امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امام حسین علیه السلام، حضرت اباالفضل علیه السلام اور تمام شهداء کی تدفین

امام حسین علیه السلام،حضرت اباالفضل علیه السلام

اور تمام شهداء کی تدفین

**************************************************

13محرم الحرام : شہدائے كربلا کے مقدس جسموں کی تدفین (سنہ ۶۱ ہجری)

**************************************************

جب امام سجّاد عليه السلام كربلا پہنچے تو آپ نے بنی اسد کو اپنے مقتولین کے پاس حیران پایا کیونکہ لاشوں پر سر نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔

حضرت سجّاد عليه السلام نے شهداء کی ان کے ناموں سے پہچان کرائی۔ گریہ و فغان کی صدائیں بلند ہوئیں اور بنی اسد کی عورتوں نے اپنے بال پریشان کئے اور اپنے چہرے پر طمانچے مارے۔

پھرحضرت امام زين العابدين علیہ السلام اپنے مظلوم بابا کے جسم مطہر کے پاس گئے اور اسے آغوش میں رکھنے کے بعد بلند آواز سے گریہ کیا، جسم اطہر کو قبر کے مقام پر لے کر گئے اور آپ نے کچھ خاک ہٹائی تو تیار قبر نمودار ہوئی۔ آپ نے جسم مطہر کے نیچے ہاتھ رکھا اور فرمایا:

بِسْمِ اللَّهِ وَفي سَبيلِ اللَّهِ وَعَلى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ما شاءَ اللَّهُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ‏الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے بابا کے جسم مطہر کو تنہا قبر میں اتارا۔ بنی اسد میں سے کوئی بھی امام شهيد کی تدفین شریک نہ ہوا اور آپ نے فرمایا:’’کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے‘‘۔

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جسم مطہر کو قبر میں اتارنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام نے اپنے بابا کی کٹی ہوئی رگوں پر اپنے مبارک لب رکھ کر فرمایا:

طُوبى لِأَرْضٍ تَضَمَّنَتْ جَسَدَكَ الطّاهِرَ، أَمَّا اللَّيْلُ فَمُسَهَّدٌ وَالْحُزْنُ سَرْمَدٌ اَوْ يَخْتارُ اللَّهُ لِأَهْلِ بَيْتِكَ دَارَكَ‏الَّتي أَنْتَ بِها مُقِيمٌ، وَعَلَيْكَ مِنِّي السَّلامُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُهُ.

خوش نصیب ہے وہ سر زمین جس کے دامن میں آپ کا جسم مطہر ہے۔ رات سے کہہ دوں کہ اب میری آنکھوں میں نیند نہیں ہے یا اپنے حزن سے کہہ دوں کہ اب یہ دائمی ہے (جو کبھی اختتام پذیر نہیں ہو سکتا) یا آپ کی اہلبیت بھی وہیں قیام پذیر ہو جائے جہاں آپ مقیم ہیں، میری طرف سے آپ پر درود ہو اے فرزند رسول خدا! اور آپ پر خدا کی رحمت و برکات ہوں۔

اور پھر آپ نے امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر پر لکھا:

هذا قَبْرُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَليِّ بْنِ أَبِي طالِبٍ الَّذِي قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَرِيباً.

یہ حسين بن علي بن أبي طالب کی قبر ہے جسے غربت کے عالم میں پیاساقتل کیا گیا۔

پھر آپ اپنے چچا عباس کی طرف گئے اور انہیں اس حال میں دیکھا کہ آسمان کے ملائکہ وحشت زدہ اور جنت کی حوریں گریہ کناں ہوں گئیں۔ امام سجاد علیہ السلام جھکے اور اپنے چچا کی کٹی ہوئی رگوں کو چوما اور فرمایا:

عَلَى الدُّنْيا بَعْدَكَ الْعَفا يا قَمَرَ بَنِي هاشِمٍ وَعَلَيْكَ مِنِّي السَّلامُ مِنْ شَهيدٍ مُحْتَسِبٍ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.

اے قمر بنی ہاشم! آپ کے بعد دنیا کے سر پر خاک! میری طرف سے آپ پر سلام ہو اے با اخلاص شہید اور خدا کی رحمت و برکات آپ کے شامل حال ہوں۔

آپ نے حضرت عباس علیہ السلام کے لئے قبر کھودی اور اپنے بابا کی طرح آپ کو بھی تنہا قبر میں اتارا اور فرمایا:«میرا کوئی یاور ہے.»

پھر آپ نے بنی اسد کو حکم دیا کہ دو قبریں کھودیں اور ایک میں بنی ہاشم اور دوسری میں اصحاب کو دفن کریں. (كبريت احمر، اسرار الشّهادة، الايقاد علاّمة جليل، سيّد محمّد علي شاه عبدالعظيمى ‏رحمه الله).(45)


45) تاريخ امام حسين‏ عليه السلام: ج 9 ص 511.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص1470

 

 

بازدید : 839
بازديد امروز : 97105
بازديد ديروز : 160547
بازديد کل : 145117032
بازديد کل : 99915261