نُنْجِى الْمُؤْمِنينَ،وَحَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكيلُ،فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ ، وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ ، ما شاءَ اللَّهُ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ ، ما شاءَ اللَّهُ لا ما شاءَ النَّاسُ ، ما شاءَ اللَّهُ وَ إِنْ كَرِهَ النَّاسُ .حَسبِيَ الرَّبُّ مِنَ الْمَرْبُوبينَ ،حَسْبِيَ الْخالِقُ مِنَ الْمَخْلُوقينَ،حَسْبِيَ الرَّازِقُ مِنَ الْمَرْزُوقينَ ،حَسْبِيَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ ، حَسْبي مَنْ هُوَ حَسْبي ، حَسْبي مَنْ لَمْ يَزَلْ حَسْبي ، حَسْبي مَنْ كانَ مُذْ كُنْتُ [لَمْ يَزَلْ] حَسْبي ، حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلهَ إِلّا هُوَ ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظيمِ .

اللہ کے نام  سے شروع  اور  خدا محمد وآل محمد  پر درود بھیجے،اور میں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرتا ہوں، بیشک خدا بندوں کو دیکھتا  ہے  پس خدا اس شخص کولوگوں کی پیدا کی ہوئی برائیوں سے بچائے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے،پاک ہے تیری ذات اور بیشک میں ظالموں  میں سے تھا ،تو ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات دی اور ہم مؤمنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں،اور ہمارے لئے خدا کافی اور بہترذمہ دار ہے،پس خدا کے فضل و احسان سے اس حال میں نعمت ملی کہ انہیںکوئی تکلیف نہ پہنچی،جو اللہ چاہے وہ ہو گا، اور نہیں کوئی حرکت و قوت مگر جو اللہ سے ملتی ہے ،جو اللہ چاہے وہ ہو گا نہ وہ جو لوگ چاہیں،جو اللہ چاہے وہ ہو گااگرچہ لوگ اسے پسند نہ کرتے ہوںمیرے لئے پلنے والوں کی بجائے  پالنے والا کافی ہے،میرے لئے مخلوق کی بجائے خالق کافی ہے،میرے لئے رزق پانے والوں کی بجائے رزق دینے والاکافی ہے ،میرے لئے عالمین کو پالنے والا اللہ کافی ہے،میرے لئے کافی ہے وہ جو میرے لئے کافی ہے،میرے لئے کافی ہے جو ہمیشہ سے کافی ہے،میرے لئے کافی ہے جو کافی ہے جب سے میں ہوں اور کافی رہے گا میرے لئے،کافی ہے میرے لئے وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دعا ان دعاؤں میں سے ہے جسے پابندی کے ساتھ پڑھنے کا خیال رکھا جائے اور فہم و نقل اور روایت بھی قول کی صداقت پر گواہ ہے۔[1]

 


[1] ۔ دار السلام : ۲/۲۶۶.

    ملاحظہ کریں : 210
    آج کے وزٹر : 128216
    کل کے وزٹر : 162937
    تمام وزٹر کی تعداد : 141541308
    تمام وزٹر کی تعداد : 97640090