حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) اميرالمؤمنين حضرت امام علی عليه السلام کا اپنی حیات مبارک کے آخری لمحات میں اصبغ بن نباته سے کلام

 (۲)

اميرالمؤمنين حضرت امام علی عليه السلام

کا اپنی حیات مبارک کے آخری لمحات میں اصبغ بن نباته سے کلام

    در كتاب «فضائل ابن شاذان» اور اسی طرح «الروضه» میں ذکر ہوا ہے :

    اصبغ بن نباته‏ رحمه الله کہتے ہیں: جب امیر المؤمنین امام على ‏عليه السلام کا سر اقدس  ابن ملجم لعين کی تلوار سے زخمی ہوا تھا  اور آپ کی زندگی کے آخری لمحات تھے تو میں مولا کی عیادت کے لئے گیا تو امیر المؤمنین امام علی‏ عليه السلام نے مجھ سے فرمایا:

 اے اصبغ! بیٹھ جاؤ اور مجھ سے حدیث سنو، آج کے بعد مجھ سے کوئی بات نہیں سن سکو گے۔ اے اصبغ! جان لو کہ جس طرح تم میعی عیادت کے لئے آئے ہو اسی طرح میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کے لئے گیا تھا تو اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا تھا:

 اے ابو الحسن! اٹھیں اور لوگوں سے کہیں کہ نماز با جماعت کے لئے مسجد میں حاضر ہو جائیں اور پھر منبر پر جائیں اور میرے مقام سے ایک زینہ نیچے بیٹھیں اور لوگوں سے کہیں:

 ألا من عقّ والديه فلعنة اللَّه عليه ، ألا من أبق من مواليه فلعنة اللَّه عليه ، ألا من ظلم أجيراً اُجرته فلعنة اللَّه عليه .

 آگاه ہو جاؤ! جو کوئی بھی اپنے والدین پر جفا اور ظلم و ستم کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔

 آگاه ہو جاؤ! جو کوئی غالم بھی اپنے مولا سے فرار کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔

 آگاه ہو جاؤ! جو کوئی بھی مزدور کو اجرت اور مزدوری دینے میں اس پر ظلم کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔

 اے اصبغ! میں نے اپنے حبیب رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم کے فرمان کو انجام دیا ہے۔ اس دوران مسجد کے کنارے سے کوئی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے ابو الحسن! آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ بہت مختصر عبارت میں تھا، اس کی وضاحت بیان فرما دیں۔

میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا، وہ آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا۔

    اصبغ کہتے ہیں : اسی دوران على عليه السلام نے میرا ہاتھ ہکڑا اور فرمایا:

 اے اصبغ! اپنا ہاتھ کھولو! میں نے اپنا ہاتھ کھولا تو آنحضرت نے میری انگلی پکڑ کر فرمایا:

اے اصبغ! جس طرح میں نے تمہاری انگلی پکڑی ہے اسی طرح رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم انے میری انگلی پکڑتے ہوئے فرمایا تھا:

 يا أباالحسن ! ألا وإنّي وأنت أبوا هذه الاُمّة فمن عقّنا فلعنة اللَّه عليه ، ألا وإنّي وأنت موليا هذه الاُمّة فعلى من أبق عنّا لعنة اللَّه ، ألا وإنّي وأنت أجيرا هذه الاُمّة ، فمن ظلمنا اُجرتنا فلعنة اللَّه عليه .

 اے ابو الحسن! بیشک میں اور آپ اس امت کے باپ ہیں، جو کوئی بھی ہم پر ظلم کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہو۔ بیشک میں اور آپ اس امت کے آقا و مولا ہیں جو کوئی بھی ہم سے فرار کرے اس پر خدا کی لعنت ہو، بیشک میں اور آپ اس امت کے اجیر ہیں ( یعنی ہم نے اس امت کے لئے محنت کی ہے) اورجو کوئی بھی ہماری اجرت ادا کرنے میں ہم پر ظلم و ستم مکرے اس پر خدا کی لعنت ہو۔

 اس کے بعد آپ نے فرمایا : آمين ۔

    اصبغ کہتے ہیں: امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام اتنی گفتگو کرنے کے بعد بے ہوش ہو گئے اور جب دوبارہ ہوش میں آئے تو آپ نے فرمایا:

 اے اصبغ! تم ابھی تک بیٹھے ہوئے ہو!

 میں نے عرض كیا: جی ہاں! میرے آقا و مولا۔

 آپ نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک اور حدیث سناؤں؟

 میں نے عرض كیا: جی ہاں! خداوند آپ کو اپنی فراوان نعمتوں سے نوازے۔

 فرمایا: ایک دن پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے مدینہ کی گلیوں میں سے کسی ایک گلی میں مجھے دیکھا اور اس وقت میں اس طرح سے مغموم تھا کہ مییرے چہرے سے غم کے آثار نمایاں تھے۔

آنحضرت نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: اے ابو الحسن! میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناؤں کے جسے سننے کے بعد کبھی غمگین نہیں ہو گے؟

 میں نے عرض كیا: جی ہاں۔

 آپ نے فرمایا:جب قیامت آئے گی تو خداوند متعال میرے لئے ایک منبر نصب کرے گا کہ جو تمام پیغمبروں اور شہیدوں کے منبروں سے بلند ہو گا اور اس کے بعد مجھے حکم دے گا کہ میں منبر پر جاؤں اور پھر تمہییں حکم دیا جائے گا کہ میرے بیٹھنے کی جگہ سے ایک زینہ نیچے بیٹھ جائیں۔ پھر دو فرشتوں کو حکم ہو گا کہ وہ تم سے دو زینے نیچے بیٹھ جائیں اور جب ہم سب منبر نشین ہو جائیں گے تو پھر اوّلین و آخرین میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو وہاں حاضر نہ ہو۔

 تم سے دو زینے نیچے بیٹھنے والا فرشتہ فرياد کرے گا:

 اے لوگو! جو کوئی مجھے جانتا ہے وہ جانتا اور جو مجھے نہیں پہچانتا، اب میں اسے اپنے پہچان کرائے دیتا ہوں۔ میں رضوان، خازن بہشت ہوں۔ آگاہ ہو جاؤ! خدا نے اپنے احسان و کرم اور فضل و جلال سے مجھے حکم دیا ہے کہ بہشت کی تمام چابیاں حضرت محمّد صلى الله عليه و آله و سلم کے حوالے کر دوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ سب چابیاں على بن ابى طالب ‏عليہما السلام کے حوالے کر دوں۔ آپ سب ھاضرین اس امر میں گواہ رہنا۔

 اس کے بعد دوسرا فرشتہ کھڑا ہوا کہ جو اس سے نیچے بیٹھا ہو گا، اور وہ بھی اسی طرح فریاد بلند کرے گا کہ تمام لوگ اس کی آواز سنیں گے۔ وہ کہے گا:

 اے لوگو! جو کوئی مجھے جانتا ہے وہ جانتا اور جو مجھے نہیں پہچانتا، اب میں اسے اپنے پہچان کرائے دیتا ہوں۔ میں ملک خازن دوزخ ہوں۔ آگاہ ہو جاؤ! خدا نے اپنے احسان و کرم اور فضل و جلال سے مجھے حکم دیا ہے کہ بہشت کی تمام چابیاں حضرت محمّد صلى الله عليه و آله و سلم کے حوالے کر دوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ سب چابیاں على بن ابى طالب ‏عليہما السلام کے حوالے کر دوں۔ آپ سب ھاضرین اس امر میں گواہ رہنا۔

اس وقت على ‏عليه السلام جنت اور جہنم کی تمام چابیاں لے لیں۔

اور اس کے بعد رسول ‏خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا: اے علی! آج کے بعد تم میرا دامن پکرو گے اور تمہارے خاندان والے تمہارا دامن پکڑیں گے اور تمہارے شیعہ تمہارے خاندان کا دامن تھامیں گے۔

 على ‏عليه السلام نے فرمایا: میںنے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: اے رسول خدا ! جنت کی طرف جا رہے ہیں!

 پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا:

فرمود: ہاں۱ رب کعبہ کی قسم!

    ( اصبغ کہتے ہیں: میں نے اس وقت آپنے آقا و مولا سے ان دو ھدیثوں کے سوا کچھ نہیں سنا۔ جب حضرت صلوات اللَّه عليه یہ دو خوبصورت اور دل نشین فرامین بیان کر چکے تو اس کے بعد ان کی روح اقدس ان کے معبود کی جانب پرواز کر گئی) .(1)

  


1) الروضة : 22 و 23 ، بحار الأنوار : 44/40 ح 82 و 204/42 ح 8 . شيخ طوسى رحمه الله نے اس سے مشابہ روایت اپنی کتاب  امالى : 123 ح4 مجلس 5  میں، اور  شيخ مفيد رحمه الله نے بھی اپنی کتاب  امالى: 351 ح3  میں نقل کی ہے۔

 

منبع: فضائل اهلبيت عليهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص 402

 

 

ملاحظہ کریں : 770
آج کے وزٹر : 10873
کل کے وزٹر : 49009
تمام وزٹر کی تعداد : 129026889
تمام وزٹر کی تعداد : 89603452