حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عقلی اور روائی دلیلوں کی رو سے دعا کی ترغیب

عقلی اور روائی دلیلوں کی رو سے دعا کی ترغیب

آداب دعا اور اس کے شرائط کی بحث سے پہلے ضروری ہے کہ دعا کی طرف ترغیب دلاتنے والے  عقلی اور نقلی دلائل پیش کئے جائیں:

۱۔عقلی دلیل:

اگر انسان کو کوئی خطرہ  لاحق ہوتو عقل کا یہ تقاضا ہے کہ اگر وہ اسے برطرف کرسکتا ہو تو اسے دور کرنا ضروری ہے۔ ہر انسان ہمیشہ خطروں میں گھرا ہوا ہے اس لئے کہ انسان ان چیزوں سے مبرا نہیں ہے جو اس کے نفس کے اندر خطرات کو جنم دیتی ہیں اسے تشویش و پریشانی میں مبتلا کرتی ہیں اور تکلیف کا باعث ہوتی ہیں اور اس طرح کی مشکلات یاباطنی ہیں جیسے وہ عارضے جو انسان کے جسم کو بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں ،یا خارجی جیسے اسے کسی ظالم سے کوئی نقصان پہنچے یا پڑوسیوں اور اطراف میں رہنے والوں سے کوئی ضرر پہنچے ۔

 اگر فی الحال اس قسم کی مشکلات  سے دوچار نہ ہو تو عقل مستقبل میں ان حوادث کے درپیش ہونے کو ممکن قرار دیتی ہے ۔چنانچہ انسان کس طرح ان حوادث میں مبتلا اور گرفتار نہ ہوگا جب کہ  وہ ایسی دنیا میں زندگی بسرکر رہا ہے کہ جس میں کسی بھی صورت آرام و قرار نہیں ہے اور اس میں انسان سے مصیبتیں دور نہیں ہو سکتیں ۔

لہذا دنیا کی مشکلات  یاہر آدمی کودرپیش ہیں یا ان کے درپیش ہونے کا خطرہ ہے ،دونوصورتوں میں انہیں دور کرنے کی قدرت ہونے کی صورت میں انہیں دور کرنا چاہئے۔

اس طرح کے ضررکو دور کرنے کے لئے  دعا ایک ایساوسیلہ ہے جو انسان کے اختیار میںبھی ہے لہذا عقلی لحاظ سے ضروری و لازم ہے کہ انسان دعا کے ذریعہ اس طرح کے ضررکو خود سے دور کرے ۔

جیسا کہ امیرالمومنین ،سید الوصیین امام علی علیہ السلام نے ہم کو اس معنی سے آگاہ فرمایا ہے ۔

’’ ما من أحد ابتل وان عظمت بلواہ بأحق بالدعاء من المعاف الّذ لایأمن من البلاء‘‘ [1]

کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جو گرفتار و مبتلا نہ ہو ،اگر کسی کی مشکل بڑی ہے تو وہ اس شخص کی نسبت دعا کرنے کا زیادہ سزاوار ہے جو کہ سالم ہے لیکن مشکل میں گرفتار ہونے سے محفوظ نہیں ہے۔

٢۔روائی دلیل :

احادیث کی روسے یہ واضح ہے کہ ہر شخص دعا کا محتاج ہے ،چاہے وہ مشکلات میں مبتلا ہو یا نہ ہو ،اور دعا کا فائدہ یہ ہے کہ دعا انسان کو ہر اس بلا  اور مصیبت سے نجات دیتی ہے جس میں وہ گرفتار ہے اور اس بدی اور مشکل کو برطرف کردیتی ہے جو پہنچنے والی ہے یاانسان جس فائدہ کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو دعاانسان کو اس تک پہنچادیتی ہے اور جو چیز موجود ہے اسے ثابت و استوار کرکے جاودانی کر دیتی ہے اور زوال و نابودی سے روکتی ہے۔

 یہی وہ مقام ہے جہاں معصومین علیہم السلام دعا کو بعنوان سلاح متعارف کراتے ہیں ۔سلاح وہ ذریعہ ہے جس سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس سے ضرربرطرف ہوتا ہے اوراسی طرح معصومین علیہم السلام نے دیگرروایات میں دعا کو سپر کہا ہے، اور  اس میں کوئی شک و شبہ  نہیں ہے  کہ انسان سپر کے ذریعہ خود کو بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

ألا أدلّكم على سلاح ينجيكم من أعدائكم ويدرّ أرزاقكم ؟قالوا:بلى يا رسول اللَّه. قال : تدعون ربّكم بالليل والنّهار ، فإنّ سلاح المؤمن الدعاء.[2]

کیا میں تمہیں ایسے سلاح سے باخبر کروں جو تمہیں تمہارے دشمنوں سے نجات دے اور تمہارے رزق و روزی میں اضافہ کرے؟

لوگوں نے عرض کیا:جی ہاں ،یا رسول اللہ !

آپ نے فرمایا:شب و روز اپنے پروردگار سے دعا کرو اس لئے کہ دعا مومن کا اسلحہ ہے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الدعاء ترس المؤمن ، ومتى تكثر قرع الباب يفتح لك .[3]

دعا مومن کی سپر ہے اور جب دروازے پر زیادہ دستک دو گے توآخر کار وہ تمہارے لئے کھل ہی جائے گا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الدعا أنفذ من السنان الحدید.[4]

دعا آہنی نیزے سے بھی کہیں زیادہ نفوذ کرتی ہے۔

حضرت امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

إنّ الدعاء يردّ ما قدّر وما لم يقدّر ، قال : قلت : وما قد قدّر فقد عرفته ، فما لم يقدّر ؟ قال : حتّى لايكون .[5]

بیشک جو کچھ مقدر کیا جا چکا ہے اور جو مقدر نہیں کیا گیاہے،دعا اسے تبدیل کر دیتی ہے۔

راوی کہتا ہے:ہم نے عرض کیا:جو کچھ مقدر کیا جا چکا ہے ،وہ تو میری سمجھ میں آیا لیکن جو مقدر نہیں ہوا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

آنحضرت نے فرمایا:دعا کریں کہ جو ابھی تک مقدر نہیں ہوا ،آئندہ بھی مقدر نہ ہو۔

حضرت امام کاظم علیہ السلام ایک اور روایت میں فرماتے ہیں:

عليكم بالدعاء ، فإنّ الدعاء والطلب إلى اللَّه تعالى يردّ البلاء ، وقد قدّر وقضى فلم يبق إلّا إمضائه فإذا دعي اللَّه وسئل صرْفه صرَفه . [6]

میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ دعاکرو اس لئے کہ پروردگارعالم سے دعا اور طلب ایسی بلاؤں کو دور کرتی ہے ، جوتقدیر میں لکھی جا چکی ہیں اور حکم الٰہی اس پر جاری ہو گیا ہے صرف اس کا نافذ ہونا باقی ہے  اور اگراس طرح کی بلاؤں کے برطرف ہونے کے لئے دعا کی جائے اور خدا کو پکارا جائے تو پروردگار عالم اسے برطرف کردے گا۔

زرارہ  نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

ألا أدلّكم على شي‏ء لم يستثن فيه رسول اللَّه صلى الله عليه وآله وسلم ؟ قلت : بلى .

 قال : الدعاء يردّ القضاء وقد أبرم إبراماً ، وضمّ أصابعه . [7]

کیا تمہاری ایسے مسئلہ کی طرف راہنمائی فرماؤں جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے استثنا ء نہیں فرمایا ہے؟

زرارہ نے عرض کیا :جی ہاں!

آپ نے اپنی مبارک انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہوئے فرمایا: دعا حتمی قضاء (تقدیر الٰہی)کو برطرف کردیتی ہے اگرچہ وہ حتمی ہو چکی ہو۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :

إنّ الدعاء والبلاء ليتوافقان إلى يوم القيامة ، إنّ الدعاء ليردّ البلاء وقد اُبرم إبراماً . [8]

بلاشبہ دعا اور بلاء قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔دعا،بلا ء کو  بر طرف کردیتی ہے اگرچہ وہ حتمی اور استوار ہو چکی ہو ۔

اسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

الدعا یردّ البلاء النازل ومالم ینزل . [9]

دعا نازل شدہ اور نازل ہونے والی بلاؤں کو بر طرف کر دیتی ہے۔

 

 

 


[1]۔ بحار الأنوار : ج۹۳ ، ص۳۸۰

[2]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۸

[3]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۸

[4]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۹

[5]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۹

[6]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۹

[7]۔ الکافی:ج ۲ ، ص 470

[8]۔ الکافی:ج ۲ ، ص ۴۶۹

[9]۔ عدّة الداعي : 11 .

    ملاحظہ کریں : 245
    آج کے وزٹر : 31194
    کل کے وزٹر : 164982
    تمام وزٹر کی تعداد : 142037720
    تمام وزٹر کی تعداد : 97920078