حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۴) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی موجودگی میں امام حسن مجتبي عليه السلام کا اہم سوالوں کے جواب دینا

(۴)

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی موجودگی میں

امام حسن مجتبي عليه السلام کا اہم سوالوں کے جواب دینا

طبرى قدس سره؛ حضرت جواد الأئمّه عليه السلام سے نقل كرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

 اميرالمؤمنين علی عليه السلام اپنے فرزند امام مجتبى عليه السلام اور سلمان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے۔ لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اچانک ایک شخص مسجد میں داخل ہوا جس کا چہرا بہت خوبصورت تھا اور وہ آپ کو سلام کرنے کے بعد بیٹھ گیا۔

 اور پھر عرض کیا: اے امير المؤمنین! میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں اور اگر آپ نے ان کے جواب دے دیئے تو میں سمجھ جاؤں گا کہ لوگوں نے آپ کے علاوہ کسی دوسرے کا انتخاب کرکے ایسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو قابل بخشش نہیں ہے اور وہ دنیا و آخرت میں ہلاک ہو جائیں گے، اور اگر آپ مناسب جواب نہ دے سکے تو میں سمجھ جاؤں گا کہ آپ ان کے ساتھ یکساں ہیں۔

 امير المؤمنين علی عليه السلام نے فرمایا : تمہارا جو دل چاہے پوچھو۔

اس نے عرض کیا: أخبرني عن الرجل إذا نام أين تذهب روحه؟ وعن الرجل كيف يذكر وينسى؟ وعن الرجل كيف يشبه ولده الأعمام والأخوال؟

 مجھے بتائیں کہ نید کے وقت آدمی کی روح کہاں جاتی ہے؟ اور کس طرح آدمی ایک مطلب کو یاد رکھتا ہے اور کسی مطلب کو بھول جاتا ہے؟ اور کس طرح بچہ کبھی اپنے چچا اور کبھی ماموں کے ساتھ شباہت رکھتا ہے؟

جب اس شخص کے سوالات مکمل ہو گئے تو امير المؤمنين علی عليه السلام نے اپنے بیٹے امام حسن عليه السلام کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

 اے ابو محمّد ! تم اس شخص کے سوالوں کے جواب دو۔

 امام حسن عليه السلام نے فرمایا: تمہارا پہلا سوال یہ تھا ککہ جب کوئی شخص سو جاتا ہے تو اس کی روح کہاں چلی جاتی ہے؛ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی روح ہوا اور فضا میں معلق ہو جاتی ہے ، اس وقت تک کہ یہ شخص خود کو یدار کرنے کے لئے حرکت دے۔ پس اگر خداوند متعال اس روح کو صاحب روح کی طرف لوٹنے کی اجازت دے دے تو روح ہوا کو اور ہوا فضا کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور آخر کار روح واپس لوٹ آتی ہے اور صاحب روح کے بدن میں چلی جاتی ہے اور خداوند متعال روح کو لوٹنے کی اجازت نہ دے تو معاملہ برعکس ہو جاتا ہے۔ یعنی فضا ہوا کو اور ہوا روح کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور قبر سے نکلنے کے وقت تک روح صاحب روح کے بدن کی طرف واپس نہیں آتی۔

 اور تمہارا دوسرا سوال یہ تھا کہ انسان کس طرح کسی چیز کو یاد رکھتا ہے اور کسی چیز کو بھول جاتا ہے؟

 اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا دل ایک ایک ظرف میں ہے اور اس پر ایک پردہ ہے۔ اگر وہ چاہتا کہ کسی مطلب کو یاد میں لائے تو محمد و آل محمّد عليہم السلام پر ایک کامل درود بھیجتا ہے تو دل کا وہ پردہ ایک طرف ہٹ جاتا ہے اور دل کھل جاتا ہے اور روشن ہو جاتا ہے اور وہ شخص جس چیز کو بھول گیا ہوتا ہے وہ اسے یاد آ جاتی ہے۔

اور تم نے جو تیسرا سوال پوچھا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح بچہ کبھی اپنے چچا اور کبھی اپنے ماموں سے شباہت رکھتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتا ہے تو اگر اس کا دل مطمئن، رگیں پر سکون اور بدن میں کوئی لرزہ اور اضطراب نہ ہو تو نظفہ رحم میں داخل ہو جاتا ہے اور بچہ ماں باپ میں سے کسی کی شبیہ ہوتا ہے اور اگر اس کے برخلاف آدمی کا دل مطمئن نہ ہو اور اس کی رگیں پرسکون نہ ہوں اور اس کا بدن کسی خوف یا وحشت یا کسی اور وجہ سے کانپنے لگے اور اضطراب کا شکار ہو تو نطفہ بھی کانپ جاتا ہے اور کسی نہ کسی رگ پر جا کر گر جاتا ہے اور اگر نطفہ دودھیال والی رگوں پر جا کر گرے تو بچہ کی شکل اس کے چچاؤں کی طرح ہوتی ہے اور اگر نطفہ ننھیال والی رگوں پر جا کر گرے تو بچہ اپنے ماموں کی طرح ہوتا ہے۔

سوال کرنے والے شخص نے اپنے سوالوں کے جواب سننے کے بعد عرض کیا:

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں ہمیشہ اس کی گواہی دیتا ہوں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمّد صلى الله عليه و آله و سلم خدا کے رسول ہیں اور میں ہمیشہ اس کی گواہی دیتا ہوں۔

 پھر اس نے امير المؤمنين علی عليه السلام کی طرف اشارہ کیا اور عرض کیا:

میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے اپنے بعد آپ کو وصيّت کی اور آپ ان کے جانشین اور وصی ہیں اور ان کی روشن دلیلوں کو اضھ کرتے ہیں اور پھر اس نے امام حسن عليه السلام کی طرف اشارہ کیا اور عرض کیا :

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اپنے بابا کے بعد ان کے وصى و جانشين ہیں اور ان کی حجتوں اور دلائل کو برپا کریں گے۔

 اور پھر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے فرزند رشید امام حسين بن على علیہما السلام اپنے بھائی کے بعد حجت خدا ہیں اور لوگوں کے لئے دلیل و برہان دکھائیں گے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علىّ بن الحسين علیہما السلام ، حسين علیہ السلام کے امر کو زندہ رکھنے والے ہیں یعنی ان کے بعد ہدایت کے پرچم کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد بن على علیہما السلام ، علىّ بن الحسين علیہما السلام کے امر کو قائم رکھنے والے ہیں اور آپ ان کی راہ کو برقرار رکھیں گے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن علی علیہما السلام  کے بعد جعفر بن محمّد علیہما السلام  ان کے حاکم و فرمانروا ہوں گے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ موسى بن جعفر علیہما السلام ؛ جعفر بن محمّد علیہما السلام کے بعد ان کے امر کو باقی رکھیں گے اور وہ ان کے بعد صاحب اختیار ہوں گے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علىّ بن موسى علیہما السلام؛ موسى بن جعفر علیہما السلام کے امر کو قائم رکھنے والے ہیں اور ان کے بعد لوگوں کے پیشوا ہیں۔

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد بن على علیہما السلام ؛ علىّ بن موسى علیہما السلام کے بعد صاحب امر ہیں اور جن و انس کے پیشوا ہیں۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علىّ بن محمّد علیہما السلام؛ محمّد بن على علیہما السلام  کے امر کو قائم کریں گے اور ان کے بعد امور کی زمام سنبھالیں گے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حسن بن على علیہما السلام ؛ علىّ بن محمّد علیہما السلام  کے امر کو برپا کریں گے اور ان کے بعد شیعوں کے لئے ہدایت کرنے والے ہوں گے۔

 وأشهد أنّ رجلاً من ولد الحسن بن عليّ لايسمّى ولايكنّى حتّى يظهر أمره فيملأها قسطاً وعدلاً كما ملئت جوراً،

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آخری امام؛ امام حسن بن على علیہما السلام  کی اولاد میں سے ایک مرد ہے جن کا اصلی نام اور کنیت ان کے ظہور تک نہیں کہنی چاہئے۔ پس وہ دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے کہ جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔

 اور اس کے بعد عرض کیا : اے امیر المؤمنین! آپ پر خدا کا درود اور رحمت ہو، اور پھر وہ شخص اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔

 اميرالمؤمنين علی عليه السلام نے امام مجتبى عليه السلام سے فرمایا : اے ابو محمّد ! اس شخص کے پیچھے جاؤ اور دیکھو کہ یہ کہاں جاتا ہے؟

 امام حسن عليه السلام اس شخص کے پیچھے مسجد سے خارج ہوئے اور جب واپس آئے تو امير المؤمنين علی عليه السلام سے عرض كیا: جیسے اس شخص نے اپنے پاؤں مسجد سے باہر رکھے تو پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا اور وہ کہاں گیا۔

 امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا : اے ابو محمّد ! کیا تم نے اسے پہچانا ؟

 عرض کیا : خدا اور اس کا رسول اور امیر المؤمنین بہتر جانتے ہیں۔

 على عليه السلام نے فرمایا : وہ خضر عليه السلام تھے .(1)

 


(1) دلائل الإمامة: 174 ح 26، المحاسن: 274 ح 199، كمال الدين: 313، عيون الأخبار: 65/1 ح 35، بحار الأنوار: 414/36 ح1، حلية الأبرار: 33/3 ح 1، إرشاد القلوب: 291/2.

 

منبع: فضائل اہلبيت عليہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 1 ص 441 ح 16

 

ملاحظہ کریں : 871
آج کے وزٹر : 15466
کل کے وزٹر : 72005
تمام وزٹر کی تعداد : 129179954
تمام وزٹر کی تعداد : 89695516