حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) یزید بن ولید کی حکومت

(1)

یزید بن ولید کی حکومت

ولید بن یزید کے مصائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شام کے بعض اشراف اور بزرگ یزید بن ولید بن عبد الملک( جس نے ہمیشہ زہد و عبادت کا اظہار کیا) کے پاس گئے اور اس سے کہا: ہم نے ولید کو معزول کر دیا ہے اور ہم تمہاری بیعت کریں گے۔ یزید نے اس بارے میں اپنے بھائی عباس بن علید بن عبد المک سے مشورہ کیا۔ عباس نے اس کام سے منع کیا لیکن یزید اس کے منع کرنے کے باوجود بھی باز نہ آیا اور مخفیانہ طور پر لوگوں سے بیعت لینے میں مشغول ہو گیا۔ یہ بات مروان حمار( جو وہاں والی ارمنیّہ تھا) کی کانوں تک پہنچی تو اس نے عید بن عبد الملک بن مروان کو ایک خط بھیجا کہ یزید اس طرح لوگوں سے بیعت لے رہا ہے۔ لہذا اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس بگاڑ کے نتائج سے خبردار کرے۔

   اور سعيد نے وہ خط عباس  کے لئے قُسْطَل کی طرف ارسال کیا۔ عباس نے اپنے بھائی سے کہا: اس فتنہ سے باز رہو؛ مجھے خوف ہیں کہ اس واقعہ میں بنى ‏اميّه ہلاک نہ ہو جائیں۔ لیکن چونکہ اس پر سلطنت کی ہوس کا بھوت سوار تھا لہذا اس نے بھائی کی بات پر غور نہ کیا اور رات کے وقت دمشق کی طرف چلا گیا۔ اس وقت ولید اور اس کے اکثر بزرگ وبا پھیلنے کی وجہ سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور عبد الملک بن محمّد بن حجّاج بھی دمشق کے حاکم ولید سے پہلے ہی طاعون کے خوف سے شہر میں تھا۔

   اور جب يزيد دمشق کی طرف گیا تو اس نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور اسی رات مخالفت کا علم لہرا دیا اور اس نے خزنہ اور گھروں پر قبضہ کر لیا اور کسی کو بھیجا کہ وہ عبد الملک کو پکڑ کر لائیں اور اس کی خدمت میں پیش کریں۔ وہ اپنے قصر میں جنگ کے لئے تیار تھا اور امان سے خارج ہو چکا تھا،دوسرے دن یزید نے اپنا لشکر تیار کیا اور ولید پر چڑھائی کر دی۔

   جب ولید کو اس کے خروج اور یزید کی نیت کا علم ہوا تو وہ حیران ہوا اور مشورہ کرنے کے بعد خالد بن يزيد بن معاويه نے اس سے کہا: حِمْص کی طرف چلے جانا چاہئے کیونکہ اس کا مستحکم قلعہ ہے اور وہاں بہت زیادہ ذخیرہ بھی موجود ہے۔ عبداللَّه بن عنبسة بن سعید بن العاص نے کہا: یہ خليفه کے لئے شائستہ نہیں ہے کہ وہ اپنا لشكر و اہلخانہ کو چھوڑ کر چلا جائے۔ اب مصلحت یہ ہے کہ ہم جنگ کریں اور دشمن کے خلاف فتح کی امید رکھیں۔ اس رائے پر اتفا ق کیا گیا اور سب آلات حرب کی فراہمی میں مصروف ہو گئے۔

   اور يزيد بن وليد نے عبدالعزيز سپہ سالار مقرر کیا اور اس دوران عبدالعزيز نے سنا کہ ‏یزید کا بھائی عبّاس بھاگ کر ولید کے پاس جا رہا ہے، اس نے منصور بن جمهور کو بھیجا تا کہ عباس کو پکڑ کر ولید کے پاس لے جائے، اور منصور نے عبّاس سے کہا: تمہیں اپنے بھائی کی بیعت کا اقدام کرنا چہائے تھا لیکن عباس نے چون و چرا کیا اور اسی دوران ایک پرچم بلند کیا کہ یہ عباس کا پرچم ہے کہ جو امیر یزید کی متابعت میں بلند ہوئے ہیں اور جب عباس نے یہ بات سنی تو کہا: یہ شیطان کے مکر میں سے ایک مکر ہے کہ جو بنی مروان کی ہلاکت کی ضامن ہے۔

   المختصر یہ کہ فریقین میں جنگ ہوئی اور بالآخر ولید بھاگ گیا اور اپنے قصر میں چلا گیا اور اس کا کے دروازے بند کر دیئے، عبد العزیز نے اس کا محاصرہ کر لیا، ولید دروازہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کیا تمہارے درمیان کوئی حسیب نسب ہے کہ جس سے بات کی جا سکے؟

   يزيد بن عنبسه سكسكى نے کہا: تمہیں جو کچھ بھی یاد ہے، وہ بتاؤ۔

   اس نے کہا: يا اخ السكاسك! میں نے تمہاری تنخواہوں میں اضافہ کیا، تمہارے فقراء پر گرانبہا عطا و بخشش کی، لاچار اور اندھے افراد کو خادم عطا کئے اور اب میں نہیں جانتا کہ اس سب دشمنی کی کیا وجہ ہے؟

   ابن عنبسه نے جواب دیا: تم سے ہماری جنگ نفسانيّت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے محرمات کو حلال شمار کیا اور اپنی سوتیلی ماؤوں سے ازدواج کیا اور احکام خدا کو پامال کیا اور شرعی قوانین کو سست کرنے کی کوشش کی۔

   وليد نے کہا: یہ سب حقیقت کے برخلاف ہے۔ خانۂ خدا میں ایسے کتنے ہی کام ہیں جومیں نے وہاں انجام دیئے۔

   اور جب وليد کو معلوم ہوا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تو اپنے گھر واپس آ گیا اور اپنے سامنے قرآن رکھ کر پڑھنے لگا اور یہ کہنے لگا: میرے قتل کا دن بالکل قتلِ عثمان کے دن کی طرح ہے۔

   اسی دوران لشکر کے سپاہ قصر کی چھت پر چڑھ گئے اور وہاں ولید تک پہنچ گئے اور اس کے سر کا بدن سے جدا کر کے یزید کے پاس بھیج دیا۔ یزید نے سجدہ کیا اور شکر الٰہی بجا لایا اور پھر اس نے حکم دیا کہ اس کے سر کو نیزہ پربلند  کرکے دمشق لایا جائے۔

   يزيد بن فروه نے اس سے کہا: یہ تمہارے چچا کا بیٹا ہے جو خلیفۂ وقت تھا۔ اگر تم نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا تو بنى‏ اميّه تمہارے دشمن بن جائیں گے۔ یزید نے اس بات پر توجہ نہ کی اور اپنی رائے پر عمل کیا۔ ولید کی مدت حکومت ایک سال اور تین ماہ تھی اور اس کی عمر ۳۷ سال تھی۔(2864)


2864) تاريخ روضة الصفا: 2487/5.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 703
آج کے وزٹر : 66890
کل کے وزٹر : 72005
تمام وزٹر کی تعداد : 129282196
تمام وزٹر کی تعداد : 89798362