حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
دعا کی قبولیت میں یقین کی اہمیت

دعا کی قبولیت میں یقین کی اہمیت

 دعا کی قبولیت میں دو چیزیں بنیادی تأثیر کی حامل ہیں :

١۔موانع برطرف کرنا:یعنی قلبی رکاوٹوں کو دور کرنا اور دل سے باطنی تاریکی کے پردوں کو ختم کرنا۔

٢۔مقتضی کا موجود ہونا: یعنی باطنی نورانیت و پاکیزگی پیدا کرنا۔ 

انسان کی دعا کا تیر نشانہ پر لگے اس کے لئے ان دوچیزوں کی ضرورت ہے لہذاان دونوں چیزوں کومہیا کرے تاکہ اضطرار کی نوبت نہ آئے۔

اس بنا پر پہلے تودل سے تاریکیوں کے پردے برطرف کر دیئے جائیں اور ثانیاًاس کی جگہ پر انوار الٰہی کو جاگزیں کیا جائے ۔ اور ’’یقین‘‘یہی کام انجام دیتا ہے یعنی یہ دل سے ظلمت وتاریکی اور شک کو دور کرتا ہے اور دل کے اندر پاکیزگی اور نورا نیت بھی پیدا کرتا ہے۔

 وہ تمام افراد صحیح معارف اور عقائد میں یقین کی منزل پر پہنچے جو پاکیزہ اور نورا نی قلب کے مالک تھے اس لئے کہ یقین پیدا ہونے کا لازمہ قلب میں نورانیت کاپیدا ہونا ہے اور نور یقین جیسا کوئی نور نہیں ہے ۔

حضرت امام محمد با قر علیہ السلا م فرما تے ہیں ۔

لَانُورَ کَنُورِالْیَقِینِ.[1]

نور یقین کی مانند کوئی بھی نورنہیں ہے ۔

واضح ہے کہ جب دل میں یقین پیدا ہو جائے اور قلب منور ہو جائے تواس سے تاریکیاں دور ہو جا تی ہیں کیونکہ نور و ظلمت ایک جگہ پر جمع نہیں ہو سکتے۔

لہذا یقین پیدا کر نے سے ان تما م تاریکیوں کو دور کیا جاسکتاہے جو دعا کی قبو لیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور پاکیزگی ونورانیت کو بھی پیدا کیا جا سکتا ہے جو دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں ۔

اب دعاکی قبولیت میں یقین کی اہمیت سے مزید آشنا ہونیکے لئے ایک اہم واقعہ کی طرف توجہ فرمائیں جسے ہم نے کتاب''کامیابی کے اسرار''کی پہلی جلد میں بیان کیا ہے:

اگر«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ»یقین سے پڑھی جائے تو اس کے بہت نمایاں اثرات ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ خوئی قدس سرہ نے اس کے اثرات  کے متعلق  استاد الفقہا مرحوم مرزا شیرازی کے خادم سے ایک بہت ہی پیارا وقعہ نقل کیا ہے، ان کا بیان ہے:

 مرحوم مرزا شیرازی کا ایک دوسرا خادم بھی تھا جس کا نام ’’شیخ محمد‘‘ تھا مرحوم کے انتقال کے بعد اس نے لوگوں کے ساتھ بیٹھناچھوڑ دیا۔ ایک دن ایک آدمی شیخ محمد کے پاس آیا اس نے دیکھا کہ شیخ نے غروب کے وقت چراغ کو پانی سے پر کیا اور پھر روشن کردیا اور چراغ اچھی طرح جلنے لگا اس شخص کو  بہت تعجب ہوا  اور اس کی علت پوچھی ؟

شیخ محمد نے جواب دیا :مرحوم مرزا بزرگ کے انتقال کے بعد آنجناب کی جدائی و فراق اور غم و اندوہ کی وجہ سے میں نے  لوگوں کے ساتھ معاشرت ختم کردی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔  میرا دل بہت بھرا رہتا اور میں شدید حزن و اندوہ میں مبتلا رہتا تھا ۔

ایک دن شام کے وقت ایک جوان میرے پاس عرب طالب علم کی صورت میں آیا ،مجھے اس سے انس بھی ہوگیا اوروہ غروب تک ہمارے پاس ہی رہا اس کی گفتگو اتنی دلنشین تھی کہمیرا تمام غم واندوہ برطرف ہو گیا اس کے بعد بھی وہ کئی بار آیا اور ہمیں اس سے خاص لگائو ہوگیا ایک دن وہ مجھ سے گفتگو کررہا تھا لیکن اس درمیان ہمیں یاد آیا کہ آج چراغ میں تیل نہیں ہے اور چونکہ اس وقت رسم یہ تھی کہ دکانیں غروب کے وقت بند ہوجاتی تھیں اس لئے ہمیں اس وقت فکر ہوئی کہ اگر اس سے اجازت لے کر تیل خریدنے کے لئے باہر جاتا ہوں تومیں اس کی گفتگو سے محروم ہو جاؤں گااور اگر تیل نہ خریدوں تورات تاریکی میں گزارنا پڑے گی۔

وہ میری اس کیفیت کی طرف متوجہ ہوگئے اور فرمایا :تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ آج ہماری باتوں پر توجہ نہیں دیتے ۔

میں نے کہا :میری توجہ آپ کی طرف ہے ۔

فرمایا :نہیں،میری باتوں پرتم ٹھیک طرح سے توجہ نہیں دے رہے ہو ۔

میں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ آج چراغ کے لئے تیل نہیں ہے ۔

فرمایا :بہت تعجب ہے! ہم نے تمہارے لئے  اتنی ساری حدیثیں بیان کیں اور تمہیں«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ»کی فضیلت کے متعلق بتایا تم اتنا فائدہ نہ اٹھا سکے کہ مٹیّ کا تیل خریدنے سے بے نیاز ہوجائو ؟!

میں نے کہا :مجھے یاد نہیں ہے کہ آپ نے اس قسم کی کوئی حدیث بیان فرمائی ہو۔

  فرمایا :تم بھول گئے اور پھر فرمایا «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ»کے خواص میں یہ ہے کہ اگر تم کسی مقصدسے اسے پڑھو تو تمہیںوہ مقصودحاصل ہو جائے گا،

 تم اپنے چراغ کو پانی سے بھردو اور اس قصد سے کہ پانی میں مٹی کے تیل کی خاصیت پیدا ہو جائے«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھو ۔

میںیہ بات مان کر اٹھا اور چراغ کو پانی سے بھرا اور «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھی۔اور پھر جب اسے روشن کیا تو وہ روشن ہوگیا اس وقت سے جب بھی یہ خالی ہوتا ہے اسے پانی سے بھرتا ہوں اور «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھ کر اسے روشن کرتا ہوں ۔

مرحوم آیت اللہ خوئی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :تعجب کا مقام یہ ہے اس واقعہ کو  بتانے کے بعد شیخ محمد کے عمل سے اثر ختم نہیں ہوا ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیاکہ اگر یقین اور اعتقاد کے ساتھ ایک بار «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھی جائے تو اس کے غیر معمولی اور تعب آمیز نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

وہ لوگ جو اسم اعظم جانتے ہیں وہ بھی ان اسماء کو پڑھتے ہیں جنہیں لوگ عام طور سے استعمال کرتے ہیںلیکن جو چیز ان  کے عمل کو دوسروں سے ممتاز کردیتی ہے وہ صرف ان کا یقین ہے کیونکہ ان کا یقین اس اسم کے اثر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے جسے وہ تلفظ کرتے ہیں ۔

 


[1] ۔ بحار الأنوار ، ج ۷۸ ، ص۱۶۵

    ملاحظہ کریں : 244
    آج کے وزٹر : 32837
    کل کے وزٹر : 164982
    تمام وزٹر کی تعداد : 142041006
    تمام وزٹر کی تعداد : 97923364