حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) خلافت کو غصب کرنے کے علاوہ ابوبكر کے کچھ اورکرتوت

(۲)

خلافت کو غصب کرنے کے علاوہ ابوبكر کے کچھ  اورکرتوت

   ابوبکر نے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ جنہیں سن کر اس کے اپنے دوست اور محب بھی شرمندہ ہو جائیں کہ جن کی مختصر فہرست یہ ہے:

 ۱۔ پیغمبر (ص) اور علی علیہ السلام کے چچا جناب عبّاس اور آپ کے داماد کے قتل کا صرف اس بنا پرحکم دیناکہ انہوں نے اس کی بیعت نہیں کی۔
  ۲۔ دختر پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم سے بغیر کسی سبب کے فدک چھین لینا۔

۳۔حکم قرآن کے برخلاف مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے خالد بن وليد کو کھلا چھوڑ دینا۔

۴۔فرمان پیغمبر(ص) کو چھوڑ دینا اوراذان و اقامت میں «حىّ على خير العمل» ( كه جو حکم پيغمبر تھا) کی بجائے«الصلوة خيراً من النوم» کو رائج کرنا۔

۵۔بیت المال سے اپنی بیٹی عائشه اور عمر کی بیٹی حفصه کے وظیفہ میں کئی گنا اضافہ کر دینا اور بنت پیغمبر فاطمۂ بتول‏ عليها السلام کے حصہ میں کمی کر دینا۔

۶۔دانسته طور پر علی علیہ السلام کے حقّ خلافت کو غصب کرنا۔

۷۔حکم اسلام کے برخلاف اپنے بعد عمر کو خلافت کے لئے منتخب کرنا۔

۸۔کسی منطقی دلیل اور دینی سبب کے بغیر اس نے حضرت محمّد صلى الله عليه وآله وسلم کے فرامین کی کھلم کھلا مخالفت کی اور وصیت کی کہ اجازت کے بغیر‏ پيغمبر کے گھر میں داخل ہوں (21) اور آپ کے جوار میں قبر کھودیں (22) تا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے پیکر کو پیغمبر (ص) کی قبر کے ساتھ دفن کیا جائے.

حیرت ہے کہ اس بظاہرسادہ لوح مکار انسان نے اس سے بھی زیادہ برے کام انجام دیئے کہ جنہیں فہرست کی صورت میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔یہ شخص جنگ احد و حنين میں پیغمبر خدا کو دشمنوں کے نرغہ میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا۔

۲۔پیغمبر(ص) نے اس شخص کو جنگ خیبر میں جو پرچم اس کے حوالے کیا تھا ،یہ اسے زمین پر پھینک کر آدھے راستہ سے ہی بھاگ گیا.
 
۳۔اس نے پیغمبر(ص)کے حکم کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اسامہ بن زيدکے لشکر میں جانے سے انکار کردیا،یہاں تک کہ اس نے محمّدصلى الله عليه وآله وسلم کو مجبور کیا کہ آنحضرت اس پر اور اس کے یاروں پر لعنت کریں ۔پیغمبر (ص)نے اس کے اور اس کے حواریوں کے حق میں فرمایا: «جهّز جيش اسامة، لعن اللَّه من تخلّف عنه... » .
 ۴۔وہ واضح طور پر کہتا تھا کہ پیغمبر نے کسی کو اپنی جانشینی کے لئے منتخب نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ خود کو خلیفہ و جانشین پیغمبر کہلواتا تھا۔

۵۔وہ پیغمبر اکرم(ص) کے بے جان جسم مطہر کو چھوڑ کر،غسل دیئے بغیر خلیفہ کے انتخاب کے لئے سقيفه بنى‏ ساعده کی طرف بھاگ پڑا.

افسوس صد افسوس كه ہمارے زمانے کے لوگ اور بالخصوص نوجوان اس شخص کے خاندان کے افراد کو نہیں پہچانتے  اور وہ یہ  نہیں جانتے کہ انہوں نے کیسی آگ لگائی اور وہ کیسی کیسی خوفناک خونریزی کا سبب بنے ہیں ۔ہم اس بارے میں بھی مختصر سی یادآوری کرتے چلیں:

   ابوبكر کی دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک عائشه (زوجۂ پيغمبر) اور دوسری اسماء تھی کہ جس کا لقب«ذو النطاقين» تھا کہ جو زبير کی زوجہ تھی۔

کوئی ایسامسلمان نہیں ہے کہ جو عائشہ کی لگائی ہوئی آگ سے تھوڑا بہت واقف نہ ہو اور جو یہ نہ جانتا ہو کہ اسی نے ہی جنگ جمل کی آگ کے شعلے بھرکائے،یہی بصرہ کے لوگوں کی بغاوت و شورش کو باعث بنی، اسی نے سب سے پہلے علی علیہ السلام پر قتل عثمان کی تہمت لگائی اور « عثمان کے کڑتے » کو معاویہ کی دستاويز قرار دیا اور حسن‏ عليه السلام کے بے جان جسم اقدس پر تیر برسائے کہ جس کے بارے میں ہم الگ سے بحث کریں گے۔

ابوبكر کی دوسری بیٹی اسماء زبير کی زوجہ، عبداللَّه و مصعب بن زبیر کی ماں تھی۔اس نے بھی اپنی بہن عائشہ کی طرح تاریخ اسلام میں کچھ نحس و تلخ یادیں چھوڑی ہیں کہ جو مختصر طور پر یوں ہیں:
اسماء کا شوہر زبیر اور اس کا بیٹا عبداللہ جنگ جمل کے اصل سپہ سالاروں میں سے تھےکہ جنہوں نے على مرتضى‏ عليه السلام پر تلوار اٹھائی۔

اسماء کے دوسرے بیٹے مصعب کا گھر قاتلان حسين‏ عليه السلام و شهيدان دشت نينواو کربلا کی پناہگاہ بنا رہا۔اس نے سپاہ عمر بن سعد میں سے شبث بن ربعى اور قيس بن‏ اشعث کو اپنی پناہ میں لے لیا لیکن حسین علیہ السلام کا انتقام لینے والے مختار ثقفى کو قتل کر دیا.
 
عبداللَّه بن اسماء نے حسين‏ عليه السلام کی عظمت کی چھوٹی سے جھلک  کے سامنے مکہ میں اپنے جلال کو خطرے میں دیکھا تو اس نے آنحضرت کو مجبور کیا کہ آپ اپنا گھر چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوں اور آخر کار توحید و دین کی حفاظت کرتے ہوئے راہ حق میں قتل ہو جائیں۔
 اسی عبداللَّه کو جب مكّه و مدينه کی حکومت ملی تو اس نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ایک اور بیٹے محمّد حنفيّه کو قید کر دیا اور انہیں قتل کرنے کا مصمّم ارادہ کر لیا۔

یہ کچھ ایسے آثار تھے کہ جو ابوبكر کی بیٹیوں کی طرف سے تاريخ اسلام اوراسلامى سماج کو نصیب ہوئے۔

جی ہاں!ابوبكر کی ایک بہن بھی تھی كه جس نے تاریخ اسلام میں اس بھی زیادہ تلخ اور شوم یادیں چھوڑی ہیں:
   ابوبكر کی بہن اشعث بن قيس کی زوجہ تھی کہ جس کا نام امّ فروه تھا.

اس عورت نے ایک بچہ کو جنم دیا کہ جس نے خاندان على‏ عليه السلام کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کیااور حسن‏ عليه السلام کی زوجہ جعدہ بھی اسی عورت کی بیٹی اور  ابوبكر کی بھانجی تھی۔ چونکہ ہم امّ فروه ،اس کے شوہر اور اس کے بیٹوں کے بارے میں الگ باب میں بحث کریں گے لہذا ہم یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہیں.

اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ابوبكر کی خلافت احكام قرآن ،فرمودات محمّد صلى الله عليه وآله وسلم اور رضائيت خدا سے سازگار ہے؟

ابوبکر،اس  کے خاندان، اس کی بہن اور اس کی بیٹیوں سے جو کچھ مسلمانوں کے حصہ میں آیا ،کیا وہ دینی و اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی اور قرآن و پیغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے احکام کے مطابق انجام پایا؟!یا یہ کہ اس تمام فتنہ و فساد کا سبب صرف اس کاجاہ و مقام، منصب اور حکمرانی سے عشق تھا ؟!(23)

--------------------------------------

21) ) قرآن كلام خدا میں ذکر ہوا ہے کہ کوئی بھی اذن و اجازت کے بغیر پيغمبر(ص) کے بیت الشرف میں داخل نہیں ہو سکتا۔اس آیت کے حکم سے: «يا أيّها الّذين آمنوا لاتدخلوا بيوت النّبي إلاّأن يؤذن لكم...».
22) ) اور اس آیت کے حکم سے: «يا أيّها الّذين آمنوا لاترفعوا اصواتكم فوق صوت النبيّ...».
23) ) تاريخ سياسى اسلام: 119.

 

منبع: معاويه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 1483
آج کے وزٹر : 18027
کل کے وزٹر : 89361
تمام وزٹر کی تعداد : 129363146
تمام وزٹر کی تعداد : 89861331