حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۳) عرفہ کے دن حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی جانب عجیب توجہ

(۳)

عرفہ کے دن حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی

  امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی جانب عجیب توجہ

اس باب میں جناب ديانت مآب صاحب تقوا استاد جعفر نعل بند اصفہانى کا بیان ہے کہ جو زمانۂ غیبت کبری میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے دیدار سے مشرف ہوتے ہیں اور اس شرفیابی کے وقت آنحضرت کو پہچانتے ہیں ۔

اسی طرح گذشتہ واقعہ میں آپ جناب کے خط میں دیکھا اور اس حقیر کے لئے نقل فرمایا : خراسان کی مقدس سرزمین پر سات شعبان المعظم سنہ ۱۳۶۰ ہجری میں اتوار کے دن  مولاى معظّم مسدّد ، سيّد اجلّ سند، سيّد العلما الأعلام سليل ‏السادات الفخام العظام، التقى الزكى النقى، آقاى حاج ميرزا محمد على گلستانه ‏کہ جو وطن کے لحاظ سے اصفہانی تھے اور رہائش کے لحاظ سے خراسانى تھے - دامت بركاته العاليه – نے فرمایا : میرے چچا - فردوس و ساده - سيّد سند صالح جناب سيّد محمّد على - طاب ثراه – نے میرے لئے نقل فرمایا ہے : ہمارے زمانے میں اصفہان میں جعفر نامی ایک نعل بند تھا اور وہ کچھ ایسی باتیں کرتا کہ جس کی وجہ سے لوگ اسے ردّ کرتے تھے اور اسے طعنہ دیتے تھے ، مثلاً یہ کہ وہ طىّ الأرض‏ کے ذریعہ كربلا پہنچ گیا یا اس نے لوگوں کو مختلف صورت میں دیکھا یا یہ کہ وہ‏ حضرت صاحب الامر - صلوات اللَّه عليه – کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور لوگوں کی بری زبان کی وجہ سے انہوں نے بھی ان باتوں کو ترک نہ کیا ، یہاں تک کہ ایک دن میں تخت فولاد میں متتبرک مقبرہ کی زیارت کے لئے گیا اور میں نے راستہ میں جعفر نعل‏بند بھی جا رہا ہے ۔

میں ان کے نزدیک گیا اور ان سے کہا : کیا آپ پسند کریں گے کہ ہم راستے میں ایک ساتھ رہیں ۔

انہوں نے کہا : اس میں کیا بات ہے ، ایک ساتھ باتیں کرتے ہوئے جائیں گے تو راستے کی سختی اور تھکاوٹ کا بھی احساس نہیں ہو گا ۔

ہم نے کچھ دیر ایک دوسرے سے بات چیت کی اور پھر میں نے ان سے پوچھا : آپ کے بارے میں جو باتیں نقل کی جاتیں ہیں ، وہ سب کیا ہیں ؟ کیا وہ باتیں صحیح ہیں یا نہیں ؟

انہوں نے کہا : جناب ان باتوں کو چھوڑیں ۔

میں نے بہت اصرار کیا اور کہا : مجھے تو ان سے کوئی سرو کار نہیں ہے لہذا اگر آپ بتائیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا : جناب میری زندگی کا حال کچھ ایسا ہے کہ میں نعل بندی کی کمائی سے ہی پچیس مرتبہ کربلا کے سفر سے مشرف ہو چکا ہوں اور میں ہمیشہ عرفه کے دن کے لئے کربلا جاتا ۔ پچیسویں سفر کے دوران راستے میں ایک یزدی شخص میرا دوست بن گیا ۔

کچھ منزال طے کرنے کے بعد وہ بیمار ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس کی بیماری میں شدّت آتی گئی ، اور پھر ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ جو کافی خوفناک اور خطرناک تھا کہ جس کی وجہ سے دو دن تک قافلہ كاروانسرا میں ہی قیام پذیر رہا تا کہ دوسرے قافلہ بھی پہنچ جائیں اور لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائے ، لیکن اس دوران میرے اس دوست کی بیماری میں مزید شدت اختیار کر گئی اور وہ اس سفر میں موت سے مشرف ہو گئے ۔ اور اسی سفر میں وہ موت سے مشرف ہوئے ۔

تیسرے دن وہاں سے قافلہ روانہ ہونا چاہتا تھا لیکن میرے اپنے دوست کی بیماری کو لے کر کافی فکر مند تھا کہ میں کس طرح اسے اس حال میں تنہا چھوڑ کر چلا جاؤ اور خدا  کی بارگاہ میں جوابدہ قرار پاؤں اور اگر یہاں رک جاؤں تو میری عرفه کی زیارت رہ جائے کہ جو میں چوبیش سال سے باقاعدگی سے انجام دے رہا ہوں ۔

آخر کار بہت زیادہ سوچ و بچار کے بعد میں نے جانے کا فیصلہ کیا اور قافلے کی روانگی سے کچھ دیر پہلے میں اپنے دوست کے پاس گیا اور اس سے کہا میں جا رہا ہوں اور تمہارے لئے دعا کروں گا کہ خداوند تمہیں شفاء عطا فرمائے گا ۔

جب اس نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس نے کہا : میں ایک گھنٹے کے بعد مر جاؤں گا ۔ صبر کرو اور جب میں مر جاؤں تو میرا سامان ، گدھا اور سارا مال تم لے لینا ۔ مجھے اسی گدھے کے ساتھ کرمانشاہ لے جانا اور وہاں سے کسی طرح کربلا تک پہنچا دینا !

جب وہ یہ باتیں کر رہا تھا تو وہ بہت زیادہ گریہ کر رہا تھا ، اس کی باتوں کی وجہ سے میرے دل پر رقت طاری ہو گئی جس کی وجہ سے میں وہیں رک گیا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ شخص وفات پا گیا ۔

میں اسے گدھے پر باندھ کر روانہ ہوا ۔ جب میں کاروانسرا سے باہر نکلا تو قافلہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ لیکن دور سے قافلہ کی گرد و غباد نظر آ رہی تھی ۔ میں ایک فرسخ تک گیا ۔ میں جس طرح سے بھی میت کو باندھتا لیکن فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ گر جاتی ۔ مجھ پر تنہائی کے خوف کا بھی غلبہ ہونے لگا ۔ اور جب میں نے دیکھا کہ میں اسے نہیں لے جا سکتا تو میں اور زیادہ پریشان ہو گیا ۔

میں کھڑا ہوا اور سيّد الشہداء حضرت امام حسین - صلوات اللَّه عليه – کی جانب متوجہ ہوا اور روتے ہوئے عرض کیا : مولا! آخر اب میں آپ کے اس زائر کے ساتھ کیا کرو ، اگر میں سے اس بیابان میں چھوڑ کر چلا جاؤں تو خدا اور آپ کی بارگاہ میں جوابدہ ہوتا ہوں اور اگر میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں تو یہ میری توانائی سے خارج ہے ۔ آب میں کیا کروں ؟

اسی دوران میں نے چار سواروں کو  دیکھا ؛ ان میں سے بزرگ سوار نے فرمایا : جعفر تم ہمارے زایر کے ساتھ کیا کر رہے ہو ؟

میں نے عرض کیا : آقا ! میں کیا کروں ، میں اس کے بارے میں فکر مند ہوں ۔

دوسرے تین افراد سواری سے اترے ، ان میں سے ایک کے پاس نیزہ تھا ، انہوں نے پانی کے گوادل (کہ جو خشک ہو چکا تھا ) میں نیزہ مارا اور وہاں سے پانی جاری ہو گیا ۔ پھر انہوں نے میت کو غسل دیا ۔ ان میں سے بزرگ نے کھڑے ہو کر اس پر نماز پڑھی اور پھر انہوں نے اسے مضبوطی سے گدھے پر باندھ گیا ، اس کے بعد وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔

میں روانہ ہوا اور میں نے اچانک دیکھا کہ میں اس قافلہ سے آگے پہنچ چکا ہوں کہ جو ہم سے پہلے روانہ ہوا تھا اور پھر ایک دوسرے قافلہ کے پاس پہنچ گیا کہ جو اس قافلہ سے بھی پہلے روانہ ہوا تھا ۔

کچھ دیر کے بعد ہی میں کربلا کے نزدیک سفید پل پر پہنچ گیا ، میں تعجب اور حیرت میں مبتلا تھا کہ آخر یہ کیسا واقعہ ہے ۔ پھر میں میت کو لے کر گیا اور اسے وادی ایمن میں دفن کر دیا ۔

تقريباً بیش دن کے بعد ہمارا قافلہ پہنچا ۔ قافلہ میں موجود سب لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ تم کب اور کیسے آئے ؟

میں نے کچھ لوگوں کو اجمالی طور اس واقعہ کے بارے میں بتایا اور وہ لوگ تعجب کر رہے تھے ، یہاں تک کہ عرفه کا دن آ گیا ۔ میں حرم مطہر میں مشرف ہوا تو میں نے لوگوں کو مختلف حیوانات منجملہ بھیڑیئے اور خنزیر وغیرہ کی صورت میں دیکھا اور کچھ کو انسانوں کو صورت میں دیکھا۔

میں بہت زیادہ وحشت زدہ ہو کر وہاں سے واپس لوٹا اور ظہر سے پہلے ایک مرتبہ پھر حرم مطہر میں گیا اور دوبارہ وہی اسی صورت حال کا سامنا کیا ، اور جب اگلے دن گیا تو سب کو انسانوں کو صورت میں دیکھا ۔

اس سفر کے بعد میں چند مرتبہ کربلا کے سفر سے مشرف ہوا اور پھر میں نے عرفه کے دن لوگوں کو مختلف حیوانات کی صورت میں دیکھا اور دوسرے ایّام میں انہیں انسانوں کی صورت میں دیکھا ۔ اس وجہ سے میں نے ارادہ کیا کہ اب عرفه کے لئے مشرّف نہیں ہوں گا اور جب میں لوگوں کے لئے یہ امور اور واقعات نقل کرتا تھا تو وہ بدگوئی اور طعنہ زنی کرتے اور کہتے : زیارت کے ایک سفر پر جانے کے لئے یہ کیسے دعوے کر رہا ہے لہذا میں نے مکمل طور پر ان واقعات کو نقل کرنا چھوڑ دیا ، یہاں تک کہ ایک رات میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانا کھانے میں مشغول تھا کہ دروازے سے دستک کی آواز سنائی دی ۔

 میں نے جا کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک شخص فرما رہا ہے : حضرت صاحب الامر عجّل اللَّه‏ فرجه نے تمہیں طلب کیا ہے ۔

میں ان کے ہمراہ مسجد جمعہ کے دروازے کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ وہاں صفّہ میں ایک بلند و بالا منبر ہے کہ جس پر حضرت صاحب الزمان صلوات اللَّه عليه تشریف فرما ہیں اور وہ صفّہ بھی لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور انہوں نے شوشتریوں کی طرف عام لباس پہنا ہوا ہے ۔

میں نے سوچا کہ میں کس طرح ان سے گزر کر امام کی خدمت میں شرفیاب ہوں ۔

پس آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے آواد دی : جعفر آ جاؤ ! میں منبر کے سامنے گیا ۔

آپ نے فرمایا : تم نے کربلا کے راستے میں جو کچھ دیکھا وہ لوگوں کے لئے بیان کیوں نہیں کرتے ۔

میں عرض کیا : آقا ! میں وہ بیان کرتا تھا لیکن جب سے لوگوں نے بدگوئی کرنا شروع کیا تو میں نے وہ بیان کر چھوڑ دیا ۔

آپ نے فرمایا : تمہیں لوگوں کی باتوں سے کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہئے ، اور تم نے جو کچھ دیکھا اسے بیان کرو تا کہ لوگ سمجھ جائیں کہ ہم اپنے جد سید الشہداء حضرت امام حسین صلوات اللہ علیہ کے زائر پر کس طرح سے نطر کرم اور لطف کرتے ہیں ۔ (75)


75) العبقرى الحسان: 328/5.

 

منبع: الصحیفة الحسینیة المقدسة ص 14

 

 

ملاحظہ کریں : 1009
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 87937
تمام وزٹر کی تعداد : 129324278
تمام وزٹر کی تعداد : 89840457