حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(5) لوگوں کے اصرار پر امير المؤمنين ‏علی عليه السلام کی بیعت کا انجام پانا ؛ نہ کہ آنحضرت کی رغبت اور دلچسپی پر

(5)

لوگوں کے اصرار پر امير المؤمنين ‏علی عليه السلام کی بیعت کا انجام پانا ؛ نہ کہ آنحضرت کی رغبت اور دلچسپی پر

   متواتر روایات اور آشکار احادیث سے یہ موضوع ثابت شدہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام قتل عثمان پر اختتام پذیر ہونے والے فتنہ میں گوشہ نشین ہی رہے ، حتی آپ مدینہ میں اپنے گھر سے ہی باہر چلے گئے تھے (2307) تا کہ ان کے بارے میں یہ گمان نہ کیا جائے کہ وہ اس بات کی طرف رغبت رکھتے تھے کہ لوگ ان کی بیعت کریں ۔ لیکن قتلِ عثمان کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے آپ کے بارے میں جستجو کرنا شروع کی ، آپ کی رہائش گاہ کے بارے میں پوچھا اور آخر کار آپ کو تلاش کر لیا۔ وہ سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ لوگوں کی امامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں ، اور انہوں نے شکایت کی کہ اگر آپ یہ منصب نہیں سنبھالیں گے تو لوگوں کے امور تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔ لیکن امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے فوری طور پر خلافت کا منصب قبول کرنے سے گریز کیا ۔ کیونکہ آپ اس کام کا انجام جانتے تھے اور آپ اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ یہ قوم آنحضرت کی مخالفت کرے گی اور ان کی دشمنی میں ایک دوسرے کی مدد کرے گی ۔ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے خلافت کو قبول کرنے سے گریز کیا اور آپ نے ان کے تقاضے کو ردّ کر دیا لیکن انہوں نے بہت اصرار کیا اور امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کو خدا کی قسم دی اور کہا : آپ کے علاوہ کوئی بھی مسلمانوں کی امامت و رہبری کے لائق نہیں ہے اور ہمیں آپ کے علاوہ کوئی نہیں ملا کہ جو یہ کام انجام دے سکتا ہو ۔ آپ کو دین اور مسلمانوں کے امور کے بارے میں خدا سے ڈرنا چاہئے اور یہ منصب قبول کرنا چاہئے ۔

   اس موقع پر امير المؤمنين على‏ عليه السلام نے بیان فرمایا کہ مسلمان ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیں کہ جنہوں نے بعد میں بیعت شکنی کی یعنی طلحہ و زبیر ، اور آپ نے اس بارے میں ایثار کیا اور آپ نے یہ عہد کیا کہ جب تک وہ دونوں دین کی صلاح اور اسلام کی حفاظت کے لئے عمل کریں کہ میں ان کی مدد کروں گا ۔ لیکن مسلمان امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کے علاوہ کسی اور کی بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور انہوں نے آپ  کے علاوہ کسی اور کی امامت کو قبول نہ کیا ۔

   جب طلحه و زبير کی اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کرنے میں رغبت کا اظہار کیا ۔ وہ دونوں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مکمل رضائیت سے آنحضرت کو امامت کے لئے خود پر مقدم کیا لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے قبول نہ کیا ، ان دونوں نے بہت اصرار کیا کہ آنحضرت ہی منصب خلافت قبول کریں اور سب لوگ مکمل رضائیت سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت پر متفق تھے اور انہوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی علاوہ کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔ انہوں نے امير المؤمنين‏ حضرت امام علی عليه السلام سے کہا : اگر آپ نے امامت کو قبول کرنے اور اپنی بیعت کے تقاضے کو قبول نہ کیا تو اسلام اور دین میں ایک ایسا رخنہ پڑے گا کہ جس کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔

   امير المؤمنين على‏ عليه السلام اتمام حجت کی وجہ سے خلافت قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے ۔ لیکن اس بات کو سننے کے بعد آپ نے بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور لوگ آپ کی بیعت کرنے کے لئے اس طرح سے دوڑے کہ جیسے اونٹ پانی پینے کے لئے بھاگتے ہیں ۔ اور لوگوں کے ہجوم کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ آنحضرت کی رداء  پارہ پارہ ہو گئی اور (نزدیک تھا کہ) لوگوں کہ ہجوم کی وجہ سے حسن و حسین علیہما السلام پاؤں تلے روندے جاتے ۔

   بیعت کرنے کی یہ کیفیت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت کے بارے میں لوگوں کے اشتیاق اور رغبت کی عکاسی کرتی ہے اور وہ آنحضرت کو بقیہ تمام افراد پر مقدم سمجھتے تھے اور آپ کے علاوہ کسی کو نہیں چاہتے تھے ۔ جب کہ انہیں اس کام کے علاوہ کوئی اور چارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا اس بناء پر بیعت عقبہ اور جنگ بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار ، دین کی راہ میں جنگ کرنے والے تمام مؤمنین ، اسلام قبول کرنے میں سبقت لینے والوں اور ہمیشہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ مشکلات اور سختیوں کو برداشت کرنے والوں ، نیک ، متقی ، صالح ، پرہیزگار اور دوسرے تمام افراد نے بھی آپ کی بیعت کی ۔

   امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کی بیعت کوئی ایسی بیعت نہیں تھی کہ جس میں ایک ، دو یا تین افراد نے بیعت کی ہو ، جیسا کہ ابو بکر کی بیعت میں یہ دیکھا گیا کہ صرف اس کے چند دوستوں نے ہی اس کی بیعت کی اور سب سے پہلے بشیر بن سعد نے اس کی بیعت کی اور اس کے بعد لوگوں کے ایک دوسرے گروہ نے یہ کام انجام دیا ۔ (2308)

   بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ : ابو بكر کی بیعت بشير بن سعد ، عمر بن خطاب ، ابوعبيدة بن‏ جراح اور سالم (ابو حذيفه سے وابستہ ) پر ہی تمام ہو گئی ( یعنی انہیں افراد نے ابو بکر کی بیعت کی ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چار سے کم افراد کسی کی بیعت کریں تو مسلمانوں میں یہ بیعت شمار نہیں ہو گی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ : پانچ افراد کے بیعت کرنے سے بیعت انجام پاتی ہے ۔ سب سے پہلے جن پانچ افراد نے ابو بکر کی بیعت کی وہ یہ تھے : قيس بن سعد؟! (2309)، اسيد بن حضير – کہ ان دونوں کا تعلق انصار سے ہے – عمر، ابو عبيده اور سالم کا تعلق مہاجرین سے ہے ۔ پھر دوسرے افراد نے بھی ان پانچ افراد کو دیکھ کر ابو بکر کی بیعت کی ۔

   ہمارے زمانے میں جبايى (2310) ان کے والد اور ان کے اصحاب میں سے ایک گروہ کا یہی عقیدہ ہے ۔

   عمر بن خطاب کی بیعت میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا  ۔ بعض کا یہ خیال تھا کہ کسی ایک فرد کے بیعت کرنے سے بھی کسی شخص کی بیعت انجام پا سکتی ہے ۔ متکلمین میں سے جن کا یہ عقیدہ ہے ان میں خياط (2311)، بلخى ، ابن مجالد اور کچھ دوسرے اصحاب اختیار شامل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ : عمر بن خطاب کی امامت اور بیعت کچھ اس طرح سے انجام پائی کہ صرف ابو بکر نے ہی عمر کے لئے امامت کو قرار دیا اور اس کی بیعت کی ۔

   عثمان کے بارے میں بھی ان کا یہی عقیدہ ہے اور وہ کہتے ہیں : عبد الرحمن بن عوف کے بیعت کرنے سے ہی عثمان کی بیعت انجام پائی ۔ لیکن جو لوگ اس موضوع پر اس گروہ کے مخالف ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : عمر بن خطاب کی بیعت کچھ اس طرح سے انجام پائی کہ ابو بکر نے اپنے منصب خلافت سے اپنے بعد خلافت کے لئے عمر بن خطاب کو معین کیا ۔ اور عثمان کے بارے ممیں ان کا یہ کہنا ہے کہ : عبد الرحمن بن عوف کے علاوہ شوریٰ میں شامل دوسرے چار افراد نے بھی عثمان کی بیعت کی اور مجموعی طور پر پانچ افراد نے عثمان کی بیعت کی کہ جن میں سے ایک عبد الرحمن بن عوف تھا ۔

   اس بناء پر ہمارے مخالفین بھی معترف ہیں کہ ان کے ائمہ (ابوبكر،عمر اور عثمان) کی بیعت کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی کہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا اور یہ خود ایسے براہین ہیں کہ جو ان خلاف ہیں ۔

   حالانکہ تمام مہاجرین و انصار اور بیعت رضوان میں شریک تمام افراد نے امير المؤمنين على ‏عليه السلام کی بیعت کی کہ جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے ۔ ان کے علاوہ مصر اور عراق کے لوگوں کے ایک گروہ اور صحابہ و تابعین نے بھی آںحضرت کی بیعت کی کہ جو اس وقت مدینہ میں تھے ۔ کسی شخص نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعے کسی ایک شخص یا کسی ایک معروف شخصیت کے ذریعہ انجام پائی ہے ۔ آپ کی بیعت کرنے والوں کا کوئی شمار نہیں ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف چند افراد کی موجودگی میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی گئی حالانکہ ابو بكر ، عمر اور عثمان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے ۔

    جب سب لوگوں نے متفقہ طور امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کی بیعت کی اور تمام مسلمانوں اور مؤمنوں نے بالاجماع بیعت کی کہ جن میں مہاجرین و انصار سب شامل تھے ، اور امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی حکومت گذشتہ تین افراد کی حکومت سے بہت بہتر تھی کیونکہ آںحضرت کی حکومت تمام بزرگ مہاجرین و انصار اور تابعین کے اجماع سے تشکیل پائی تھی ، لہذا سب پر آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم اور واجب تھی ۔ اور اسی طرح آپ کی مخالفت کرنا اور آپ کے حکم کے سامنے چون و چرا کرنا اور حکم عدولی کرنا حرام تھا ۔ لہذا اس بناء پر آپ سے جنگ کرنے والوں اور آپ کے تمام مخالفین کے بارے میں حکم کرنا واضح (اور آسان) ہو جاتا ہے کہ وہ (یعنی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مخالفت کرنے والے اور آپ سے جنگ کرنے والے) سب کے سب گمراہ ہیں اور ان کی مخالفت باطل تھی اور آنحضرت کے حکم کے سامنے چون و چرا کرنے والے اور حکم عدولی کرنے والے سب فاسق و فاجر ہیں ؛ کیونکہ خداوند متعال نے اپنی محکم کتاب میں اولی الأمر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور ائمہ کی فرمانبرداری کو اپنی فرمانبرداری قرار دیا ہے اور خدا نے فرمایا ہے : «اے ایمان لانے والو ! خدا کی اطاعت کرو اور پیغمبر اور صاحبان امر کی اطاعت کرو» (2312)۔

   یہ آيت دلالت کرتی ہے کہ ان کے ان کے فرمان کے سامنے سرکشی کرنا ، خدا کے حکم کے سامنے سرکشی کرنا ہے اور دونوں کا حکم یکساں ہے ۔

   عادل امام سے جنگ کرنے والوں کے فاسق و فاجر ہونے پر بھی اہل قبلہ کا اجماع ہے اور یہ عقل و نقل سے ثابت ہے ۔ کیونکہ جب سب لوگوں نے امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کی کی تو اس کے بعد آنحضرت نے کوئی ایسا عمل انجام نہیں دیا کہ جس کی وجہ سے آنحضرت کی عدالت زائل ہو جائے اور اس سے پہلے بھی امیر المؤمین علی علیہ السلام کو کبھی بھی دین سے خیانت کا متہم قرار دنہیں گیا ، نیز آپ نے اہنی امامت سے بھی کنارہ کشی اختیار نہیں کی ۔ پس جو شخص بھی امیر المؤمنین امام علی علیہ کی اطاعت سے شرکشی کرے وہ گمراہ ہے ، تا چہ رسد کہ کوئی آنحضرت سے جنگ کرے ، آپ اور آپ کے ساتھیوں کا خون بہانا جائز سمجھے ، اس عمل سے وہ زمین پر فساد اور تباہی پھیلانے والوں میں شمار ہو گا اور اس صورت میں قرآن کے واضح اور صریح حکم کی بناء پر مختلف انواع کے عذاب سے اس کی سرکوبی کرنی چاہئے ؛ کیونکہ خداوند کریم نے فرمایا ہے : «پس خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین پر فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں ان کے وطن اور سرزمین سے نکال دیا جائے» (2313)۔

   اگر اس موضوع کو ہوا و ہوس کے پردوں سے ڈھانپ نہ دیا جائے اور عقل اسے درک کرنے سے اندھی نہ ہو تو یہ موضوع واضح و روشن ہے اور ہم خداوند کریم سے مزید توفیق کی دعا کرتے ہیں ۔ (2314)


2307) تاريخ طبرى 154/5 میں اور تاريخ طبرى ترجمه ابو القاسم پائنده ص 2331 میں ذکر ہوا ہے کہ جب عثمان کا محاصره کیا گیا تو اس وقت امير المؤمنين على‏ عليه السلام خيبر میں تھے اور «عقد الفريد» ابن عبد ربّه چاپ مصر 1967 ء ج 4 ص 310 میں وارد ہوا ہے کہ قتل عثمان کے فتنہ میں ‏امير المؤمنين على ‏عليه السلام ينبع (دريائے سرخ کا ایک ساحلی شہر) کے مقام پر تھے اور جب اس (عثمان) پر زندگی تنگ ہو گئی تو اس نے آنحضرت کو خط لکھا کہ آپ مدینہ واپس آ جائیں ۔ کتاب «الإمامة والسياسة» ابن قتيبه چاپ طه محمّة الزينى ، مصر ، (تاريخ کے بغیر) ص 37 میں بھی اسی طرح ذکر کیا گیا ہے ۔

2308) اس بارے میں مزید معلومات کے لئے تاريخ طبرى ، ترجمه ابو القاسم پاينده ص 1347 اور ابو بكر جوہرى (متوفی 223 ہجری) ، السقيفة و فدك، چاپ ڈاکٹر محمّد ہادى امينى ص 49 اور شرح نہج البلاغه ابن ابى الحديد : 39/2 کی طرف رجوع کریں ۔

2309) قوی احتمال ہے کہ یہ درست نہیں ہے اور بشير بن سعد ہی صحيح ہے ۔

2310) عبد السلام بن محمّد جبائى (متوفی سنہ 321 ہجری) کا شمار معتزله کے بزرگوں میں ہوتا ہے ۔

2311) عبد الرحيم معتزلى المعروف به خيّاط اور ابن الخيّاط (متوفی تقریباً 300 ہجری) ۔ مزید معلومات کے لئے عمر رضا كحاله ، معجم المؤلّفين کی طرف رجوع کریں ۔

2312) سورهٔ نساء ، آیت ۵۹ ۔ مفسرین کے اقوال کے بارے میں مزید معلومات کے لئے تفسير مجمع البيان : ج 3 اور 4 ص 64 کی طرف رجوع کریں ۔

2313) سورۂ مائدہ کی آيت 33 کا ایک حصہ ۔ اس بارے میں تفاسير کی طرف رجوع کریں منجملہ محمّد بن عبد اللَّه كه زیادہ تر ابن‏ عربى معافرى اندلسى کے نام سے مشہور ہیں ، متوفی سنہ 542 ہجری ۔ اور احكام القرآن : 224/2 میں کہتے ہیں :

   اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ امير المؤمنين على ‏عليه السلام لوگوں کے امام اور حاكم تھے کیونکہ لوگوں کا ان پر اجماع تھا اور ان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور بیعت کے لئے سب سے شائستہ انتخاب تھے ۔ انہوں نے لوگوں کی حفاظت ، کونریزی اور ہرج و مرج کی روک تھام اور اسلام کو شکست سے بچانے کے لئے لوگوں کی بیعت کو قبول کیا ۔ اور جب شام کے لوگوں نے ان سے یہ تقاضا کیا کہ وہ عثمان کے قاتلوں کو ان کے حوالے کریں تو آپ نے فرمایا : پہلے میری بیعت میں آؤ اور پھر حق طلب کرو تا کہ تمہیں حق مل سکے ۔ اس بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام سب سے بہتر فکر و تدبیر کے حامل تھے کیونکہ اگر جلد بازی میں قصاص کرتے تو قاتلوں کے قبائل ان کی طرفداری میں قیام کرتے اور ایک تیسری جنگ شروع ہو جاتی ۔

   اس لئے آپ نے انہیں مہلت دی تا کہ حکومت و بیعت کا مسئلہ استوار ہو جائے اور پھر عدلیہ اور قضاوت کے ذریعہ اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے ۔ اور امت میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام کے لئے یہ جائز ہے کہ فتنہ و فساد اور اختلافات کو روکنے کے لئے قصاص میں تأخیر کرے ۔

   اس بناء پر جس کسی نے بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خلاف خروج کیا ؛ وہ ظالم و ستمگر ہے ۔ جب کہ ظالم و ستمگر اور باگی کے خلاف جنگ واجب ہے کہ جب تک وہ صلح نہ کر لے اور حق کے سامنے تسلیم نہ ہو جائے ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شام کے لوگوں سے جنگ (کہ جنہوں نے آںحضرت کی بیعت کرنے سے گریز کیا) اور آپ کی اصحاب جمل اور خوارج (کہ جنہوں نے آپ کی بیعت شکنی کی) سے جنھ واجب اور برحق تھی ۔ ان لوگوں پر واجب تھا کہ وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں جاتے اور آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنی آراء بیان کرتے اور اگر وہ صحیح ہوتے تو آنحضرت انہیں قبول کرتے لیں کسی نے بھی ایسا نہیں کیا ، لہذا وہ سب کے سب باغی اور سرکش تھے اور وہ سب خدا کے اس قول کے مصداق ہیں کہ جس میں خدا نے فرمایا ہے «حق سے سرکشی کرنے والے گروہ سے جنگ کرو تا کہ وہ حکم خدا کے سامنے تسلیم ہو جائے» ۔

  اور معاويه نے سعد بن ابى وقّاص کی سرزنش کی کہ تم نے على (عليه السلام) سے جنگ میں اس کا ساتھ کیوں نہیں دیا ؟ سعد نے جواب دیا : میں نے سرکش اور ظالم گروہ کے ہمراہ جنگ کرنے سے گریز کیا جس کے لئے میں پشیمان ہوں ۔ ظالم و سرکش گروہ سے اس کی مراد معاویہ اور اس کے پیروکار تھے ۔

   جصاص (متوفی سنہ 370 ہجری) نے احكام القرآن : 492/3 میں ذکر کیا ہے کہ امير المؤمنين على ‏عليه السلام ‏سركش گروہوں کے خلاف جنگ کرنے میں حق پر تھے اور اس بارے میں کسی نے مخالفت نہیں کی ہے ۔

   اور آلوسى نے تفسير روح المعانى : 151/26 میں حاكم نيشاپورى اور بيہقى نے عبد اللَّه بن عمر سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے کہ : میں کسی بھی مورد میں اتنا پشیمان اور غمگین نہیں ہوں کہ جتنا میں سرکش گروہ کے خلاف جنگ نہ کرنے پر پشیمان ہوں ۔ سرکش گروہ سے اس کی مراد معاویہ اور اس کے ساتھی تھے کہ جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خلاف خروج کیا ۔

   آلوسى نے اس بارے میں اپنا ایک دوسرا قول بیان کیا ہے لیکن وہ بعض حنبلی علماء سے نقل کرتے ہیں کہ سرکشوں کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے اور امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے اپنے مدت خلافت میں ان سے جنگ کی ہے ، جب کہ کافروں سے جہاد نہیں کیا بلکہ آپ نے اس عمل سے ہی بہترین جہاد کیا ہے  اور آپ کا یہ عمل جہاد سے بھی برتر ہے ۔

2314) نبرد جمل (شيخ مفيد رحمه الله): 45.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 2055
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 52828
تمام وزٹر کی تعداد : 129577300
تمام وزٹر کی تعداد : 89968425