حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) ابو بکر کو معزول کرنے کے بارے میں مرحوم شیخ صدوق کی بہترین بحث

(1)

ابو بکر کو معزول کرنے کے بارے

میں مرحوم شیخ صدوق کی بہترین بحث

   قاضى نور اللَّه‏ قدس سره کتاب مجالس المؤمنين میں بیان فرماتے ہیں کہ ابن ابی جمہور عراق میں مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے کے بعد مشہد میں حضرت ثامن الحجج‏ علىّ بن موسى الرضا عليہما السلام  کی زیارت کے لئے گئے اور اس سفر کے دوران انہوں نے رساله زاد المسافرين تألیف کیا اور وہ لکھتے ہیں کہ مشہد مقدّس رضوى میں سيّد نقيب حسيب‏ نسيب لبيب مير محسن بن محمّد رضوى قمى کی خدمت میں پہنچے  ۔ سنہ آٹھ سو اٹھتر ہجری میں اس صاحب سعادت سید کے حکم پر اس رسالہ کی ایک شرح لکھی کہ جس کا نام کشف البراہین رکھا ۔

   جب ہرات کے علماء کو شیخ کی پُر فیض آمد کی خبر ہوئی تو فاضل ہروی ان سے ملاقات کے لئے آئے ۔ جناب شیخ نے تین نشستوں میں ان کے ساتھ مناظرہ کیا اور تمام مناظرات میں انہیں لاجواب اور مبہوت کر دیا اور انہوں نے فاضل ہروی سے مناظرے کی نشست میں جو رسالہ لکھا تھا ، وہ بہت کم دستیاب ہے ۔ لہذا ایک ہی نشست کے تذکرہ پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

  ابن ابى جمہور کے بیان کے مطابق اس نشست اور مجلس کی کیفیت کچھ یوں تھی :

   ایک دن سید محسن مذکور نے کچھ سادات اور طلبہ کو دعوت دی اور اس دعوت میں ملا ہروی بھی موجود تھے کہ جو میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھ سے میرا نام پوچھا ۔ میں نے کہا : میرا نام محمد ہے ۔  اور پھر انہوں نے پوچھا کہ تم کس عرب ملک میں پیدا ہوئے ہو ؟ میں نے کہا : بلاد ہجر کہ جو لحصا کے نام سے مشہور ہے اور جہاں کے اہل علم و دین بہت مشہور ہیں ۔

   اس کے بعد انہوں نے پوچھا : تم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟

   میں نے کہا : کیا آپ اصول کے متعلق پوچھ رہے ہیں یا فروع کے بارے میں ؟

   انہوں نے کہا : دونوں کے بارے میں ۔

   میں نے کہا : اصول میں میرا مذہب ہر وہ چیز ہے کہ جس پر میرے لئے دلیل قائم ہو اور فروع میں ایسی فقہ کا پیروکار ہوں کہ جو اہلبیت علیہم السلام سے منسوب ہے ۔

   پھر انہوں نے کہا : میرا خیال ہے کہ تم امامیہ مذہب کے پیروکار ہو ۔

   میں نے کہا : جی ہاں ۔

   انہوں نے کہا : امامیہ کا یہ کہنا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد على بن ابى طالب ‏عليہما السلام امام ہیں ۔

   میں نے فوراً کہا : جی ہاں ! ایسا ہی ہے اور میں بھی اسی چیز کا قائل ہوں ۔

   انہوں نے کہا : اپنے اس دعویٰ کی کوئی دلیل بیان کرو ۔

   میں نے کہا : مجھے اپنے اس دعویٰ پر دلیل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

   انہوں نے کہا : کیوں ؟

   میں نے کہا : کیونکہ تم ایک مرتبہ بھی علی بن ابی طالب علیہما السلام کی امامت کے منکر نہیں ہو بلکہ میں اور تم متفق ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی بن ابی طالب علیہما السلام امام ہیں۔لیکن میں اس میں واسطہ کی نفی کرتا ہوں ۔ پس اس مسئلہ میں نافی ہوں اور تم مثبت ۔

   اس بناء پر تم پر ضروری ہے کہ کوئی دلیل لاؤ مگر یہ کہ علی بن ابی طالب علیہم السلام کی امامت کا کلی طور پر انکار کرو دو  اور اجماع کی خلاف ورزی کرو تو اس صورت میں مجھ پر دلیل پیش کرنا واجب ہو جائے گا ۔

   اس نے کہا : میں ان کی امامت کا انکار کرنے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں لیکن میرا یہ عقیدہ  ہے کہ ان سے پہلے خلفائے ثلاثہ نے خلافت کی ۔

   میں نے کہا : پس تمہیں اس دعوے کی دلیل پیش کرنی چاہئے کیونکہ میں ان وسائط (یعنی خلفائے ثلاثہ کی خلافت) کے موافق نہیں ہوں ۔

   حاضرین کو میرا یہ بیان پسند آیا اور انہوں نے کہا کہ شیخ عرب حق بجانب ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ تم مدعی ہو اور وہ منکر ہیں اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے مدعی پر گواہ لانا ضروری ہے ۔

   پس جب میرے بیان سے ان پر حجت و دلیل قائم کرنا لازم ہو گیا تو انہوں نے کہا : میرے اس دعوے کے بے شمار دلائل ہیں ۔

   میں نے کہا : میرے لئے ایک ہی دلیل کافی ہے ۔

   انہوں نے کہا : پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ابوبكر کی بلا فصل خلافت پر اجماع ہے اور شریعت میں اجماع حجت ہے ۔

   میں نے کہا : اگر اس اجماع سے تمہاری مراد وہ اجماع ہے کہ جو اس وقت ابوبکر کی خلافت کے اکثر قائلین سے حاصل ہو تو ایسا اجماع شریعت میں حجت نہیں ہے ؛ کیونکہ اس وقت ابوبکر کی خلافت کے مخالفین بھی موجود تھے ۔ اگرچہ اس کی خلافت کے موافقین کے مقابلہ میں ان کی تعداد کم تھی لیکن اکثریت حجت نہیں ہے اور اس کی دلیل خداوند متعال کا یہ فرمان ہے «وقليل من عبادي الشكور» ، بلکہ بہت سے موارد میں کثرت مذموم ہے ؛ جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا : «لا خيرفي كثير من نجويهم» «وكم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن اللَّه و اللَّه مع الصابرين» اور اگر اس اجماع سے تمہاری مراد ایسا اجماع ہے کہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے دن اہل حلّ و عقد کے اتفاق سے حاصل ہوا ہو تو میں اسے دو طرح سے باطل کر سکتا ہوں ۔

   ایک طریقہ یہ ہے کہ میرے مذہب میں اس کی استقامت یقین سے پیوستہ ہے ، اگرچہ میں تمہیں اس کا ملزم نہ بنا سکوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اجماع حجت نہیں ہے مگر یہ کہ اس اجماع میں معصوم شامل ہو اور ہر وہ اجماع کہ جس میں معصوم شامل نہ ہو ، وہ ہمارے مذہب میں حجت نہیں ہے کیونکہ اجماع کے تمام افراد پر فرداً فرداً خطا کا شائبہ موجود ہے پس یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ہر ایک خطا پر ہو کیونکہ وہ ترکیب (اجماع) ان افراد سے مرکب ہے (کہ جن میں خطا کا امکان ہے ) پس ہمارے نزدیک ایسا صحیح نہیں ہے ۔

   اسے دوسرے طریقے سے باطل کرنا ، آپ کے ہاں بھی رائج ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح پہلے بیان کیا گیا کہ اجماع سے مراد امتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے اہل حلّ و عقد کا کسی امر پر اجماع ہے لیکن سقیفہ کے دن ابوبکر کی خلافت میں یہ معنی بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اہل فضل صحابہ ، زہّاد ، علماء اور بلند مرتبہ سادات‏ سقیفہ میں موجد نہیں تھے ۔

   اور بالجمله اس بات پر اتّفاق ہے کہ على علیہ السلام ، عبّاس ، عبد اللَّه بن عباس ، زبير ، مقداد ، عمّار ، ابوذر ، سلمان ، بنی ہاشم کی ایک جماعت اور ان کے علاوہ دیگر صحابه حضرت پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کی رحلت پر غمزدہ تھے لیکن انصار نے اس مصیبت عظمیٰ کا خیال نہ کیا اور سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے اور اپنے امور کو سلجھانے کے لئے کسی امیر کو معین کرنے میں مگن ہو گئے ۔

  اور جب ابو بکر ، عمر ، ابو عبیدہ جرّاح اور ان سے ملحق ہونے والی طلقاء کی ایک جماعت کو خبر ہوئی کہ انصار سقیفہ میں جمع ہیں تو یہ بھی سقیفہ کی طرف بھاگے ، اور وہاں پہنچ کر ان کے ساتھ بحث و جدال اور نزاع و اختلاف شروع ہو گیا ، یہاں تک کہ انصار نے مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے «منّا امير ومنكم امير» کا نعرہ لگایا ، لیکن ان کے اصحاب اس بات پر راضی نہ ہوئے اور انہوں اپنی روایت «الأئمة من قريش» کو ان پر حجّت قرار دے دیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بشر بن سعد کو اپنے ساتھ ملا لیا کہ جو انصار کے ایک قبیلہ کا سربراہ تھا اور جسے سعد بن عبادہ سے حسد کی مرض لاحق تھی کہ جس کا نام انصار کی سربراہی کی قرعہ اندازی میں نکلا تھا ۔ لہذا انہوں نے اسے دھوکا دے کر اپنے ساتھی بنا لیا ۔

  عمر اور ابو عبيده بشر بن سعد کی موجودگی میں ابو بکر کی بیعت کا اقدام کیا اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا «السلام عليك يا خليفة رسول اللَّه» ۔ پس یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سقیفہ کے دن ابو بکر کی بیعت دھوکے بازی ، مکر ، فریب ، جلد بازی اور قہر و غضب سے انجام پائی ۔

   اور اس بناء پر عمر نے کہا : «كانت بيعة أبي‏ بكر فلتة وقى اللَّه المسلمين شرّها فمن عاد إلى مثلها فاقتلوه» پس جب ابو بکر کی بیعت میں جلیل القدر اور صاحبان فضل اصحاب ، زہّاد اور مہاجرین و انصار میں ذوی الأقدار حضرات ہی موجود نہیں تھے تو پھر ابو بکر کی بیعت وہ اجماع کیسے ثابت ہو گیا کہ جس کے آپ دعویدار ہیں ۔

   جب فاضل ہروى نے یہ مقدمات سنے تو کہا : آپ نے جو کچھ بیان کیا وہ مسلّم ہے لیکن جو لوگ سقیفہ کے دن ابو بکر کی بیعت کے دوران موجود نہیں تھے ، انہوں نے بعد میں ابو بکر کی بیعت کی تائید کی اور اس کی خلافت پر راضی ہو گئے ، اگرچہ اس امر میں ایک ہی دفعہ سب کا اتفاق واقع نہیں ہو ، لیکن یہ اجماع میں شرط نہیں ہے ۔

   میں نے کہا : (ابن ابى جمہور کہتے ہیں : میں نے کہا) جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں ، اس کے بعد ان کی تائید و موافقت حجت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں اکراہ و اجبار اور تقیہ کا احتمال ہے ۔ پس جب اشراف ، علماء اور زہّاد نے دیکھا کہ خلافت پر قبضہ کرنے والوں نے عوام كالأنعام کی عدم بصیرت اور ان کے لالچ سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور مختلف صوبوں کی حکومت کا لالچ دے کر ان کے بزرگوں کی بھی حمایت حاصل کر لی ہے ، پس انہوں نے اپنی جان کے خوف سے ان کی مخالفت سے گریز کیا اور کچھ لوگ تقیہ اور مجبوری کی رو سے ان کے تابع ہو گئے ۔ پس جبر و اکراہ کی وجہ سے  واقع ہونے والی بیعت و تابعیت بالاجماع باطل ہے ؛ چاہے اجماع نے بیعت کی ہو ۔

   فاضل ہروى نے کہا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا  کہ ان نے تقیہ یا اکراہ کی وجہ سے ان کی بیعت کی ؟ تا کہ تمہارا دعویٰ ثابت ہو سکے ؟

   میں نے کہا : علم میں ایک میزان و معیار مقرر کیا گیا ہے کہ إذا قام الإحتمال بطل الإستدلال اور اس اجماع میں جبر و اکراہ کا اجماع ہے ۔ پس یہ اجماع باطل ہونا چاہئے ۔ نیز متعدد روایات کے ضمن میں جبر و اکراہ کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔

   منجمله ابن ابى الحديد معتزلى (کہ جو امامت کے مسئلہ میں اہلسنّت سے تعلق رکھتے ہیں ) نے باب فضائل عمر میں کہا ہے کہ : «عمر هو الّذي وطأ الأمر لأبى بكر و قام فيه حتّى أنه وقع في صدر المقداد و كسر سيف الزبير و كان قد شهره عليهم» يعنى عمر نے ابو بکر کے لئے امر خلافت کو استوار کیا ، یہاں تک کہ اس نے اس مقصد کے تحت منکرین خلافت سے مجادلہ کیا اور مقداد کے سینہ پر کھڑا ہوا اور زبیر کی تلوار کو توڑ دیا ۔ پس یہ جبر و اکراہ ہے ۔

   نیز ابن ابى الحديد نے براء بن عازب سے روايت كی ہے : میں ہمیشہ سے اہلبيت رسالت‏ عليہم السلام کا محب تھا اور جب حضرت‏ رسول خدا‏ صلى الله عليه و آله و سلم کی وفات ہوئی تو مجھے اس کا بہت دکھ ہوا ۔

   اس کے بعد میں یہ دیکھنے کے لئے گھر سے باہر  آیا کہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ اچانک میں نے دیکھا کہ ابو بكر ، عمر اور ابو عبيده كوچہ  میں جا رہے ہیں اور طلقا کی ایک جماعت ان کے دائیں اور بائیں جانب بھاگ رہی ہے ۔ عمر نے اپنے تلوار نیام سے نکالی ہوئی تھی اور وہ جس مسلمان سے بھی ملتا اسے کہتا کہ ابو بكر کی بيعت كرو کہ جس طرح دوسروں نے اس کی بیعت کی اور تم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بیعت لے لیتے ۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں پریشانی کے عالم میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے پاس گیا اور اس جماعت کے بارے میں بتایا ، جب کہ آپ اس وقت پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر منور بنا رہے تھے ، پس آپ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بیلچہ زمین پر رکھا اور کہا : «بسم اللَّه الرحمن الرّحيم، الم أحسب النّاس أن يتركوا أن يقولوا آمنّا وهم لايفتنون» ، عبّاس بھی وہیں موجود تھے ، انہوں نے کہا : اے بنی ہاشم ! یہ وقت گذرنے تک تم اپنے ہاتھ نیچے رکھو ۔ یہ روایت بھی جبر و اکراہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ عباس اور علی کو اپنے لئے خلافت کی توقع تھی ۔

   نیز یہ روايت مشہور ہے کہ سقیفہ کے دن سعد بن عبادہ بیمار تھا اور اس نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے منع کر دیا ۔ ابو بکر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سعد کو پاؤں سے کچل دو اور دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا : اقتلوا سعداً قتله اللَّه ۔

   اور ایک دوسری مشہور روایت ہے کہ جب ابو بکر اپنی خلافت کے پہلے جمعہ کے دن منبر پر گیا تو مہاجرین میں سے بارہ اور انصار میں سے چھ افراد کھڑے ہو گئے اور انہوں نے منبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جانے کی وجہ سے اس کی شدید مخالفت کی اور اس کی سخت مخالفت کی کہ جس کی وجہ سے وہ منبر پر مبہوت ہو گیا اور زبان سے اس کا کوئی جواب بھی نہ دے سکا ، یہاں تک کہ عمر کھڑا ہوا اور اس نے سخت لہجہ سے ابو بکر سے کہا : «يا لكع إذا كنت لاتقوم بحجّة فلم أقمت ‏نفسك هذا المقام» ؟ يعنى اے لئيم ! جب تم اپنے مدعیٰ پر کوئی دلیل و حجت نہیں لا سکتے تو پھر تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ اور پھر اس نے ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر اسے منبر سے نیچے اتارا اور اسے گھر لے گیا ۔

  اور جب دوسرا جمعہ آیا تو وہ سعد بن وقاص اور خالد بن ولید جیسے لوگوں کے ساتھ آیا کہ جن میں سے ہر ایک کے ساتھ سو افراد کا پلید لشکر تھا اور وہ لوگ تلواریں لہراتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ۔ اور جب عمر کی نظر امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور کچھ صحابہ جیسے سلمان وغیرہ پر پڑی تو اس نے ان سے خطاب کرتے ہوئے قسم کھائی اور کہا : خدا کی قسم ! اے اصحاب علی ! اگر تم میں سے کسی نے بھی گذشتہ جمعہ کی طرح بات کی تو میں اس کی آنکھیں نکال لوں گا ۔

   سلمان کھڑے ہوئے اور کہا : «صدق رسول اللَّه أنّه قال: بينما أخي وابن عمّى جالس في‏ مسجدي اذ وثب عليه طائفة من كلاب النار يريدون قتله ولاشكّ أنّكم منهم»، يعنى‏ پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم نے سچ کہا ہے کہ جب میرا بھائی اور میرے چچا کا بیٹا مسجد میں بیٹھا ہو گا تو جہنم کے کتوں کا ایک گروہ اس پر حملہ کرے گا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کرے گا ۔

  عمر نے انہیں قتل کرنے کے لئے اپنی تلوار نکالی لیکن امير المؤمنين علی ‏عليه السلام اسے دامن سے پکڑ کر زمین پر دے مارا اور کہا : «يابن صهّاك‏ الحبشيّة؛ أبأسيافكم تهدوننا الخ»؛ اے پسر صہاک حبشيّه ! کیا تم لوگ اپنی تلواروں سے ہمیں ڈرا دھمکا رہے ہو  اور اپنی تعداد اور کثرت سے ہم پر اپنے غلبہ کا اظہار کر رہے ہو ؟ خدا کی قسم ! اگر خدا کی جانب سے حکم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تم لوگوں سے جنگ میں توقف کا عہد نہ کیا ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ ہم میں سے کس کی تعداد کم ہے اور کون کمزور اور ذلیل و خوار ہے ۔ اور پھر آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ مسجد سے باہر چلے جاؤ ۔

   پس جب بھی ایسے حالات ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر کی بیعت جبر و اکراہ پر مبنی ہے ۔ اور جس جماعت نے سقیفہ کے دن اس کی بیعت نہیں کی تھی ، انہوں نے اس کے بعد بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا ۔ لہذا اس رو سے وہ اجماع حاصل نہیں ہوا کہ جس کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ نیز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت کے درمیان کوئی فاصلہ بھی قائم نہیں ہو سکا ۔

   فاضل ہروى نے اس دعوے کے باطل ہونے کا اعتراف کیا اور کہا : میرے پاس اپنے دعوے کی دوسری دلیل بھی ہے ۔

   میں نے کہا : وہ کیا ہے ؟

   اس نے کہا : حضرت پيغمبرصلى الله عليه و آله و سلم نے اپنے مرض الموت میں لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ابو بكر کے پیچھے نماز ادا کریں اور اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں صحابہ پر برتری حاصل تھی کیونکہ نماز میں تقدم سے دوسرے امور میں بھی تقدم ثابت ہو جاتا ہے اور اس لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

   ابن ابى جمہور کہتے ہیں : چند وجوہات کی بناء پر یہ دلیل علیل و ضعیف ہے :

   اوّلاً : اگر ابو بكر کا نماز میں تقدم صحيح ہو ، جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو پھر اس تمہاری نظر میں یہ یہ امر اس کی امامت پر بھی دلالت کرتا ہے ۔ اس صورت میں یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے ابو بکر کی امامت کے باب نص ہے اور جب ان کے پاس یہ نص موجود تھی تو پھر انہیں «الأئمّة من قريش» جیسی ضعیف نص کی ضرورت کیونکر پیش آئی ۔

   بلكه اسے چاہئے تھا کہ اسی نص کے ذریعے اہل سقیفہ پر حجت لے کر آتا تو سب  انصار بھی اس کی حمایت کر لیتے اور پھر خلافت کو ثابت کرنے کے لئے جبر اور طاقت کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ نیام سے تلوار نکالنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی ۔ لیکن انہوں نے ایسی آسان اور واضح نص سے تمسک نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس اس نص میں کوئی حجت نہیں تھی ۔ لہذا اس احتجاج پر تمہاری تمہارے اصحاب کی غرض واضح نہیں ہے ۔

   ثانیاً : نماز میں تقدم امامت عامہ پر دلالت نہیں کرتا ۔ امامت عامہ سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد دین اور دنیا کے امور میں ریاست و حکومت ۔ کیونکہ خاص ؛ عام پر دلالت نہیں کر سکتا اور بالخصوص آپ کے مذہب میں کہ جہاں تم لوگوں نے (نماز میں) فاسق کی امامت کو بھی تجویز کیا ہے اور جس میں تم لوگ کے ہاں عدالت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ امامت عامہ میں عدالت کی شرط ہے اور تم لوگوں کے نزدیک بھی اگر امام سے کوئی فسق صادر ہو تو اسے معزول کرنا واجب ہے ۔ پس جس چیز کے لئے عدالت کی ضرورت نہیں ہے ، تم کیسے اس سے کسی ایسی چیز کو ثابت کر سکتے ہو کہ جس کے لئے عدالت کی شرط ہے ؟

   ثالثاً : یہ روایت متفق علیہ نہیں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر کو نماز میں پڑھانے کے لئے حکم دیا کیونکہ ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے کہ جب بلال آئے اور انہوں نے نماز کے وقت کی خبر دی اور عائشہ نے یہ دیکھا کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیماری کی شدت کی وجہ سے سخت مضطرب ہیں تو بلال سے کہا کہ ابو بکر سے کہو کہ وہ نماز میں لوگوں کی امامت کروائے ۔ جب ابو بکر نے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کے لئے تکبیر کہی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوش میں آئے اور اس کی تکبیر کی آواز سنی تو پوچھا کہ یہ کون ہے کہ جو لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے ؟ کہا گیا : یہ ابو بکر ہے ۔ پس آنحضرت نے امر فرمایا کہ مجھے مسجد میں لے جاؤ کہ اسلام پر بہت بڑا فتنہ حادث ہوا ہے ۔ پھر آنحضرت علی ، عباس ، فضل اور ابن عباس کے سہارے باہر نکلے اور جب محراب تک پہنچے تو ابو بکر کو پیچھے دھکیل دیا اور خود بہ نفس نفیس امامت کی ۔

   اور اہلسنت کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ ابوبكر کی امامت خود حضرت رسول‏ صلى الله عليه و آله و سلم کے حکم پر تھی اور اس کی چند وجوہات ہیں :

   اوّلاً یہ کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ اس باب میں بلال تک جو امر پہنچا وہ

بالمشافہۃ حضرت رسالت ‏صلى الله عليه و آله و سلم سے نہیں تھا ۔ یعنی آپ کو یوں نہیں کہا گیا : «يا بلال قل لأبى بكر يصلّى بالناس» يا یہ کہا گیا ہو: « قل للناس يصلون خلف ابى بكر» بلكه یہاں امر بالواسطہ طور پر ہے ۔ کیونکہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت غیر تھی اور اہل و عیال ، چچا زاد اور اہل حرم آنحضرت کے ارد گرد جمع تھے لہذا بلال کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجرہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ پس جب بھی درمیان میں کوئی واسطہ ہو تو اس میں جھوٹ کا احتمال پایا جاتا ہے کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ درمیان میں موجود وہ واسطہ معصوم نہیں تھا ۔ پس جب بھی جھوٹ اور کذب کا احتمال ہو تو پھر اس امر میں کوئی حجت باقی نہیں رہتی کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اس نے زبان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات نہ سنی ہو بلکہ خود سے کہی ہو ۔ کیونکہ بعد میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گھر سے نکلنا ، ابو بکر کو امامت سے پیچھے دھکیلنا اور خود بہ نفس نفیس لوگوں کی امامت کرنا اس امر پر بخوبی دلالت کرتا ہے ۔

   ثانیاً : اگر ابوبكر کی امامت خود حضرت رسالت‏ مآب صلى الله عليه و آله و سلم کے حکم  پر تھی تو آنحضرت کا بیماری کی شدت کے باوجود گھر سے نکل کر ابو بكر کو مسجد کے محراب سے دور دھکیل کر خود بہ نفس نفيس نماز کی امامت کرنا آپ کے پہلے امر (ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینا) سے واضح طور پر منافات رکھتا ہے اور یہ چیز صاحب وحی کی شأن کے مطابق نہیں ہے ۔  اگر یہ بات مسلم بھی ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے حکم دیا تھا تو ہمارا یہ کہنا ہے کہ پھر  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود گھر سے باہر نکل کر ابو بکر کی تعیناتی کو باطل کر دیا ۔  پس اس صورت میں اس کی وہ امامت اور حکمرانی بھی باطل ہو گئی کہ جو اس امر پر قائم ہوئی تھی ۔ نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ابو بکر کو تقدم نماز کے بعد معزول کر دینے ( جیسا کہ تمہارا گمان ہے ) کا مقصد اس کے نقص اور عدم صلاحیت کو  ظاہر کرنا تھا کہ اس میں امت کی امامت و سربراہی کی لیاقت نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بات اشارہ کرتی ہے کہ اس میں نماز کی امامت کی صلاحیت نہیں تھی  اور جو رتبہ  کے لحاظ سے پست ہے کہ جس میں تمہارے ہاں فاسق کی امامت بھی جائز ہے ۔ پس جب اس میں اس امامت کی صلاحیت نہیں تھی تو پھر  اس میں امامت عامہ کی صلاحیت کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور وہ کس طرح تمام لوگوں کا امام اور رئیس ہو سکتا ہے ۔ یہ واقعہ ؛ سورۂ برائت (سورۂ توبہ) کے واقعہ سے بہت مشابہ ہے کہ جب اسے  سورۂ کے ساتھ حنین کی طرف بھیجا گیا لیکن پھر اسے معزول کر کے واپس بلا لیا گیا ۔  نیز اس کا  حنین سے فرار کرنا۔ اس سب واقعات سے تمام منصف مزاج انسانوں  پر آشکار ہو جاتا ہے کہ  یہ سب اس کے نقص کو بیان کرنے کے لئے تھا اور اس سے جمہور پر بھی یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس میں ان امور میں سے کسی امر کی بھی صلاحیت نہیں تھی ۔

   اور حیرت اس بات پر ہے کہ وہ ابو بکر کی امامت پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس حکم کے ذریعے استدلال کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے نماز پڑھانے کا حکم دیا کہ جس میں بعد میں اسے معزول کر دیا گیا ۔ اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس نے نماز مکمل نہیں کی تھی ۔ لیکن وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت پر اس امر سے استدلال نہیں کرتے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوۂ تبوک کے لئے گئے تھے تو آںحضرت نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اپنے دار ہجرے مدینہ میں رہنے اور پوری امت کی سربراہی کرنے کا حکم دیا ، جب کہ آپ بیمار بھی نہیں تھت اور صاحب اختیار تھے ۔ نیز آنحضرت نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو اپنی رحلت تک اس سے معزول بھی نہیں کیا ۔ پس یہ امر دیگر امور میں بھی امیر المؤمنین علی علیہ کی خلافت دلالت کرتا ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی فرق بھی نہیں ہے

   جب گفتگو کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ سيّد محسن مذكور نے دسترخوان سجا دیا اور بحث کس سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ سب لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہو گئے ۔ کھانا کھانے کے دورام میرے ذہن میں ایک بات آئی اور مجھ سے رہا نہ گیا ، میں نے فاضل ہروی سے بات کرنے کی اجازت مانگی اور اس اس مشہور حدیث «من مات ولم يعرف امام زمانه ‏مات ميتة جاهليّة» کے بارے میں پوچھا کہ اس حدیث کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ، کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟

   اس نے کہا : جی ہاں ! یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے ۔

   میں نے کہا : پس اب مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارا امام کون ہے ؟

   اس نے کہا : حدیث اپنے ظاہر میں محمول نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں امام سے مراد قرآن ہے اور اس کی تأویل یہ ہے کہ : «من مات و لم يعرف امام زمانه ‏الّذي هو القرآن مات جاهليّاً» ۔

   میں نے کہا : اس بناء پر اس سے لازم آتا ہے کہ لوگوں میں سے ہر ایک پر قرآن کی تعلیم واجب عینی ہے ، حالانکہ کوئی بھی اس قول کا قائل نہیں ہے ۔

   اس نے کہا : اس سے پورا قرآن مراد نہیں ہے بلکہ اس سے سورۂ فاتحہ اور سورہ مراد ہے کہ جس کی قرائت نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے اور اس بناء پر یہ بالاجماع واجب عینی ہے ۔

   میں نے کہا : اس حدیث میں حضرت رسالت مآب نے ‏صلى الله عليه و آله و سلم نے امام کو زمان کی طرف اضافہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ من مات ولم يعرف امام زمانه ۔

   امام کو اہل زمان سے تخصیص دینا ( جیسا کہ حدیث میں واقع ہوا ہے ) ؛ اہل زمان کی کسی امام سے تخصیص  کی دلیل ہے کہ جس کی معرفت ان  پر واجب ہے ۔ اور اگر اس بات کے قائل ہو جائیں کہ (روایت میں وارد ہونے والے) امام سے مراد سورۂ فاتحہ ہے تو پھر مذکورہ تخصیص کا کوئی فائدہ باقی نہیں ہے ۔ پس اگر تأویل حدیث کے مقتضاء کے مطابق نہ ہو تو یہ تأویل علیل ہو جائے گی ۔

اور پھر اس نے کہا کہ مذکورہ حدیث کی رو سے اس زمانے میں اس کے مقتضاء کے لحاظ سے میرا اور تمہارا حال یکساں ہے ۔

   میں نے کہا : خدا نہ کرے کہ میرا حال بھی ایسا ہو کہ جیسا تم سوچ رہے ہو ؛ بلکہ اس زمانے میں میرا ایک امام ہے کہ میں جن کی امامت کا معتقد ہوں اور دلیل کی رو سے میں نے ان کی معرفت حاصل کی ہے ۔ لیکن تمہارا حال ایسا نہیں ہے ، پس میں اور تم برابر نہیں ہیں ۔

   پھر اس نے کہا کہ تم جس امام کی امامت کے معتقد ہو ، اسے کبھی دیکھ نہیں سکتے ، اور اس کی رہائشگاہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، اور اپنے دین میں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ، اپنے دینی مسائل میں ان سے کوئی فتویٰ نہیں سن سکتے ۔ پس میں اور تم اس حکم میں برابر ہو سکتے ہیں ۔

   میں نے کہا : حاشا و كلاّ ؛ حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کہ امام کی رہائشگاہ کے بارے میں جاننا واجب ہے ، یا یہ کہ امام سے اپنے دینی مسئلہ کا فتویٰ سنا جائے بلکہ حدیث کا مضمون صرف یہ ہے کہ اس کی معرفت حاصل کی جائے اور اسے پہچانا جائے اور الحمد للَّه میں اپنے امام کو پہچانتا ہوں اور میرے پاس ان کے وجود ، ان کی امامت کے وجوب اور ان کی متابعت کے لازم ہونے پر دلائل موجود ہیں ۔ اور جب بھی ان کا ظہور ہو گا تو میری اور ساری امت کی ان سے ملاقات بھی ہو گی ۔

   مقتضائے حدیث کی رو سے مجھ پر صرف یہی واجب ہے کیونکہ حضرت رسالت مآب‏ صلى الله عليه و آله و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : من لم يأخذ عن امام زمانه ‏الفتاوى ، اور اسی طرح یہ بھی نہیں فرمایا کہ : من لم يعرف مكان امامه ، بلكه فرمایا ہے : «من مات ولم يعرف امام زمانه» ۔الحمد للَّه میں اپنے امام کو پہچانتا ہوں اور تمہرا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا کوئی امام نہیں ہے اور چونکہ تمہارا زمانہ امام سے خالی ہے ، پس میرا اور تمہارا حال یکساں نہیں ہو سکتا ۔

   جب بات اس مقام پر پہنچی تو فاضل ہروى عاجز ہو گیا اور نے کہا : میں بھی امام کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہوں اور میں نے سنا ہے کہ حکومت يمن میں کوئی شخص امامت کا دعویٰ کر رہا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس تک پہنچ جاؤں تا کہ اس کے دعویٰ امامت کو جان جان سکوں اور پھر اس کے تابع ہو جاؤں ۔

   میں نے کہا : فی الحال تمہارا کوئی امام نہیں ہے ، پس اس وقت تمام اہل جاہلیت میں سے ہو اور اگر تم اس حال میں مر جاؤ تو تم جاہلیت کی موت مرو گے ۔ حالانکہ اس زمانے میں تم جو امام سے ملاقات کے خواہاں ہو ، یہ تمہارے مذہب اور اہلسنت میں سے تمہارے اصحاب کے عقیدے کے برخلاف ہے کیونکہ وہ ہر زمانے میں امام کے وجود کے قائل ہی نہیں ہیں ۔ اور وہ ہر زمانے میں امام کے جود کے واجب ہونے کا حکم نہیں کرتے ۔

   پس وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے ۔ ھاضرین مجلس بھی کھانا کھا چکے تھے لہذا دسترخوان سمیٹ لیا گیا اور پھر ہر کوئی اپنے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور ان کے ساتھ فاضل ہروی بھی گھر سے باہر چلے گئے ۔ (248)


248) كشكول امامت: 88/3.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات : ص 886

 

ملاحظہ کریں : 2024
آج کے وزٹر : 30316
کل کے وزٹر : 72293
تمام وزٹر کی تعداد : 129532283
تمام وزٹر کی تعداد : 89945913