حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) حضرت زہراء سلام الله عليہا؛ حقيقت شب قدر

(۲)

حضرت زہراء سلام الله عليہا؛ حقيقت شب قدر

کتاب تفسير «فرات» میں امام صادق عليه السلام سے اس آیۂ شریفہ «إنّا أنْزَلْناهُ في لَيْلَة القَدْر»(1) کے ذیل میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

 الليلة فاطمة، والقدر اللَّه، فمن عرف فاطمة عليها السلام حقّ معرفتها فقد أدرك ليلة القدر، وإنّما سمّيت فاطمة لأنّ الخلق فطموا عن معرفتها .(2)

 «ليلة» سے مراد فاطمه عليہا السلام ہیں اور «قدر» سے مراد خداوند ہے۔ پس جس کسی نے بھی فاطمه عليہا السلام کی اس طرح معرفت حاصل کر لی جس طرح ان کی معرفت کا حق ہے تو اس نے شب قدر کو درک کر لیا ہے۔ بیشک آنحضرت کو «فاطمه» کا نام دیا گیا کیونکہ لوگ ان کی معرفت و شناخت سے عاجز ہیں۔

    مؤلّف رحمه الله کہتے ہیں : شايد جناب فاطمه عليہا السلام کو «ليلة القدر» سے تشبیہ دینے کی یہ وجہ ہو کہ آپ کی معرفت و شناخت لوگوں پر پنہاں اور مخفی ہے کہ جس طرح شب قدر مخفی اور پنہان ہے۔ اسی وجہ سے اسے آیت میں دو حرف استفہام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے: «وَما أدْريك ما لَيْلَة القَدْر»(3) تا کہ ان کی بزرگى اور شأن و منزلت کو سمجھائے یا یہ کہ غیر معصوم کا آپ کی شناخت سے عاجز ہونے کو ثابت کرے۔ کیونکہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی  شب قدر کو نہیں پہچان سکتا۔ يا اس سے یہ مراد ہے کہ جو کوئی فاطمه عليہا السلام کو اس طرح سے پہچان لے کہ جس طرح معرفت کا حق ہے اور آپ کی معرفت کی حقیقت تک پہنچ جائے اور اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائےاور وہ حضرت فاطمۂ زہراء علیہا السلام کے جلال و عظمت اور اس رات آپ کے حضور فرشتوں کے نزول کو اس طرح سے دیکھے کہ اسے ان کے شب قدر ہونے کا یقین ہو جائے اور حقیقت میں شب قدر کو درک کرنا یہی ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں ایک روایت(4) میں وارد ہوا ہے کہ وہ دو افراد یعنی وہ دو غاصب خلیفہ شب قدر کو اس طرح پہچانتے ہیں کہ اس رات ان دونوں پر بہت سے شیاطین کا نزول ہوتا ہے۔

    اور ایک روایت میں فرمایا ہے :

 اس آيۂ شريفه «إنّا أنْزَلْناهُ في لَيْلَة مباركة»(5) میں «ليله مباركه» سے جناب فاطمه عليہا السلام مراد ہیں (6) ، اور «زجاجه» سے وہ شيشه مراد ہے کہ جو تلألؤ رکھتا ہے(7) ، اور «مشكاة» سے «چراغدان» مراد ہے اور آيه نور «مثل نوره كمشكوة فيها مصباح المصباح في زجاجة...»(8) میں اس سے مراد جناب فاطمہ عليہا السلام ہیں . (9)


1) سوره قدر ، آيه 1 .

2) تفسير فرات: 581 ح 747، بحار الأنوار : 65/43 ح 58 .

3) سوره قدر ، آيه 2 .

4) الكافى : 253/1 آخر ح 8 .

5) سوره دخان ، آيه 4                      

6) تأويل الآيات : 817/2 سطر 3 .

7) اس شیشہ کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ ہوا کی وجہ سے چراغ کو بجھنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا کا تاریخ میں یہی کردار ہے اور آپ کا وجود مبارک و مقدس باعث بنا کا دین کا چراغ ہمیشہ روشن رہے اور جسے ھوازثِ زمانہ کی تند و تیز آندھیاں بھی بجھا نہ سکیں۔ حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی سعی و کوشش سے حریم ولایت کا دفاع کرتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی حقّانيّت و مظلوميّت اور غاصبين کی حکومت کے بطلان کو ثابت کیا اور یوں آپ ہر دور، ہر زمانے اور ہر نسل کے لئے مشعل ہدایت قرار پائیں۔

8) سوره نور ، آيه 7 24 .

9) تأويل الآيات : 360/1 ح 7 .

 

منبع: فضائل اہلبيت عليہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 1 ص 413 ح 269

 

ملاحظہ کریں : 798
آج کے وزٹر : 30338
کل کے وزٹر : 72005
تمام وزٹر کی تعداد : 129209097
تمام وزٹر کی تعداد : 89725259