حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) وليد بن يزيد بن عبدالملك

(۲)

وليد بن يزيد بن عبدالملك

کہتے ہیں: اس کی بیعت ۲ اگست سنہ ۷۴۳ عیسوی میں واقع ہوئی کہ جب ماہ ربیع الثانی کے چھ دن گذر چکے تھے۔ اکثر یہ ملتا ہے کہ اس کے باپ نے اپنے بھائی ہشام بن عبد الملک کے بعد اسے فرمانروا بنایا۔ اور جب ولید اورنگ زیب (ولی عہد) بنا تو اس کی عمر گیارہ سال تھی اور ولید کے پندرہ سال کی عمر تک اس کا باپ زندہ تھا۔

   يزيد ہمیشہ یہ کہا کرتا تھا: خدا میرے اور اس شخص کے درميان داور ہو کہ جس نے ہشام کو میرے اور تمہارے درمیان جگہ دی!

   جب ہشام منصب پر فائز ہوا تو اس نے وليد بن يزيد میں اخلاقی برائیاں اور شراب نوشی جیسی خصلتیں آشکار ہونے تک اس کا  بڑا احترام کیا۔ عبدالصمد بن عبدالأعلى (اس کا استاد اور پروردگار) اسے اس کام میں مگن رکھتا اور اس نے اپنے لئے کچھ ہمنشین افراد کا انتخاب کیا کہ جو اس کے ساتھ ہمیشہ مستی، شراب نوشی اور عیاشی میں مصروف رہتے تھے۔

   ہشام نے اسے ان سے الگ کرنا چاہا اور اس مقصد کے تحت اس نے سنہ 734 / 116 عیسوی میں اسے آئین حج کو منعقد کرنے کا حکم دیا۔اس نے اپنے ساتھ صندوقوں میں شراب رکھی اور کعبہ کے برابر گنبد بنائے تا کہ انہیں کعبہ پر نصب کرے۔ اور اس نے اپنے ساتھ شراب کے جام رکھے اور یہ ارادہ کیا کہ کعبہ پر یہ گنبد نصب کرنے کے بعد اس کے نیچے شراب نوشی کرے گا۔ اس کے دوستوں نے اسے اس کام سے ڈرایا اور کہا: ہمیں یقین ہے کہ ہمارے اس عمل سے لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور تمہیں اٹھا کر پھینک دیں گے۔ لہذا وہ اپنے اس ارادہ سے دستبردار ہو گیا۔

   لوگوں نے دین کے سلسلہ میں اس کی لا پرواہی اور عیش و عشرت پر مبنی امور کا مشاہدہ کیا۔ ہشام نے یہ ارادہ کیا  کہ ولید کو برطرف کر دے اور لوگوں سے اپنے بیٹے مَسْلَمہ کی بیعت لےلہذا اس نے ولید سے کہا کہ اس چیز کو قبول کرو لیکن اس نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔

   ہشام نے کہا: اسے تمہارے بعد جگہ دوں گا لیکن اس نے پھر بھی قبول نہ کیا۔اس کی وجہ سے ہشام بہت غضبناک ہوا اور اس نے اسے نقصان پہنچانے اور اپنے بیٹے مسلمہ کے لئے بیعت لینے کا ارادہ کر لیا۔ اس کام کے لئے کچھ لوگ اس کے ساتھ ہو گئے کہ جن میں اس کے دو ماموں محمّد بن ہشام بن اسماعيل، ابراہيم بن ہشام بن اسماعيل، بنى قَعْقا بن خُلَيد عَبْسى اور اس کے دوسرے کچھ خاص افرادشامل تھے۔

   وليد کی بیہودگی، مستی، عیش و عشرت اور شراب نوشی حد سے بڑھ گئی تھی۔ ہشام نے اس سے کہا:اے وليد! تجھ سے پناہ ہے کیا تم اسلامی آئین کے پابند ہو یا کسی اور دین و آئین پر عمل پیرا ہو؟! کوئی ایسا برا کام نہیں ہے جسے تم نے انجام نہ دیا ہو۔« کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو تم سے سرزد نہ ہوا ہو اور کوئی ایسی مسکر (شراب وغیرہ) نہیں ہے جسے تم نے پیا نہ ہو »!اور تم کسی کام کی پرواہ نہیں کرتے۔

   وليد نے اس کے لئے لکھا:

يا أيّها السائل عن ديننا                    نحن على دين ابى شاكر

نشربها صِرْفاً وممزوجة                  بالسُّخن احياناً وبالفاتر

اے ہمارے دین و آئین کے بارے میں سوال پوچھنے والے! جان لو کہ ہم ابو شاکر کے دین پر زندگی گذار رہے ہیں۔ کبھی ہم خالص پیتے ہیں اور کبھی پانی سے ملا کر، کبھی گرم پیتے ہیں اور کبھی نیم گرم۔

   ہشام اپنے بیٹے مسلمہ پر غضبناک ہوا۔ اس کی کنیت ابو شاكر تھی۔ اس سے کہا: مجھے تمہارے کاموں سے کوفت ہو رہی ہے اور میں تمہیں خلافت کے لئے نامزد کر رہا ہوں!

   اسے اس وقت طلب کیا گیا کہ جب سب لوگ نماز کے لئے جمع ہوئے تھے  اور سنہ 737 / 119 عیسوی میں اسےحاجیوں کا رہبر معین کیا گیا تا کہ لوگوں کے ساتھ حج کے مراسم ادا کرے۔

   مسلمه نے پارسائى اور نرم مزاجی کا اظہار کیا اور اس نے مكّه و مدينه میں بخشش کے عنوان سے اپنا مال بھی خرچ کیا۔ مدینہ میں اس کے رشتہ داروں میں سے ایک نے یہ اشعار پڑھے:

يا أيّها السائل عن ديننا               نحن على دين ابى شاكر

الواهب الجُرْدُ بأرْسانِها               ليس بزنديق ولا كافر

اے ہمارے دین و آئین کے بارے میں سوال پوچھنے والے! جان لو کہ ہم ابو شاکر کے دین پر زندگی گذار رہے ہیں کہ جو کوتاہ بالوں  اور لمبے قدم والے گھوڑوں کو ان کی زرّين‏لگام کے ساتھ بخش دیتے ہیں اور نہ وہ زنديق ہے اور نہ ہی کافر۔

   یہ اشعار وليد پر طنز تھا۔

   ہشام ہمیشہ وليد کو برا بھلا کہتا اور اس کی مذت اور سرزنش کرتا اور اس کے کاموں کی مخالفت کرتا تھا۔ وليد اپنے خاص افراد اور اپنے غلاموں کے ساتھ باہر چلا گیا اور اردن کے پاس پانی کے کنارے ازرق میں زندگی بسر کرنے لگا کہ جو اس کی اپنی جگہ تھی اور اس نے اپنے دبیر (سیکرٹری)عياض بن مسلم کو ہشام کے پاس چھوڑا تا کہ وہ اسے اس کی تمام سرگرمیوں سے آگاہ کرتا رہے۔

   ہشام نے وليد کو دی جانے والی بخشش بھی روک دی۔ وليد نے اس بارے میں اسے خط لکھا لیکن ہشام نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور اسے حکم دیا کہ اپنے بدکردار معلم اور ساتھی عبدالصمد کو خود سے الگ کرو۔

   اسے نکال دیا گیا۔ وليد نے اس سے اجازت چاہی کہ ابن سُهَيل اس کے پاس جائے۔ ہشام نے ابن سهيل کو مارا اور وہاں سے روانہ کر دیا۔ وليد کے دبیر عیاض بن مسلم کو بھی مارا اور اسے زندان میں ڈال دیا۔

   وليد نے کہا: میرے باپ نے اس چشم شوم انسان کو منتخب کیا اور اپنا ولی عہد قرار دیا اور وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہا کہ جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ وہ میرے دوستوں اور مجھے پسند کرنے والوں کو اذیت پہنچا رہا ہے۔

   اس نے ہشام کو خط لکھا کہ جس میں اس نے اس بارے میں بات کی اور اس سے گلہ و شکوہ کیا اور اس سے یہ تقاضا کیا کہ وہ اس کے دبیر کو اس کی طرف واپس بھیج دے۔

   ہشام نے اسے واپس نہ بھیجا۔ وليد نے اسے لکھا:

رأيتك تَبْني دائماً في قطيعتي                ولوكُنْتَ ذاحزم لهدَّمتَ ما تبني

تثير على الباقين مَجْنَى ضَغينَة               فويل لهم لو متُّ من شرّ ما تَجني

كأَنّي بهم والليت أفضل قولهم                الا ليتنا والليت إذ ذاك لايُغني

كفرتَ يداً من منعم لو شكرتها                جزاك به الرّحمن ذوالفضل والمنّ

میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم ہمیشہ مجھ سے جدا ہونے کی کوشش کرتے ہو، اور اگر تم دور اندیش ہوتے تو تم نے جو استوار کیا ہے اسے ویران کر دیتے۔

تم باقی رہ جانے والوں کو اپنے دیرینہ کینہ کا پھل دے رہے ہو۔وای ہو ان پر کہ جو تمہارے جرم پر نقصان اور اذیت برداشت کر رہے ہیں۔

میں انہیں ابھی دیکھ رہا ہوں کہ جن کی بہترین بات «اگر اور مگر» کہنا ہے؛ کہتے ہیں «اے كاش کہ ہم »؛ لیکن کاش کے لئے کوئی اثر نہیں ہے۔

تم نے دستِ منعم کا انکار کیا ہے اور اگر تم اس کا شکر کرتے تو خدائے رحمن اور صاحب فضل و احسان تمہیں اس کی جزاء دیتا۔

 

   وليد اسی طرح اس بیابان میں تھا کہ ہشام ہلاک ہو گیا۔ اور جب صبح ہوئی تو اس دن خلافت اس کی تلاش میں آئی، اس نے ابوزبير منذر بن عمر سے کہا: جب سے میرے سر میں عقل و خرد آئی ہے، اس رات سے زیادہ طولانی کوئی رات نہیں دیکھی! میں اپنے ساتھ اس شخص (ہشام) کے سلوک کے بارے میں سوچتا رہا۔ میرے دل میں جوش آ گیا ہے۔ چلو سوار ہو تا کہ کچھ سکون حاصل ہو۔

   وہ سوار ہو کر دو میل تک گئے اور پھر وہ ایک ٹیلہ پر پہنچے تو انہوں نے دور سے گرد و خاک کا مشاہدہ کیا اور کہا: یہ ہشام کے پھیجے ہوئے لوگ ہیں۔ خدا سے ان کے بارے میں خیر و خوبی کی امید کرتے ہیں۔

   پھر دو افراد نمودار ہوئے کہ جن میں سے ایک ابو محمّد سفيانى کا غلام تھا اور دوسرا جَرْدَبہ تھا۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو سواری سے نیچے اتر گئے اور بھاگتے ہوئے اس کی طرف آئے اور اس پر خلیفہ کے عنوان سے درود بھیجا۔ وہ لرز اٹھا اور اس کی زبان بند ہو گئی اور پھر اس نے کہا: کیا ہشام مر گیا ہے؟

   کہا: جی ہاں! ہمارے پاس سالم بن عبدالرحمان کا لکھا ہوا خط ہے۔ جب اس نے خط پڑھا تو اس نے ابو محمّد سفيانى کے غلام سے اپنے دبیر عياض بن مسلم ‏کے بارے میں پوچھا۔

   اس نے کہا: ہشام کی موت سے پہلے تک وہ زندان میں ہی تھا۔ اس نے خزانہ دار کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اسے محفوظ رکھے اور جب ہشام ہوش میں آیا تو اس نے کسی چیز کا تقاضا کیا لیکن اسے وہ چیز دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس نے کہا: خدا کی پناہ! سب خزانہ دار ولید کے ساتھ تھے اور پھر وہ اسی وقت ہلاک ہو گیا۔

   عياض بن مسلم زندان سے آزاد ہوا تو خزانہ کے دروازوں کا بند کر دیا اور اس پر مہر لگا دی اور ہشام کو تخت سے اتار دیا۔ انہی اتنی مدد نہ ملی کی اس دوران پانی گرم کرتے اور اسے دھوتے، ناچار انہوں نے دوسروں سے عاریہ لیا۔ اس کے خزانوں میں کوئی کفن بھی نہیں تھا کہ اسے کفن دیا جاتا۔ ولید نے اشعار کہے:

هتك الأحول المشو               مُ فقد اُرسل المطر

وملكنا من بعد ذا                    كَ فقد أورق الشّجر

فاشكروا اللَّه إنّه                    زائد كلّ من شكر

ایک بدشکون چشم والے شخص نے جان دی اور بارش برسی۔

اس کے بعد ہم بادشاہ بن گئے اور شجر آرزو پر نئے پتے نکل آئے۔

اس خدا کا شکر کرتے ہیں کہ وہ شکر کرنے والوں میں اضافہ کرنے والا ہے۔ 

   بعض کہتے ہیں کہ یہ ولید کا کلام نہیں ہے۔

   جب ولید نے اس کی موت کی خبر سنی تو اس نے عبّاس بن وليد بن عبدالملك بن مروان‏ کو خط لکھا کہ وہ رصافہ آئے اور ہشام کی تمام دولت، اولاد، اس کے کارندوں اور پیروکاروں پر قبضہ کر لے، ما سوائے مسلمہ بن ہشام کے، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے بات کی تھی اور ولید سے مہربانی سے پیش آنے کی سفارش کی تھی۔ عباس رصافہ آیا اور ولید نے جو کچھ کہا تھا اسے انجام دیا اور اپنے کاموں کی رپوٹ ولید کو لکھ کر بھیج دی۔ ولید نے یہ اشعار کہے:

ليت هشاماً كان حيّاً يرى                   مِحْلَبهُ الأوفر قد اُترعا

ليت هشاماً عاش حتّى يرى             مكياله الأوفر قد طُبّعا

كلناه بالصّاع الّذي كاله                    وما ظلمناه به اصبعا

وما أتينا ذاك عن بدعة                      أحلّه القرآن لي أجمعا

اے كاش! ہشام زنده ہوتا اور دیکھا کہ اس کا بڑا پیمانہ اور بزرگ کاسہ بھر گیا ہے۔

اے كاش! ہشام زنده ہوتا اور وہ دیکھا کہ شراب کے پیمانہ اور جام سے مالا مال ہو گئے ہیں۔

ہم اسے اسی جام سے ماپتے جس سے اس نے ہمیں ماپا تھا اور انگلی کے ایک پور کے برابر بھی اس پر ظلم روا  نہ رکھتے۔

اور یہ کام ہم نے بدعت کی صورت میں انجام نہیں دیا؛ درست کو غلط سے جدا کرنے والے (قرآن) نے یہ سب میرے لئے حلال فرمایا ہے۔

   وليد نے ہشام کے دوستوں اور کارندوں پر سختی کرنا شروع کر دی۔ اس کے کارندوں میں سے ایک ہشام کی قبر پر آیا اور روتے ہوئے کہنے لگا: اے سرور خداگرايان! اگر تم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ وليد ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے۔

   وہاں موجود ایک شخص نے کہا: اگر تم یہ جانتے کہ اب (دوزخ میں) ہشام پر کیا بیت رہی ہے تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ تم سر سے پاؤں تک نعمتوں میں غرق ہو کہ جن کا شکر ادا نہیں کر سکتے۔ ہشام تو اپنی مشکلات میں گھرا ہوا ہے وہ تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔

   وليد نے اپنے کارندوں کو طلب کیا اور مختلف شہروں میں اپنے نمائندوں کو خط لکھا اور اس کہا کہ وہ لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیں۔ جب اس کے خطوط ملے تو انہوں نے بیعت لینے کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ مروان بن‏ محمّد نے اسے خط لکھا اور یہ رپورٹ پیش کی کہ اس کے لئے بیعت لے لی گئی ہے اور اب وہ اس کے پاس آنے کا حکم چاہتا ہے۔

   جب وليد کو منصب ملا تو اس نے شام کے اندھے اور لاچار افراد کے لئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا اور انہیں لباس و پوشاک عطا کئے اور ہر ایک کو نوکری دی۔ اور اس نے سب کی تنخواہ میں دس گنا اضافہ کر دیا۔

   اس اضافہ کے بعد اس نے پھر شامیوں کے لئے دس گنا اضافہ کیا۔ اس کے پاس فراوان مہمان آئے اور وہ اس سے جو کچھ چاہتے تھے اس کے بارے میں کچھ اشعار کہتے:

ضمنتُ لكم إن لم تَعُقْني عوائق                  بأنّ سماء الضرّ عنكم ستُقْلَع

سيوشك الحاقٌ معاً وزيادة                         وأعطية منّي عليكم تُبرَّع

مُحرَّمُكم ديوانُكم وعطاؤكم                         به تكتب الكتّاب شهراً وقطبع

میں تمہارے لئے یہ ضمانت دیتا ہوں کہ اگر مجھے روکنے والے روکیں تو تمہارے سروں سے سختی و تنگ دستی کا آسمان اٹھا لیا جائے گا۔

جلد ہی ہمارا الحاق ہو گا اور تم پر کسی کمی کے بغیر بخشش عطا کی جائے گی۔

تمہارے عطا و بخشش اور تمہارے خزانے تمہارے محرم ہیں، ہر مہینہ دبیر اس بخشش کو لکھیں اور اس پر مہر بھی لگائیں۔

   حُلْمُ الوادىّ خنياگر کہتا ہے: میں وليد کے ساتھ تھا کہ جب اس کے لئے ہشام کی موت کی خبر لے کر آئے اور اسے خلافت کے بارے میں خوشخبری سنائی گئی اور اسے مبارک باد دی گئی اور جب اسے خلیفہ کی مہر اور خاص تازیانہ دیا گیا۔کچھ دیر خاموش رہے اور پھر اچانک اس نے کہا: ان اشعار کو ساز و  آواز کے ساتھ میرے لئے پڑھا جائے:

طاب يومى ولذَّ شُرْب السُّلافهْ                وأتانا نعيُّ مَن بالرُّصافهْ

وأتانا البريد ينعي هشاماً                        وأتانا بخاتم للخلافهْ

فاصْطَبَخْنا من خمِرِ عانة صرفاً                ولهونا بِقَيْنَةٍ عرّافهْ

آج میں خوش ہوں اور بہترین شراب پینے کا موقع آ گیا اور ہمارے لئے کسی کی موت کی خوشخبری لائی گئی کی جو رصافہ میں رہتا تھا۔

قاصد آیا اور اس نے ہشام کی موت کے بارے میں بتایا اور اس نے خلافت کی مہر اور انگوٹھی دی۔

ہم نے خالص «عانه» (شراب) سے آغاز کیا اور ہم نے وہ دن آشنا لڑکی کے ساتھ دلبری کے ہنر میں بسر کیا۔

   اس نے قسم کھائی کہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے گا جب تک اس کے لئے یہ اشعار گا کر نہ پڑھے جائیں اور جب تک خوشی سے اس کا جام لبریز نہ ہو جائیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور پوری رات گاتے رہے، پیتے رہے اور کرتے رہے۔

   پھر اسی سال وليد نے اپنے بعد حکومت و فرمانروائى اپنے دو بیٹوں حكَم بن‏ وليد اور عثمان بن وليد سے مخصوص قرار دی اور ان دونوں کو اپنا «اورنگ زيب» ( یعنی ولی عہد) مقرر کیا او حكَم کو سبقت دی اور اس بارے میں اس نے شارسان‏ (خراسان اور عراق کے درمیان) کو خط لکھے۔(1)


1) تاريخ كامل ابن اثير: 3115/7.

 

منبع : معاويه : ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 730
آج کے وزٹر : 36450
کل کے وزٹر : 72293
تمام وزٹر کی تعداد : 129544547
تمام وزٹر کی تعداد : 89952047