حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(4) اميرالمؤمنين حضرت علی‏عليه السلام کی بیعت کابیان

(4)

اميرالمؤمنين حضرت علی‏ عليه السلام کی بیعت کابیان

   اسی طرح امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی بیعت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ : عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد پانچ دن تک مدینہ کا کوئی حاکم و امیر نہیں تھا ۔ شورش کرنے والوں کا سربراہ غافقى بن حرب مدینہ کے امور چلا رہا تھا اور وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے کہ جو خلافت کی ذمہ داریاں قبول کرے لیکن انہیں ایسا  کوئی شخص نہیں ملا اور کوئی شخص بھی خلافت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ اہل مصر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے پاس آئے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا ، کوفہ کے لوگ زبير کے پاس آئے لیکن اس نے بھی انہیں واپس بھیج دیا ، بصرہ کے لوگ طلحہ کے پاس آئے تو اس نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ۔

 عثمان کو قتل کرنے کے سلسلہ میں شورش کرنے والوں کے درمیان باہمی ہماہنگی اور اتفاق تھا لیکن ان کے درمیان اس بارے میں اختلاف نظر تھا کہ آخر خلافت کا منصب کون سنبھالے گا ۔ کسی کو سعد بن ابى وقّاص کے پاس بھیجا اور اس سے تقاضا کیا کہ وہ خلافت کی ذمہ داری قبول کرے ۔ اس نے کہا : مجھے اور عبد اللَّه بن عمر کو خلافت کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ لوگ عبد اللَّه بن عمر کے پاس آئے لیکن اس نے بھی کوئی جواب نہ دیا ۔ یوں وہ سب سرگراں تھے ، ان میں بعض نے دوسروں سے کہا : اگر لوگ خلیفہ معین کئے بغیر ہی اپنے اپنے شہروں کی طرف واپس چلے گئے تو امت میں اختلافات پیدا ہوں گے اور امت تباہی و بربادی سے محفوظ نہیں رہ سکے گی ۔ اس لئے انہوں نے مدینہ کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا : تم سب لوگ اہل شوری ہو اور تم لوگ ہی کسی کی امامت و رہبری کے لئے منتخب کرو ۔ سب لوگ متفقہ طور پر تمہارے فرمان اور انتخاب کو قبول کریں گے ۔ تم لوگ کسی کو دیکھو اور اسے منصب خلافت کے لئے نامزد کرو ، ہم تمہاری پیروی کریں گے ۔ ہم تمہیں آج کی مہلت دیتے ہیں اور خدا کی قسم ! اگر آج ہی یہ کام نہ کیا تو ہم علی علیہ السلام ، طلحہ ، زبیر اور بہت سے دوسرے افراد کو قتل کر دیں گے ۔

   مدینہ کے لوگ امير المؤمنين على‏ عليه السلام کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : ہم آُ کی بیعت کریں گے ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیسے حالات آ گئے ہیں اور ہم کس طرح سے گرفتار ہو کر رہ گئے ہیں ۔

   حضرت على ‏عليه السلام نے فرمایا:

مجھے چھوڑ دو اور کسی دوسرے کو تلاش کرو کہ یہ کام بہت دشوار ہے ۔ دلوں کو اس سے قرار نہیں ملتا اور عقل اس پر استوار نہیں ہے ۔

   انہوں نے کہا : ہم آپ کو خدا کی قسم دیتے ہیں ، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمیں کیسے حالات کا سامنا ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ اسلام فتنہ میں گرفتار ہو چکا ہے ؟ کیا اس بارے میں آپ خدا سے نہیں ڈرتے ؟

   امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا :

میں تم لوگوں کے تقاضے کو قبول کر لوں تو جان لو کہ اگر میں نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو میں اسی پر عمل کروں گا جو میں جانتا ہوں ۔ لیکن اگر تم لوگ مجھے چھوڑ دو (یعنی اس کام سے معاف رکھو) تو یہ بہتر ہے ۔ اس صورت میں ؛ میں بھی تمہاری طرح ایک فرد ہوں گا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ تم لوگ جسے بھی خلیفہ مقرر کرو گے میں اس کے موافق اور اس کا مطیع ہوں گا ۔

   لوگ وہاں سے چلے گئے اور ان میں یہ طے پایا کہ وہ کل بیعت کریں گے ۔ (2176)


2176) نهاية الأرب: 5/ 106.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 2070
آج کے وزٹر : 34811
کل کے وزٹر : 72293
تمام وزٹر کی تعداد : 129541271
تمام وزٹر کی تعداد : 89950408