حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(2) پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا خسروپرویز پر نفرین کرنا اور اس کا قتل ہونا

(2)

پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم

 کا خسروپرویز پر نفرین کرنا اور اس کا قتل ہونا

   جب عبداللَّه بن حُذافه خسرو پرویز کے دارالملك پہنچے تو انہوں نے اسے پڑھنے  کے لئے مکتوب اشرف (نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط) دیا  اور جب خسرو کو خط کے مطالب کا علم ہوا اور اس نے یہ دیکھا کہ حضرت ‏رسول‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنا نام مبارك اس کے نام سے پہلے لکھا ہے تو وہ غصہ بھڑک اٹھا اور اس نے خط کو پھاڑ دیا اور کہا: 

كرا زهره كه با اين احترامم

نويسد نام خود بالاى نامم

   اور اسی طرح  ہذیان بکتا رہا لیکن اس نے عبداللَّه بن حُذافه کو کچھ نہ کہا اور نہ ہی اس ننے خط کا جواب لکھا۔ جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

فرّق كتابي مَزَّقَ اللَّهُ مُلْكَه.

(خسرو) نے میرے خط کو پھاڑا ہے، خدائے عزّوجل اس کے مُلك کو پارہ پارہ کر دے گا۔

   اور پھر خسرو نے شقاوت و عداوت کی بناء صوبہ یمن میں اپنی جانب سے مقرر  کئے گئے حاکم باذان کو یہ پیغام بھیجا کہ سننے میں آیا ہے کہ حجاز کے لوگوں میں سے کوئی شخص عرب کی سرزمین پر نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے، تم جلد ہی دو لوگوں کو اس کی طرف بھیجو تا کہ وہ اسے گرفتار کر کے میرے پاس پیش کریں۔

   باذان نے كسرى کے حم کی اطاعت کی اور بابويه (بابوه) نامی اپنے خزانچی (جو زيور عقل و شجاعت سے مزيّن تھا) کو خُرّخُسْرَه نامی ایک دوسرے شخص ( جو ظاہری کمالات کا مالک تھا) کے ساتھ بھیجا جب کہ ان دونوں کا تعلق فارس سے تھا۔ باذان نے ان دونوں کو نامزد کیا کہ وہ صوبہ عرب کی طرف جائیں اور آنحضرت کو خسرو پرويز کے سامنے پیش کریں۔ اس بارے میں اس نے رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے نام ایک خط بھی بھیجا اور اس نے بابويه کو آنحضرت کے حالات کے بارے میں تحقیق و تفتیش کرنے کی تاکید بھی کی۔

   انہوں نے اس حکم پر عمل کیا اور وہ دونوں عرب کی طرف روانہ ہو گئے اور جب وہ لوگ طائف کے مقام پر پہنچے تو وہاں ان کی قریش کے کچھ سربراہوں سے ملاقات ہوئی کہ جن میں ابوسفيان اور صَفْوان بن امُيّه وغيرہ شامل تھے، انہوں نے ان لوگوں سے سرور و سردار كائنات عليه افضل التحيّات کے بارے میں پوچھا۔ مشرکین اس بات پر بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے خوشی کے عالم کہا کہ اگر محمّد صلى الله عليه وآله وسلم ان کے سامنے تسلیم نہ ہوئے تو کسری جیسا بادشاہ اس کی دشمنی میں کھڑا ہو گا۔

   باذان کی طرف سے بھیجے ہوئے افراد منازل و مراحل طے کرتے ہوئے سيّد الاوّلین و الٓخرین کی خدمت میں پہنچے تو بابويه نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شہنشاہ یعنی کسری نے باذان کو خط لکھا ہے کہ جو ان کی طرف سے صوبہ یمن کے حاکم ہیں، اور اس خط کا مضمون یہ ہے کہ تمہیں گرفتار کر کے ان کے پاس بھیجا جائے لہذا حاکم باذان نے ہمیں اس کام کے لئے بھیجا ہے کہ ہم تمہیں خسروپرويز کے دارالملك میں پیش کریں۔ اور اگر تم ہمارے ساتھ چلے گئے تو باذان ملک الملوک کو خط لکھے گا کہ تم سے نرمی سے پیش آئے لیکن اگر تم نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا تو تم کسری کی قوت و طاقت اور شان و عظمت کو بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی کیا کیفیت ہے اور وہ تمہیں تمہاری قوم کے ساتھ ہلاک کر دے گا اور تمہارے شہروں کو تباہ و برباد کر دے گا۔ اس لئے باذان نے تمہارے نام خط لکھا ہے کہ تم ان کے حکم کی اطاعت کرو اور اس کی خلاف ورزی کرنے سے گریز کرو۔

   پھر اس نے یمن کے حاکم کا خط سرور معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا۔ آنحضرت ان کی باتیں سننے اور خط پڑھنے کے بعد مسکرائے اور ان دونوں کو اسلام کی دعوت دی۔

   انہوں نے کہا: اے محمّد! اٹھو تا کہ ملك الملوك کے پاس جائیں اور اگر تم نے اس کی خلاف ورزی کی تو شہنشاہ کسی ایک عرب کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے گا۔

  طبع سليم پر یہ بات مخفی نہ رہے کہ بابويه اور خُرّخُسره اگرچہ گستاخانہ انداز میں بات کر رہے تھے اور تکلم کرتے وقت دلیری سے کام لے رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ مجلس کی ہیبت سے بہت متأثر تھے اور خوف کی وجہ سے دونوں کانپ رہے تھے۔

   نیز انہوں نے حضرت رسول خدا ‏صلى الله عليه وآله وسلم سے التماس كی کہ اگر آپ خود نہ چلیں تو باذان کے خط کا جواب ہی لکھ دیں۔

  سرور اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: آج تم سب اپنے گھروں کو جاؤ اور کل آؤ، دیکھتے ہیں مصلحت کیا ہے؟

   جب وہ دونوں قاصد پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی مجلس سے باہر نکلے تو ایک نے دوسرے سے کہا: اگر ہم اس سے زیادہ ان کی مجلس میں ٹھہرتے  تو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں ہم ان کی ہیبت کے وجہ سے ہلاک نہ ہو جاتے۔

   دوسرے شخص نے کہا: اس سے پہلے آج تک کبھی مجھ پر کسی کی ایسی ہیبت طاری نہیں ہوئی تھی، جو آج اس شخص کی مجلس میں ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں تائید الٰہی حاصل ہے اور ان کا عمل خدائی عمل ہے۔

   کہتے ہیں: بابويه و خُرّخُسْره  کے پاس قیمتی سواری تھی اور وہ بیش قیمت لباس پہنے ہوئے تھے، نیز ان کے کمر بند بھی مہنگے تھے ۔ انہوں نے داڑھی منڈوائی ہوئی اور اس انداز میں مونچھیں رکھی ہوئی تھی کہ جس سے ان کے ہونٹ بھی چھپے ہوئے تھے۔

   جب رسول خدا نے انہیں اس حالت اور ایسی شکل  و صورت میں دیکھا تو فرمایا:

ويلكما؛ من أمركما بهذا.

وای ہو تم پر؟ تمہیں کس نے اس شکل و شمائل کا حکم دیا ہے کہ تم داڑھی منڈوا ؤ اور مونچھیں رکھو؟

انہوں نے کہا: ہمارے پروردگار یعنی خسرو پرويز نے اس کا حکم دیا ہے.

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: لیکن میرے پروردگار نے حکم دیا ہے مونچھیں کاٹو اور داڑھی رکھو۔

   بہر حال؛ دوسرے دن باذان کے قاصد جب ملک منّان رسول معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو آپ نے فرمایا:

اپنے آقا یعنی باذان تک یہ خبر پہنچا دو کہ میرے پروردگار نے اس کے ربّ ( کسری) کو قتل کر دیا ہے اور رات کے سات گھنٹے گذرنے کے بعد اس کے بیٹے نے اس پر حملہ کیا اور اس کے شکم کو چیر دیا۔

   وہ رات، منگل کی رات تھی (دس جمادى الأوّل سنه سات ہجری). اور اسی طرح آنحضرت نے باذان کے کارندوں سے فرمایا:

اپنے صاحب سے کہہ دینا کہ عنقریب میرا دين مملكت كسرى میں ظاہر ہو گا اور اگر تم مسلمان ہو گئے تو جو کچھ تمہارے تصرف اور اختیار میں ہے، وہ تمہیں عطا کر دوں گا۔

   انہوں نے کہا: ہم یہ باتیں لکھنا چاہئیں گے کیونکہ آپ کے بارے میں ملک الملوک کے سامنے ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں کہ جن کی وجہ سے اختلافات اور دشمنی ایجاد ہوئی ہے اور اگرچہ ایسی باتیں دشمنی کا باعث بنتی ہیں۔ نبی مکرم اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہ باتیں لکھ لو.

   نیز یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آنحضرت نے خرّخُسره كو کمر بند عطا کیا کہ جس پر سونے اور چاندی کا کام ہوا تھا کہ جو کسی ملک کے سربراہ نے آپ کے لئے تحفہ کے طور پر بھیجا تھا. وہ دونوں قاصد خط کا جواب لئے بغیر ہی وہاں سے رخصت ہو گئے اور مدینہ سے خارج ہو گئے اور پھر منزلیں طے کرتے ہوئے یمن پہنچ گئے۔ انہوں نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم‏ سے جو کچھ سنا تو وہ باذان تک پہنچا دیا اور انہوں نے کہا: اے بادشاہ! ہم بہت سے بادشاہوں کی خدمت میں گئے ہیں لیکن خدا کی قسم ہم نے کسی کی مجلس میں اتنی ہیبت نہیں دیکھی جتنی اس شخص کی مجلس میں تھی۔

   باذان نے کہا: کیا اس کے جاسوس اور محافظ و نگہبان ہیں؟

   انہوں نے کہا: نہیں بلکہ وہ تنہا بازاروں سے گذرتے ہیں۔

   باذان نے کہا: خدا کی قسم! تم ان کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہو، وہ کوئی بادشاہ نہیں ہو سکتے اور میرا یہ خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہیں، لیکن  ہمارے اور ان کے درمیان وہی چیز شرط اور معیار ہے جس کی انہوں نے خبر دی ہے اور اگر ان کی یہ خبر صداقت پر مبنی ہوئی تو بادشاہوں میں سے کوئی بھی ان پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کرنے میں مجھ پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔

   اسی دوران باذان تک خسرو پرویز کے بیٹے شيرويه کا خط پہنچا  کہ جس کا محتوی و مضمون یہ تھا کہ:میں نے کسری کو قتل کر دیا ہے کہ جس طرح وہ فارس کے اشراف اور شخصیات کو بے جرم و خطا اور کسی خیانت کے بغیر قتل کر دیتا تھا اور وہ اس عظیم آبادی میں تفرقہ پھیلاتا تھا۔ اب تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور یمن کے ساتھ ساتھ ان تمام ممالک اور شہروں کے لوگوں سے بھی میری بیعت لو کہ جو تمہارے زیر تصرف ہیں۔ اور اس شخص سے کوئی سروکار نہ رکھو جس نے عرب کی زمین پر نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور جس کے بارے میں کسری نے تمہیں خط لکھا تھا، جب تک اس بارے میں تمہیں کوئی حکم صادر نہ کروں۔

   جب باذان كو اس واقعہ کی صداقت کا علم ہو گیا تو اس نے کسی تأخیر  کے بغیر صدق و اخلاص سے کلمۂ شہادت زبان پر جاری کیا اور اس سرزمین پر یمن اور فارس کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کرنے میں اس کا ساتھ دیا۔

   منقول ہے کہ خُرّخُسره کو رسول مقدس اسلام حضرت محمد‏ صلى الله عليه وآله وسلم نےے كمربند عطا کیا تھا جس کی وجہ سے اسے ذوالمفخره کہتے تھے اور لغت میں مفخره کسی علاقہ کےبادشاہ کو کہتے ہیں اور اب اس کے بیٹوں پر بھی اسی کلمہ کا اطلاق ہوتا ہے. (2762)


2762) تاريخ روضة الصفا: 1442/3.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 763
آج کے وزٹر : 41643
کل کے وزٹر : 57650
تمام وزٹر کی تعداد : 130344746
تمام وزٹر کی تعداد : 90394470