حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۱) واليانِ عثمان کی لوگوں سے بدسلوکی

(۱)

واليانِ عثمان کی لوگوں سے بدسلوکی

لوگوں کے ساتھ عثمان کی جانب سے منصوب حاکموں کی بدسلوکی بہت بڑھ گئی ، اور بالخصوص وليد بن عقبه (ماں کی طرف سے عثمان کا سوتیلا بھائی) اور عبداللَّه بن ابى سرح (عثمان کا رضائی بھائی) کی بدسلوکی نے عراق اور مصر کے لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکا دیا تھا ۔ مدینہ کے لوگوں کی ناراضگی میں سب سے زیادہ مروان بن حكم کا ہاتھ تھا ۔ اس وجہ سے عثمان کی زندگی کے آخری ایّام میں مختلف صوبوں سے لوگ شکایت لے کر مدینہ میں ان کے پاس اتے تھے ۔ مصر کے لوگ عبد اللَّه بن ابى سرح کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے تھے لہذا وہ لوگ مدینہ آئے اور انہوں نے عثمان سے اسے معزول کرنے کا تقاضا کیا ۔

عثمان اپنے رضائی بھائی کو معزول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن آخر کا علی علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے بعد وہ اسے معزول کرنے پر راضی ہو گیا اور اس نے محمد بن ابی بکر کو مصر کے حاکم کے عنوان سے منتخب کیا ۔

جب محمد بن ابی بکر مصر کی طرف جا رہے تھے تو وہ متوجہ ہوئے کہ عثمان نے اپنے غلام کو اپنے دستخط شدہ خط کے ساتھ مصر کی جانب بھیجا ہے اور اس خط (جس کا مخاطب عبد اللَّه ابى سرح) میں لکھا تھا کہ جب بھی یہ سب مصر پہنچیں تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دو !

اہل مصر راستے سے ہی واپس مدینہ آ گئے اور اس موضوع کے بارے میں عثمان سے بات کی لیکن عثمان نے کہا کہ مجھے اس خط کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے ۔ لوگوں نے کہا : اب دو باتوں میں سے ایک بات ہو سکتی ہے : یا وہ خط تم نے خود لکھا ہے ؛ تو اس صورت میں تم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خلافت کے لئے لازم عدالت کے حامل نہیں ہو ! یا یہ خط مروان نے تمہارے نام سے لکھا ہے اور تمہاری مخصوص مہر استعمال کی ہے اور اس صورت میں بھی یہ اس کے یہ معنی ہیں کہ تم میں خلافت کے امور چلانے کی صلاحیت اور توانائی نہیں ہے ۔ اس بناء پر انہوں نے مروان کو سزا دینے کا تقاضا کیا ۔ عثمان نے اہل مصر کی اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اہل مصر نے بغاوت اور شورش کر دی اور عثمان کے گھر کا محاصره كر لیا ۔ عراق اور مدینہ کے لوگوں نے بھی ان کے ساتھ اس کام میں تعاون کیا ۔ رسول خدا صلی اللہ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب میں مستقیم یا غیر مستقیم طور پر ان کے ہمراہ تھے ۔

يعقوبى لکھتے ہیں کہ : عثمان اور عائشه کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہو چکی تھی کیونکہ عمر کے زمانے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دیگر ازواج کی بنسبت عائشہ کو زیادہ حقوق حاصل تھے ، لیکن عثمان نے اپنی خلافت کے زمانے میں عائشہ کے حقوق بھی ان کے برابر قرار دیئے ۔ ایک دن عثمان خطبہ دے رہا تھا کہ عائشہ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کا پیراہن لے کر آئی اور فریاد کرنے لگی : اے مسلمانوں کے گروہ ! یہ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کا پیراہن ہے کہ جو ابھی تک کہنہ (پرانا) نہیں ہوا لیکن عثمان نے ان کے سنت کو کہنہ کر دیا ہے ! عثمان نے عائشہ کے جواب میں کہا : أللّهمّ اصرف عنّي ‏كيدهنّ، إنّ كيدهنّ عظيم ۔ (528)

آخرکار لوگوں نے عثمان کے گھر میں ہی اس کا محاصرہ کر لیا ، جب کہ طلحه ، زبير  اور عائشه لوگوں کو سب سے زیادہ عثمان کے خلاف بھرکا رہے تھے ۔ عثمان نے معاویہ کو خط لکھا اور اس سے تقاضا کیا کہ جلد از جلد مدینہ آئے ۔ وہ بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا لیکن اس نے اپنے سپاہیوں کو شام کی سرحد پر روک دیا اور ان سے کہا : تم لوگ شام کی سرحد پر ہی رہو تا کہ میں امیر المؤمنین ! کے پاس جا کر ان کے حالات سے آگاہی حاصل کروں ۔ پھر وہ عثمان کے پاس گیا ۔ عثمان نے کہا : خدا کی قسم ! تم نے یہ چاہا کہ میں قتل ہو جاؤ تا کہ تم لوگوں سے یہ کہہ سکو کہ تم صاحب خون ہو ! واپس لوٹ جاؤ اور لوگوں کو میری مدد کے لئے بھیجو ۔ پس معاویہ واپس لوٹ گیا اور پھر اس کی طرف نہ آیا ، یہاں تک کہ وہ قتل ہو گیا ۔ (529)

مروان بھی عائشه کے پاس گیا اور اس سے کہا : اے ام المؤمنین ! کاش آپ  نے ان لوگوں اور اس شخص (عثمان) کے درمیان صلح کرو دیتی ۔ عائشہ نے کہا : میں نے حج کے اسباب فراہم کئے ہوئے ہیں ۔ مروان نے کہا ۔ آج نے جس قدر بھی خرچ کیا ہے ، میں ہر درہم کے بدلے دو درہم دوں گا ۔ عائشہ نے کہا : شاید تم یہ سوچ رہے ہو کہ میں عثمان کو نہیں جانتی ! خدا کی قسم! میں یہ پسند کرتی ہوں کہ اس کے ٹکڑے تکڑے کر دیئے جاتے اور میں انہیں اٹھا کر دریا میں بہا سکتی ۔ (530)


528) تاريخ يعقوبى: 175/2.

529) حضرت على ‏عليه السلام نے معاویہ کے خط کے جواب میں فرمایا : جہاں تمہارا نفع اور فائدہ تھا ، وہاں تن نے عثمان کی مدد کی اور جہاں عثمان کا نفع تھا ل وہاں اس کی مدد نہیں کی ۔ (نہج البلاغه، ترجمه سيّد جعفر شهيدى ، مکتوب : 37).

530) تاريخ اسلام از بعثت نبوى تا حكومت علوى : 314 ۔

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 909
آج کے وزٹر : 29920
کل کے وزٹر : 72005
تمام وزٹر کی تعداد : 129208261
تمام وزٹر کی تعداد : 89724423