حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
جناب جابر بن عبد الله انصاری کے کربلا میں وارد ہونے کے بارے میں کچھ مطالب

جناب جابر بن عبد الله انصاری

کے کربلا میں وارد ہونے کے بارے میں کچھ مطالب

*****************************************

۲۰ صفر ؛ جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کا امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے کربلا پہنچنا ( سنہ۶۱ ہجری)

*****************************************

اربعین کے دن جناب جابر بن عبد الله انصاری کا کربلا پہنچنا

اس مہینہ کا بیسواں دن روز اربعين کے نام سے مشہور ہے يعنى حضرت ‏سيدالشهداء امام حسین صلوات اللَّه عليه کے چہلم کا دن ۔ معتبر کتابوں میں حضرت امام حسن عسكرى ‏عليه السلام‏ سے روايت ہوا  ہے كه مؤمن کی پانج نشانیاں ہیں۔ دن اور رات میں اکاون رکعات واجب اور نافلہ نمازیں ادا کرنا ، زيارت اربعين ، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ،سجده شكر میں پیشانی خاک پر رکھنا ، بسم اللَّه الرحمن الرحيم بلند آواز سے پڑھنا ۔ زيارت اربعين کا طریقہ معتبر سند سے صفوان جمال سے منقول ہے کہ ان کا بیان ہے کہ میرے مولا حضرت امام صادق‏ عليه السلام نے مجھ سے فرمایا کہ زیارت اربعین میں جب دن ڈھل جائے تو زیارت کرو  اور یوں کہو :

السَّلامُ عَلى وَلِيِّ اللَّهِ وحَبِيبِهِ، السَّلامُ عَلى خَلِيلِ اللَّهِ ونَجِيبِهِ، السَّلامُ‏ عَلى صَفِيِّ اللَّهِ وابْنِ صَفِيِّهِ، السَّلامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ، السَّلامُ عَلى اسِيرِ الْكُرُباتِ وقَتِيلِ الْعَبَراتِ.

اللَّهُمَّ انِّي اشْهَدُ انَّهُ وَلِيُّكَ وابْنُ وَلِيِّكَ، وصَفِيُّكَ وابْنُ صَفِيِّكَ، الْفائِزُ بِكَرامَتِكَ، اكْرَمْتَهُ بِالشَّهادَةِ وحَبَوْتَهُ بِالسَّعادَةِ، واجْتَبَيْتَهُ بِطِيبِ‏ الْوِلادَةِ، وجَعَلْتَهُ سَيِّدا مِنَ السَّادَةِ، وقائِدا مِنَ الْقادَةِ، وذائِدا مِنَ ‏الذَّادَةِ، واعْطَيْتَهُ مَوارِيثَ الانْبِياءِ، وجَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلى خَلْقِكَ مِنَ‏ الاوْصِياءِ.

فَاعْذَرَ فِي الدُّعاءِ، ومَنَحَ النُّصْحَ، وبَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبادَكَ مِنَ الْجَهالَةِ وحَيْرَةِ الضَّلالَةِ، وقَدْ تَوازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيا وباعَ حَظَّهُ بِالْأَرْذَلِ الادْنى، وشَرى آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الاوْكَسِ، وتَغَطْرَسَ وتَرَدّى فِي هَواهُ.

واسْخَطَكَ واسْخَطَ نَبِيَّكَ، واطاعَ مِنْ عِبادِكَ اهْلَ الشِّقاقِ والنِّفاقِ‏ وحَمَلَةَ الاوْزارِ الْمُسْتَوْجِبِينَ النّارَ، فَجاهَدَهُمْ فِيكَ صابِرا مُحْتَسِبا، حَتّى سُفِكَ فِي طاعَتِكَ دَمُهُ واسْتُبِيحَ حَرِيمُهُ، اللّهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْنا كَثِيرا وَبِيلا، وعَذِّبْهُمْ عَذابا الِيما.

انَا يا مَوْلايَ عَبْدُ اللَّهِ وزائِرُكَ جِئْتُكَ مُشْتاقا، فَكُنْ لِي شَفِيعا الَى اللَّهِ، يا سَيِّدِي، اسْتَشْفِعُ الَى اللَّهِ بِجَدِّكَ سَيِّدِ النَّبِيِّينَ، وبِابِيكَ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ، وبِامِّكَ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ، السَّلامُ‏ عَلَيْكَ يَابنَ امِيرِ الْمُؤْمِنِينَ سَيِّدِ الاوْصِياءِ.

اشْهَدُ انَّكَ امِينُ اللَّهِ وابْنُ امِينِهِ، عِشْتَ سَعِيدا ومَضَيْتَ حَمِيدا، ومُتّ‏ فَقِيدا مَظْلُوما شَهِيدا، واشْهَدُ انَّ اللَّهَ مُنْجِزٌ لَكَ ما وَعَدَكَ، ومُهْلِكٌ مَنْ‏ خَذَلَكَ، ومُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَكَ، واشْهَدُ انَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللَّهِ وجاهَدْتَ‏ فِي سَبِيلِهِ، حَتّى اتيكَ الْيَقِينُ، فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ قَتَلَكَ، ولَعَنَ اللَّهُ مَنْ ‏ظَلَمَكَ، ولَعَنَ اللَّهُ امَّةً سَمِعَتْ بِذلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ.

اللَّهُمَّ إِنِّي اشْهِدُكَ انِّي وَلِيٌّ لِمَنْ والاهُ، وعَدُو لِمَنْ عاداهُ، بِأَبِي انْتَ‏ وامِّي يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ، اشْهَدُ انَّكَ كُنْتَ نُورا فِي الاصْلابِ الشَّامِخَةِ والارْحامَ الْمُطَهَّرَةِ لَمْ تُنَجِّسْكَ الْجاهِلِيَّةُ بِانْجاسِها ولَمْ تُلْبِسْكَ ‏الْمُدْلَهِمّاتُ مِنْ ثِيابِها، واشْهَدُ انَّكَ مِنْ دَعائِمِ الدِّينِ وارْكانِ‏ الْمُسْلِمِينَ ومَعْقِلِ الْمُؤْمِنِينَ.

واشْهَدُ انَّكَ الامامُ الْبَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الْهادِي الْمَهْدِيُّ، واشْهَدُ انّ ‏الائِمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوى واعْلامُ الْهُدى والْعُرْوَةُ الْوُثْقى، والْحُجَّةُ عَلى اهْلِ الدُّنْيا، واشْهَدُ انِّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ، وبِايابِكُمْ مُوقِنٌ، بِشَرائِعِ دِينِي‏ وخَواتِيمِ عَمَلِي، وقَلْبِي لِقَلْبِكُمْ سِلْمٌ، وامْرِي لِأَمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ ونُصْرَتِي‏ لَكُمْ مُعَدَّةٌ، حَتّى يَأْذَنَ اللَّهُ لَكُمْ، فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لا مَعَ عَدُوِّكُمْ، صَلَواتُ ‏اللَّهِ عَلَيْكُمْ وعَلى ارْواحِكُمْ واجْسادِكُمْ وشاهِدِكُمْ وغائِبِكُمْ وظاهِرِكُمْ‏ وباطِنِكُمْ، آمِينَ رَبَّ الْعالِمِينَ.

اگر اس دن روز عاشورا کے آخر کی زیارت بھی پڑھی جائے تو یہ مناسب ہے اور جان لو کہ مشہور یہ ہے کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اس دن امام زین العابدین علیہ السلام اہلبیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ شام سے رہائی کے بعد کربلائے معلٰی میں داخل ہوئے تھے اور آپ نے شہداء کے سر اقدس ان کے جسموں کے ساتھ دفن کئے تھے ۔ اور یہ بہت سی وجوہات کی رو سے بہت بعید ہے اور ان وجوہات کو یہاں ذکر کرنے سے بحث بہت طولانی ہو جائے گی ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دن اہلبیت اطہار علیہم السلام مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تھے اور یہ بھی بہت بعید ہے اور بعض کہتے ہیں کہ شاید امام زین العابدین علیہ السلام اعجاز سے طیّ الارض کرتے ہوئے مخفیانہ طور پر شام سے کربلا پہنچے ہوں اور سروں کو شہداء کے جسموں کے ساتھ دفن کیا ہو ۔ یہ ممکن ہے لیکن اس بارے میں کوئی روایت نہیں ملتی بلکہ بعض روایات فی الجملہ اس سے منافات رکھتی ہیں  اور احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے  اور آپ اربعین کے دن کربلا پہنچے  اور آپ نے اس دن امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کی زیارت کی ۔ چونکہ جابر بزرگ صحابی تھے اور انہوں نے اس عظیم امر کی بنیاد رکھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے اس دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اس قدر فضیلت ہے  اور شاید اس کی اور بھی وجوہات ہو کہ جو ہم پر مخفی ہیں  اور چونکہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی جائے تو پھر زیارت کرنی چاہئے اور پھر اس کے سبب کے بارے میں تفحص کرنا ضروری نہیں ہے ۔ (1141)


1141)  زادالمعاد ص 397 ۔

 

منبع: الصحیفة الحسینیة الجامعة ص  264

 

ملاحظہ کریں : 2031
آج کے وزٹر : 16047
کل کے وزٹر : 23197
تمام وزٹر کی تعداد : 128895770
تمام وزٹر کی تعداد : 89537866