حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عزاداری کے آثار

عزاداری کے آثار

جرمن محقق «مسيو ماربين» لکھتے ہیں : «آج مسلمانوں میں رائج تمام روحانی امور میں سے کسی میں بھی حضرت  امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور تعزیہ داری جیسا سیاسی شعور نہیں پایا جاتا ۔جب بھی ایک یا دو صدیوں تک مسلمانوں میں اس قسم کی عزاداری اور تعزیہ داری کو  فروغ ملے  اور وہ عام ہو جائے تو اس سے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی زندگی پیدا ہو جائے  گی»۔[1]

تشیع کے فروغ میں مجالس کے کردار کے بارے میں فرانس کے محقق «جوزف» لکھتے ہیں : « اس قبیلے نے قلیل مدت میں کسی جبر کے بغیر جتنی ترقی کی ہے،اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک یا دو صدیوں میں یہ فرقہ تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں پر سبقت لے جائے گا اور اس کی وجہ یہی عزاداری اور تعزیہ داری ہے کہ جس سے ہر فرد اس مذہب کی طرف مائل ہو گا »۔ [2]

فتح علی شاہ کے زمانے میں « گاسپار دروويل (Gaspar Derouville) ایران آیئے اور انہوں نے  محرم میں عزاداری کی رسومات  کو بہت قریب سے دیکھا تو لوگوں میں عزاداری کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والے جوش اور ولولہ کے بارے میں یوں لکھا : « ان مراسم میں حقیقی غم سے آنسو بہائے جاتے ہیں ، جس سے علی علیہ السلام کے غیّور پیروکاروں میں شدید جوش و ولولہ  پیدا ہوتا  ہے»۔[3]

مندرجہ بالا بیانات اس لیے اہم ہیں کہ ان کے مصنفین شیعہ یا ایرانی نہیں ہیں جو ان پر جذباتی اور متعصب ہونے کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور اس ناقابل تردید حقیقت کا انکار کیا جا سکے ۔ ایران اور شیعوں کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے اکثر مستشرقین اور سیاح اس حقیقت کے شاہد ہیں ۔ [4]، [5]

 


[1] ۔ جرمن مسيو ماربين ، «سياسة الحسينيه» يا  «روليسيون كبير»، چاپ زهره، ۱۳۵۱، ص ۴۵  - ۴۴.

[2] ۔ ایضاً، ص۵۰.

[3] ۔ گاسپار دروويل «سفر در ايران»، منوچهر اعتماد مقدم، انتشارات شباويز، تیسرا ایڈیشن 1367ش، ص۱۳۹ -  ۱۳۸.

[4]۔اسپناقچى سے منقول ،ایضاً ص ۵۶ ج۵۵ اور  يوسف جمالى، محمد كريم، «زندگانى شاه اسماعيل اوّل»، انتشارات محتشم كاشان، ۱۳۷۶ش ، ص۲۵۱ .

[5] ۔ ایرانیان و عزاداری عاشورا : ۹۹.

ملاحظہ کریں : 239
آج کے وزٹر : 3622
کل کے وزٹر : 21751
تمام وزٹر کی تعداد : 128914414
تمام وزٹر کی تعداد : 89547192