حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۱) جنگ خندق میں عمر عاص اور خالد بن ولید؛ کفار کے لشکر میں

(۱)

جنگ خندق میں عمر عاص اور خالد بن ولید؛ کفار کے لشکر میں

  ہمارے لئے جناب جابر بن عبد اللَّه نے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں خندق کی حفاظت کر رہا تھا تو میں متوجہ ہوا کہ مشرکین کے کچھ سوار خندق کے اردگرد گھوم رہے ہے۔ اور وہ خندق میں سے کوئی ایسی جگہ تلاش کر رہے تھے کہ جس کی چوڑائی کم ہو تا کہ وہ وہاں سے گھس کر مسلمانوں پر حملہ کر سکیں۔ عمرو بن ‏عاص اور خالد بن وليد اس موقع کی تلاش میں تھے کہ وہ مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر یہ کام انجام دیں۔ ہمارا سامنا خالد بن وليد سے ہوا کہ جو ایک سو سواروں کے ساتھ خندق میں سے کم چورائی والی جگہ کو تلاش کر رہا تھا تا کہ وہ وہاں سے اپنے سواروں کو گذار سکے۔ ہم نے انہیں دیکھ کر ان کی طرف تیر اندازی کی تو وہ لوگ وہاں سے واپس پلٹ گئے۔

  محمّد بن مَسْلَمه سے ہمارے لئے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا: اس رات خالد بن علید ایک سو سواروں کے ہمراہ وادى عقيق کی جانب سے مَذاد کے مقام پر پہنچا اور خندق کے دوسری طرف‏ پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے خیمہ کے مقابل میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے مسلمانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا اور میں نے عبّاد بن بِشر ( جو پيغمبر صلى الله عليه و آله و سلم کے خیمہ کی حفاظت پر مأمور سپاہیوں کے سربراہ تھے اور جو اس وقت نماز پڑھ رہے تھے) کو آواز دی اور کہا: خیال رکھنا اور اس سے غافل نہ ہونا۔

   انہوں نے جلدی سے رکوع اور سجود ادا کئے اور اس وقت خالد تین افراد کے ساتھ آگے بڑھا اور میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ: یہ محمد کا خیمہ ہے، تیر اندازی کرو اور پھر انہوں نے تیز اندازی شروع کر دی۔

   ہم خندق کے اس طرف تھے اور وہ خندق کے دوسری طرف، ہم نے مقابلہ کرنا شروع کیا اور ایک دوسرے پر تیر اندازی شروع کر دی۔ اور پھر ہماری ساتھی بھی ہماری مدد کے لئے آ گئے اور کے ساتھ موجود افراد ان کی مدد کے لئے آ گئے۔ دونوں طرف سے بہت زیادہ افراد زخمی ہوئے اور پھر وہ خندق کے کنارے پر چلنے لگے ، ہم نے بھی ان کا پیچھا کیا اور ہم اس دوران سپاہیوں کی جس پوسٹ پر بھی پہنچتے تھے، ان میں بسے کچھ لوگ ہمارے ساتھ آ جاتے اور کچھ لوگ وہیں حفاظت پر مأمور رہتے۔ یہاں تک کہ ہم راتِج کے مقام پر پہنچے۔ وہاں دشمن کافی دیر تک کھڑا رہا اور بنى ‏قُريظه کا انتظار کرتا رہا تا کہ مدينه  کے مرکز پر حملہ کر دیں۔ اچانک ہم متوجہ ہوئے کہ سَلَمة بن اسلم بن حُرَيش ( جو مدينه کی حفاظت پر مأمور تھے) کے سوار خالد کے لشکر کے پاس پہنچ کر ان سے جنگ کرنے لگے۔ اور ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ خدا کے سوار پیٹھ دکھا کر بھاگ رہے ہیں اور سلمہ بن اسلم کے سوار ان کا پیچھا کر رہے ہیں اور وہ جہاں تک آئے تھے، انہیں وہاں سے نکال دیا۔۔ (1)


1) مغازى: 349/2.

 

منبع: معاويه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 913
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 87911
تمام وزٹر کی تعداد : 133801185
تمام وزٹر کی تعداد : 92561236