امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
عبیدالله بن زیاد کا قتل

عبیدالله بن زیاد کا قتل

************************************

10محرم الحرام: مختار ثقفی کے سپاہیوں کے ہاتھوں عبيدالله بن زياد کا قتل (۶۷ هـ ق)

************************************

ابن زیاد کا قتل ہونا

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مدینہ کے لوگوں اور بالخصوص بنی ہاشم کو خوشی کے دن نصیب نہیں ہوئے یہان تک کہ اسیران کربلا حضرت علی بن الحسین امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ سنہ ۶۴ ہجری میں مر گیا اور سنہ ۶۵ میں مروان بن حکم کو خلافت ملی۔ وہ بھی نو مہینہ حکومت کرنے کے بعد مر گیا اور خلافت اس کے بارہ بیٹوں میں سے ایک یعنی عبد الملک بن مروان کو ملی ۔ اس دوران مختار بن ابی عبید ثقفی نے سلیمان بن صُرد خزاعی کے ساتھ ایک مسلح گروہ کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کے لئے قیام کیا۔

   ابراهيم بن مالك اشتر ان کے لشکر کے کمانڈر تھے۔ کوفہ پر تسلط کے بعد ابن زياد، کے تعاقب میں موصل کی طرف گئے۔ابراهيم بن مالك اشتر نے امام حسین علیہ السلام کے قاتل ابن زياد کو ایک جنگ میں قتل کر دیا اور اس کا سر مختار کے لئے بھیج دیا۔   

  مختار نے عبيداللَّه بن زياد کا سر اپنی قوم کے ایک شخص کو دیا تا کہ اسے مدینہ میں امام سجاد علیہ السلام کے پاس لے جائے۔ مختار نے اس شخص سے تاکید کی:جب مدینہ پہنچو تو علىّ بن الحسين‏ عليهما السلام کے گھر کے دروازہ پر کھڑے رہو یہاں تک کہ گھر کا دروازہ کھل جائے اور جب بھی گھر کا دروازہ کھل جائے تو جان لو کہ لوگ کھانا کھانے کے لئے اس گھر میں جا رہے ہیں۔ جس وقت لوگ امام علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوں تو اس سر کو باہر نکال کر پھینک دو۔

مختار کا سفیر کوفہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہو ا اور  جس طرح مختار نے تاکید کی تھی وہ امام سجاد علیہ السلام کے گھر کے باہر منتظر رہا کہ گھر کا دروازہ کھل جائے اور جب لوگ گھر میں جمع ہو گئے تو اس نے بلند آواز سے کہا: اے فرزند رسول خدا! اے خاندان نبوت و رسالت! اے وہ کہ جن پر فرشتہ نازل ہوتے ہیں۔ میں کوفہ سے آیا ہوں اور مجھے مختار بن ابی عبیدہ نے بھیجا ہے اور میرے پاس آپ کے بابا حسین علیہ السلام کے قاتل کا سر ہے۔

سفیر مختار کے جب وہ سر زمین پر پھینک دیا، لوگوں کے رونے کی آوازیں آسمان تک جا رہیں تھی ۔ بالخصوص بنی ہاشم کی عورتیں کہ جو امام حسین علیہ السلام کے عراق میں جانے کے بعد بہت بڑے سوگ میں مبتلا تھیں۔ انہوں نے اے آہ و نالہ کیا کہ مدینہ نے اب تک ایسی آہ و فغاں نہیں سنی ہو گی۔ جب امام سجاد علیہ السلام کی نگاہ ابن زیاد کے کٹے ہوئے سر پر پڑی(جب کہ آپ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے) تو آپ نے فرمایا:

ابعده اللَّه إلى النار.

خدا اسے آگ میں ڈالے.

کربلا میں اپنے بابا کی شہادت کے بعد اس دن تک (یعنی سن ۶۶ ہجری) تک امام سجاد علیہ السلام کے لبوں پر تبسم بھی نہیں آیا تھا ۔ اسی دن شام سے آپ کے گھر پھل بھیجے گئے اور ابن زیاد کے سر کو دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام شاد ہوئے اور کربلا کے بعد آپ پہلی مرتبہ مسکرائے اور آپ نے حکم دیا ہ یہ پھل مدینہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔

خاندان پيامبر صلى الله عليه وآله وسلم اور بنى ‏هاشم کی عورتوں نے اس دن تک اپنے بالوں کو خضاب نہیں کیا تھا اور نہ ہی بالوں میں شانہ کیا تھا لیکن جب اس دن انہوں نے امام سجاد علیہ السلام کو خود دیکھا تو انہوں نے اپنے بال سنوارے اور خضاب کیا.(340)


340) اعجاز پيامبر اعظم‏ صلى الله عليه وآله وسلم در پيشگويى از حوادث آينده: 270.  

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات ص 948

 

بازدید : 947
بازديد امروز : 94815
بازديد ديروز : 160547
بازديد کل : 145112454
بازديد کل : 99912970