حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۵) امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کو تباہ کرنے کے سلسلہ میں متوكّل کا آخری حکم

(۵)

امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کو تباہ

کرنے کے سلسلہ میں متوكّل کا  آخری حکم

   کتاب «جلاء العيون» ، «شرح شافيه: 211» اور «امالى: 208» میں ذکر ہوا ہے کہ فضل بن ‏عبد الحميد کا بیان ہے کہ: میں ابراہيم ديزج کا ہمسايہ تھا اور میرے اس کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور وہ مجھ سے اپنے راز بھی بیان کرتا تھا اور جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوا تو میں اس کی عیادت کے لئے گیا تو اس کی حالت بہت خراب تھی اور اس کے پاس طبیب بیٹھا ہوا تھا۔

   میں اس کا حال پوچھا اور اس سے کہا: تمہارا کیا حال ہے اور تمہارا کیا ہو گا؟

   اس نے مجھے جواب نہ دیا اور اشارہ کیا کہ پاس طبب بیٹھا ہے یعنی میں طبیب کی موجودگی میں تم سے اپنی حالت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ طبيب اس کا اشاره سمجھ گیا اور اٹھ کر چلا چلا گیا۔ اور جب میں نے دیکھا کہ اب گھر میں کوئی اور نہیں ہے تو میں نے پھر اس سے احوال پرسی کی؟

 ‏

   اس نے کہا: میں تمہیں خبر دیتا ہوں اور خدا سے اپنی مگفرت طلب کرتا ہوں۔ بیشک ‏متوكّل نے مجھے مأمور کیا تھا کہ میں کربلا جا کر امام حسين‏ عليه السلام کی قبر کے آثار کو بھی مٹا دوں، اس جگہ گاے اور بھینسیں باندھ دو اور زمین پر ہل چلا دو۔ پس ہم روانہ ہوئے اور اور جب ہم کربلاپہنچے تو رات کا وقت تھا، جب کہ ہم ساتھ بیلچے لئے ہوے بہت سے افراد تھے۔

   اس وقت میں نے اپنے غلاموں سے کہا: عملہ اور کارکنوں کو کام پر لگا دو تا کہ وہ قبر کو تباہ و برباد کر دیں اور میں خود سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے زمین پر لیٹا اور سو گیا۔ اچانک مجھے چیخے کی آواز سنائی دی اور غلاموں نے آ کر مجھے بیدار کیا۔

   میں ڈر کر اٹھ گیا اور ان سے کہا: آخر تم لوگوں کو کیا ہو رہا ہے؟

   انہوں نے کہا: ایک بہت ہی عجیب واقعہ رونما ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ قبر میں سے ایک جماعت ظاہر ہوئی ہے جو ہمیں قبر کے قریب جانے سے روک رہی ہے اور ہماری طرف تیر چلا رہی ہے۔

   میں بھی ان کے ساتھ گیا اور جا کر دیکھا تو واقعہ کچھ ویسے ہی تھا جیسے انہوں نے مجھ سے بیان کیا تھا۔ اور یہ واقعہ اس مہینہ کی وسطی راتوں میں پیش آیا۔ پھر میں نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ تم بھی ان کی طرف تیر چلاؤ۔ پس میرے غلاموں میں سے جس نے تیر چلا، وہ تیر واپس آیا اور اس نے تیر چلانے والے شخص کو ہی قتل کر دیا۔

   جب میں نے یہ دیکھا تو خوفزدہ ہو گیا اور اسی رات مجھے بہت تیز بخار ہو گیا اور میں کانپتا رہا۔ میں اٹھا اور قبر سے دور ہو گیا اور یوں میں نے متوكّل کے حکم کی مخالفت کی اور خود کو اس کے ہاتھوں قتل ہونے کے لئے قرار دے دیا۔

   راوى کہتا ہے: میں نے اس سے کہا: تمہیں جس چیز کا خوف تھا اب وہ نہیں ہو گا کیونکہ اب تم متوكّل کے شرّ سے آزاد ہو چکے ہو کیونکہ کل متوكّل کو اس کے بیٹے کی مدد سے قتل کر دیا گیا ہے۔

   اس نے کہا: میں نے یہ خبر سنی ہے لیکن میں اپنے بدن میں ایک ایسی حالت کا مشہادہ کر رہا ہوں کہ اب مجھے اپنی زندگی کی امید دکھائی نہیں دیتی۔

   راوى کہتا ہے کہ: میں نے دن کے آغاز میں اس کی عیادت کی تھی اور اسی دن شام سے پہلے ابراہيم واصل جہنم ہو گیا۔

   حقير کا یہ بیان ہے کہ: اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بار متوکل نے آخری مرتبہ امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کو تباہ و برباد کرنے کا حکم دیا تھا، چونکہ معتبر کتابوں سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ متوکل نے بطور مکرر امام حسین علیہ السلام کی قبر کو تباہ کرنے کا حکم دیا تھا اور بعض مواقع پر اس حکم پر عمل کرنے والا یہی ابراہیم تھا، جیسا کہ «جلاء» میں بھی ہے کہ خود ابراہيم نے کہا ہے:

   جب متوكّل نے مجھے کربلا بھیجا تا کہ میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کو تباہ کروں تو اس نے قاضی کو خط لکھا کہ میں نے ابراہیم کو روانہ کیا ہے تا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کشائی کرے اور اسے تباہ و برباد کرے اور جب تم میرا یہ خط پڑھو تو اس کے کام کی خبر رکھنا کہ کیا وہ میرے حکم پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔

   پس میں كربلا گیا اور پھر وہاں سے واپس لوٹ گیا۔ قاضٰ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا ہے؟

   میں نے کہا: اگرچہ میں زمین کی کھودائی کی لیکن مجھے وہاں سے کوئی چیز نہیں ملی۔

   قاضی نے کہا: تم نے زمین اور زیادہ گہرا کیوں نہیں کھودا؟

   میں نے کہا: میں نے بہت زیادہ کھودائی کی لیکن مجھے وہاں کوئی چیز نہیں ملی۔

   پس قاضى نے متوكّل كو خط لکھا کہ ديزج گیا تھا اور اس نے قبر کو کھودا، نبش قبر کیا۔ اور پھر اسے حکم دیا کہ زمین پر ہل چلا کر اس پر پانی جاری کر دے تا کہ قبر کے آثار بھی مٹ جائیں۔

   راوى کہتا ہے: میں نے تنہائی میں ابراہيم سے ملاقات کی اور اس سے حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے مجھ سے کہا: حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے خاص غلاموں کے ساتھ گیا تھا اور میں کسی اجنبی کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا تھا اور جب میں نے قبر کھودی تو میں نے ایک تازہ بوریا دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اس پر ایک تازہ اور پاکیزہ جسد سو رہا ہے کہ جس سے مشک سے بہتر خوشبو ساطع ہو رہی ہے۔ لہذا میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا اور قبر کو بند کر دیا۔ اور جب میں نے وہاں گائے وغیرہ باندھنا چاہئیں تو میری تمام تر کوششوں کے باوجود گائے قبر کے قریب پہنچتے ہی واپس آ جاتی۔ اور نہ ہی میں اس جگہ ہل چلا سکا۔ پس میں نے اپنے غلاموں کو طلایا اور انہیں قسم دی  اور خبردار کیا کہ اگر تم لوگوں نے یہ خبر کسی دوسری جگہ ذکر کی تو میں تم لوگوں کو قتل کر دوں گا۔ (1481)

 


1481) نفائح العلاّم فى سوانح الأيّام: 75/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 967
آج کے وزٹر : 46463
کل کے وزٹر : 103128
تمام وزٹر کی تعداد : 132355756
تمام وزٹر کی تعداد : 91785649