حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۱) ابوبکر ، عمرکی نظر میں

(۱)

ابوبکر ، عمرکی نظر میں

معتبر اسناد سے نقل ہوا ہے کہ سعيد بن جبير کہتے ہیں: جب میں عبداللَّه بن عمر کے پاس تھا تو اس کے باپ عمر اور ابوبكر کی بات آئی تو ایک شخص نے کہا:خدا کی قسم كه یہ دونوں شمسين امّت تھے!
  
عبداللَّه نے کہا: نہیں؛ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مخالف تھے ۔ایک دن میں اپنے باپ عمر کے پاس تھا تو اس نے کہا: كسى کو اجازت کے بغیر اندر نہ اانے دو۔پھر اس سے کہا گیا: عبدالرحمن بن ابى  بکراندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہے؟
عمر نے کہا: «دويبة سوء ولهو خير من أبيه»؛ يعنى عبدالرحمن ایک برا چارپایہ(جانور) ہے حلانکہ وہ اپنے باپ ابوبكر سے بهترہے.
  
عبداللَّه بن عمر کہتا ہے: میں خوفزدہ ہو گیا اور میں نے کہا:اےبابا!یہ ہو سکتا ہے کہ عبدالرحمن اپنے باپ ابوبکر سے بہتر ہو «فقال: ومن ليس بخير من أبيه لا امّ لك».
   عمر نے کہا: تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے ؛کون ہے کہ جو ابوبكر سے بہتر نہ ہو۔

پھر اس نے کہا:اسے لے آؤ،پس عبدالرحمن آیااور چونکہ اس وقت حُطيئه شاعر عمر کے حکم پر قید تھا،لہذا وہ اس کی سفارش و شفاعت کرنے کے لئے آیا تا کہ اس کا جرم معاف کر دیا جائے اور اسے رہا کر دیا جائے لیکن عمر نہ مانا اور عبدالرحمن منہ لٹکائے باہر چلا گیا۔

پھر اس نے کہا:تم ابھی نہیں سمجھ پائے کہ اس ‏احمق قبيله بنى‏ تيم نے میرے ساتھ کیا ظلم کیا ہے اور انہوں نے خلافت میں مجھ پر سبقت لی ہے۔

میں نے کہا: میں نہیں جانتا تھا۔

اس نے کہا:اچھا ہوا کہ تم نے جان لیا۔
میں نے کہا: خدا کی قسم!لوگ اسے اپنے نور چشم سے زیادہ چاہتے ہیں.
اس نےکہا: یہ بھی تیرے باپ کی وجہ سے ہے.
 
میں نے کہا:اگر آپ اسے لوگوں میں آشکار و عیان کر دیں تو اور اسے اس کے مقام سے گرا دیں تو کیا ہو گا؟

اس نے کہا: بیٹا؛ تم خود کہہ رہے ہو کہ لوگ اسے اپنے نور چشم سے زیادہ چاہتے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں؟

اس نے کہا:اگر سچ بات بھی ہو تو بھی تیرے باپ کو سنگسار کر دیں۔

نیز دوسروں نے بھی معتبر اسناد سے ذکر کیا ہے کہ جب ابوموسى اشعرى اور مغيرة بن شعبه مکہ کے سفر کے دوران عمر بن خطاب‏ سے ملاقات کے لئے گئے تو راستہ میں ابوموسى نے مغيره سے کہا: عمر کو یہ خلافت ابوبكر سے ملی ہے اور اس نے اس کی حکومت میں سخت مصیبت برداشت کی ہے۔

مغيره نے کہا: نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ یہ رنج برداشت کرنے پر مجبور تھا اور اگر ممکن ہوتا تو یہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جاتا لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اگر حسدکو دنیا پر تقسیم کیا جائے تو قریش کو نوحصہ ملیں گے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو ملے گا۔یہ باتیں کرتے ہوئے عمر کے گھر تک پہنچ گئے اور اس کی خدمت میں طواف بیت کے لئے گئے۔

پھر عمر بھی کی باتوں میں شریک ہو گیا اور اس نے مغیرہ پر تکیہ کرتے ہوئے پوچھا اور آخر کار بات یہاں تک آگئی کہ قریش کا حسد دس میں سے نوحصوں پر مستمل ہے اور بقیہ تمام لوگوں کا حسد ایک حصہ ہے اور ابوبکر کے بس میں ہوتا تو عمر کو خلافت نہ سونپتا۔

جب عمر نے یہ سنا تو ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: «ثمّ قال: ثكلتك اُمّك يا مغيرة وما تسعة اعشار الحسد وتسعة اعشار العشروفي الناس كلّهم عشر العشر بل وقريش شركاؤها أيضا».

 اے مغيره؛ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹے؛تم نے یہ کیسی تقسیم کی ہے  کہ سارا حسد قریش میں ہی ہے اور دسواں حصہ دوسرے لوگوں کے لئے ہے اور اس بقیہ دسویں حصہ میں بھی قریش شریک ہیں۔

وہ یہ کہنے کے بعد کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اس نے کہا:اگر تم چاہتے تو تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں کے جو قریش میں سب سے زیادہ حاسد تھا،یوں ہی بات کا سلسلہ جاری رہا اور ہم عمر کے گھر آگئے پس اس نے ہمیں کعب بن زھیر کا شعر سنایا:

لاتفش سرّك إلاّ عند ذي ثقة             أولى وأفضل ما استودعت اسراراً
صدراً رحيباً وقلباً واسعاً قمناً               أن لاتخاف متى أودعت اظهاراً

پھر اس نے کہا: اب میں جو بات کرنے لگا ہوں،جب تک میں زندہ ہوں وہ کسی سے بیان نہ کی جائے۔

پھر اس نے آہ بھری اور کہا:خدا کی قسم!قریش میں سب سے زیادہ حسد ابوبكر میں بھرا تھا،پھروہ خاموش ہو گیا اور ہم بھی کچھ دیر خاموش رہے۔ «ثمّ قال: والهفاه على ضئيل بنى تيم بن مرّة لقد تقدّمنى ظالماً وخرج إلى منها آثماً»؛

 «پھر اس نے کہا: افسوس كه بنی تیم کے ناكس‏ نے ظلم کرکے خلافت میں مجھ پر سبقت لی اور عصیان و طغیان کیا ».
  
مغيره نے کہا: اگر ایسا تھا تو سقیفہ کے دن جب اس نے تمہاری بیعت کرنے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا تو تم نے تسلیم کیوں نہیں کیا؟
   عمر نے کہا: اے مغيره! میں تمہیں عرب کے عقلمندوں میں سے سمجھتا ہوں،جب اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا تب لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ابوبكر کے سوا کوئی نہیں چاہئے اور وہ یہ جانتا تھا کہ وہ کام نہیں کر سکتا لیکن وہ میرے خیالات جاننا چاہتا تھا۔ اگر میں خلافت قبول کر لیتا تو میرے خلاف اس کی‏ عداوت مزید محكم ہو جاتی اور پھر آج بھی میں خلافت باآسانی نہ سنبھال سکتا۔ (25)

 

----------------------------------

25) ناسخ التواريخ خلفاء: .127/1

  منبع: معاويه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 1397
آج کے وزٹر : 20026
کل کے وزٹر : 89361
تمام وزٹر کی تعداد : 129367144
تمام وزٹر کی تعداد : 89863330