حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(*) جنگ جمل

جنگ جمل

اس روز یعنی 10 جمادى الأوّل سنه 36 ہجری کو واقعۂ جمل رونما ہوا اور اصحاب جمل میں سے تیرہ ہزار اور اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام کے اصحاب میں سے پانچ ہزار افراد قتل ہوئے۔ یہاں اس واقعہ کو اجمالی طور پر بطور مختصر ذکر کرنا مناسب ہے:

جان لو کہ جنگ جمل  طلحه و زبير کی طرف سے شروع ہوئی کہ جنہوں نے بیعت کو توڑا اور عمرہ کرنے کے عنوان سے مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور حميراء يعنى عائشہ  بھی اس وقت مکہ میں ہی تھی۔

عبداللَّه بن عامر؛ عثمان سے پہلے بصرہ کا فرمانروا تھا لیکن عثمان کے قتل کے بعد جب لوگوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی اور آپ نے عثمان بن حنیف کو بصرہ کا فرمانروا قرار دیا تو  عبد اللہ بن عامر بھی بصرہ سے فرار ہو کر مکہ پہنچ گیا تھا اور اس نے طلحه و زبير اور حميراء کی مدد کی.

وہ حمیراء کے لئے عسکر نامی اونٹ لے کر آیا جو اس نے یمن سے دو سو دینار کا خریدا تھا اور اسے بصرہ کی طرف روانہ کر دیا اور جب وہ «حوأب» کے مقام پر پہنچی تو «حوأب» کے کتوں نے اس پر بھونکنا شروع کر دیا اور حميراء کے اونٹ پر حملہ کر دیا. اس عورت نے اس جگہ کا نام پوچھا تو شتربان نے اس سے کہا: یہ «حوأب» ہے.

حميراء نے کلمۂ استرجاع (انا لله و انا الیه راجعون ) اور اسے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کا فرمان یاد آ گیا کہ آپ نے اس واقعہ کی خبر دی تھی اور اسے اس سے خبردار کیا تھا۔ حمیراء نے کہا: مجھے واپس مدینہ لے چلو. ابن زبير اور طلحہ نے پچاس افراد کے ساتھ مل کر گواہی دی کہ یہ حوأب نہیں ہے اور اس شتربان کو اس جگہ کے نام میں غلطی ہو گئی ہے، پو وہ وہاں سے روانہ ہوئے اور بصرہ پہنچ گئے.

الجاحظ نے کہا:

جاءت مع الأشقين في هودج

ترجى إلى البصرة أجنادها

كأنّها في فعلها هرّة

تريد أن تأكل أولادها

جب وہ بصره میں داخل ہوئے تو ایک رات میں انہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جانب سے بصرہ کے حاکم عثمان بن حنيف کے گھر پر حملہ کیا اور انہیں اسیر بنا لیا، ان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا اور ان کی داڑھی نوچ لی. پھر انہوں نے بیت المال کا قصد کیا تو خزانچی  اور دوسرے مأمورین ان کی راہ میں آڑے آئے ، انہوں نے ان سب کو زخمی کر دیا اور ان میں سے ستر افراد کو قتل کر دیا ،نیز انہوں نے «حكيم بن جبله ‏عبدى» کو بھی مظلومہ طور پر قتل کر دیا کہ جو سادات «عبدالقيس» میں سے تھے۔

جب طلحہ و زبیر کے خروج کو چار مہینے گذر گئے تو جناب امیر المؤمنین علی علیہ السلام ان کے شرّ کو دفع کرنے کے لئے سات سو سواروں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے کہ جن میں اہل بدر اور طائفۂ انصار کے لوگ بھی شامل تھے، آپ کی نصرت کے «مدينه» اور «طى» سے بھی لشکر آتے رہے اور آپ سے ملحق ہوتے گئے۔

جب آپ «ربذه» کے مقام پر پہنچے تو آپ نے ابوموسى اشعرى کو خط لکھا (جو اس وقت والیِ کوفہ تھا) کہ وہ لوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کرے لیکن ابوموسى نے لوگوں کو جہاد کے خلاف ورغلایا. جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے «قرطة بن كعب انصارى» کو كوفه کا فرمانروا مقرر فرمایا اور ابوموسى کو خط لکھا کہ:

میں نے تمہیں کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا ہے يابن الحائك! تم نے ہمیں پہلی مرتبہ اذیت نہیں دی بلکہ ہمیں تو تمہاری طرف سے مصیبتوں کا سامنا کرنا ہے۔

یہ اس عمل کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ بعد میں نصبِ حکمین(ابو موسیٰ اشعری اور عمرو عاص) کے موقع پر ابوموسى نے انجام دیا۔ جب اميرالمؤمنين‏ علی عليه السلام «ذيقار» کے مقام پر پہنچے تو آپ نے امام حسن ‏عليه السلام اور جناب عمّارياسر کو كوفہ کی طرف بھیجا کہ وہ لوگوں کو بصريوں سے جہاد کے لئے روانہ کریں، جب وہ کوفہ پہنچے اور انہوں نے سات ہزار کوفیوں کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی نصرت کے لئے روانہ کیا کہ جو  آپ سے ملحق ہو گئے۔ اور آپ بصرہ میں داخل ہو گئے جب کہ ابوايّوب انصارى، خزيمة بن ثابت ذى الشهادتين، ابوقتاده، عمّار ياسر، قيس بن ‏سعد بن عباده، عبداللَّه، قثم فرزندان عبّاس، حسنين‏ عليهما السلام ، محمّد حنفيّه، عبداللَّه ‏جعفر، اولاد عقيل، بنی ہاشم ، مشائخ  بدر اور مہاجرین و انصار آپ کے ساتھ تھے۔

جب جنگ کی تیاریاں ہو گئیں تو اميرالمؤمنين‏حضرت علی عليه السلام نے مسلم مشاجعى کو قرآن کے ساتھ میدان کی طرف بھیجا تا کہ وہ بصریوں کو قرآن کی طرف آنے کی دعوت دیں لیکن بصریوں نے مسلم پر تیر برسائے اور انہیں شہید کر دیا پھر ان کے جنازہ کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں لے جایا گیا، شہید کی ماں اس موقع پر موجود تھی،جنہوں نے اپنے بیٹے کے مرثیہ میں یہ اشعار کہے:

يا ربّ إنّ مسلماً أتاهم

بمصحف أرسله مولاهم

فخضبوا من دمه ظباهم

واُمّه قائمة تراهم

اميرالمؤمنين‏ حضرت علی عليه السلام نے حکم دیا کہ تم میں سے کوئی بھی جنگ اور قتال میں پہل نہ کرے، نیز تیر اور نیزہ وغیرہ کو بروئے کار نہ لائے.

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے اصحاب منتظر تھے کہ آخر کیا ہو گا کہ اچانک «عبداللَّه بن بديل بن‏ ورقاء خزاعى» ميمنہ سے اپنے بھائی کا جنازہ لے کر آئے کہ بصریوں نے انہیں قتل کر دیا ہے اور میسرہ سے بھی ایک شخص کو لایا گیا کہ جو بصریوں کی تیر اندازی کی وجہ سے شہید ہوا تھا۔ عمار یاسر دو صفوں کے درمیان گئے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی تا کہ شاید وہ لوگ گمراہی سے روگراں ہو جائیں لیکن انہوں نے ان پر بھی تیر برسائے۔ عمار یاسر واپس آ گئے اور عرض کیا: یا علی! آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں، جنگ اور قتال کے سوا اس لشکر کو کوئی اور مقصد نہیں ہے۔

على ‏عليه السلام اسلحہ کے بغیر صف سے باہر نکل گئے اور اس وقت آپ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی سواری پر ‏سوار تھے، آپ نے زبير کو پکارا۔ زبير اسلحہ سے لیس ہو کر آپ کے پاس آیا، آپ کے پاس زبیر کے آنے سے حمیراء بہت خوفزدہ ہو گئی اور اس نے کہا: میری بہن اسماء بیوہ ہو گئی. اس سے کہا: ڈرو مت؛ امیر المؤمنین غیر مسلح ہیں۔

حميراء یہ سن کر مطمئن ہو گئی اور جب زبير، حضرت اميرالمؤمنين ‏عليه السلام کے سامنے پہنچا تو آپ نے فرمایا: تم کس لئے مجھ سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلے ہو؟

اس نے کہا: عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے نکلا ہوں۔

فرمایا:ہم میں سے جو بھی قتل عثمان میں شامل تھا خدا سے قتل کر دے۔اے زبیر!کیا تمہیں وہ دن یاد ہے کہ جب حضرت رسول‏ صلى الله عليه وآله وسلم سے تمہاری ملاقات ہوئی جب کہ آنحضرت گدھے پر سوار تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور مجھے سلام کیا ، تم بھی ہنسے اور تم نے کہا:: يا رسول اللَّه؛ على اپنے تکبر سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:علی میں تکبر نہیں ہے، کیا تم انہیں دوست رکھتے ہو؟

تم نے کہا: خدا کی قسم! میں انہیں دوست رکھتا ہوں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تم سے کہا تھا: خدا کی قسم!جلد ہی تم ان سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ستم کرو گے۔

جب زبير نے یہ سنا تو کہا: استغفر اللَّه میں یہ حدیث بھول گیا تھا اور اگر مجھے یہ حدیث یاد ہوتی تو ہرگز آپ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے نہ نکلتا لیکن اب کیا کروں کہ اب تو وقت گزر گیا اور دونوں لشکر مدمقابل آ چکے ہیں اور اگر میں جنگ سے باہر نکل جاؤں تو یہ میرے لئے ننگ و عار ہے.

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:ننگ و عار، نار(آتش جہنم) سے بہتر ہے.

پس زبير وہاں سے واپس چلا گیا اور اس نے اپنے لعین بیٹے عبداللَّه سے کہا: علی نے مجھے وہ بات یاد دلائی ہے جو میں بھول گیا تھا، اب میں ان کے خلاف جنگ سے دستبردار ہو گیا ہوں۔

اس کے بیٹے نے کہا: نہیں؛ خدا کی قسم! تم بنى ‏عبدالمطلب کی تلواروں سے ڈر گئے ہو اور تمہیں حق حاصل ہے: فإنّها طوال حدّ داد تحملها فتية أنجاد.

اس نے کہا: ایسا نہیں ہے؛خدا کی قسم! میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں بلکہ میں نے عار کو نار پر عار کو اختیار کیا ہے۔

پھر اس نے کہا: اے بیٹا! خوف کی وجہ سے میری سرزنش نہ کرو۔ اب تم میرا جلال دیکھو، پس اس نے اپنا نیزہ اٹھایا اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ پر حملہ کیا۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: زبیر سے کوئی سروکار نہ رکھو بلکہ اسے راستہ دو، وہ جنگ کے لئے نہیں آیا۔

پھر زبير میمنہ سے میسرہ کی طرف بڑھا اور پھر قلب لشکر سے ہوتا ہوا عبداللہ کی طرف واپس پلٹ گیا اور کہا: بیٹا! کیا کوئی بزدل اور ڈرپوک شخص ایسا کام کر سکتا ہے جو میں نے کیا؟

   اس کے بعد زبير منصرف ہو گیا اور «وادى السباع» کی طرف چلا گیا اور  اور اس وادی میں «احنف بن قيس» بنی تمیم کے ساتھ موجود تھا۔ کسی شخص نے اسے کہا کہ یہ زبیر ہے۔

اس نے کہا: مجھے زبیر سے کیا سروکار ہے، حالانکہ وہ دو بڑے گروہوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر خود سلامتی کی راہ پر چل دیا ہے۔

پس بنى ‏تميم میں سے کچھ لوگ زبير سے ملحق ہو گئے اور «عمرو بن جرموز» نے ان پر سبقت لی اور زبیر کے پاس چلا گیا اور جب زبیر نماز میں مشغول ہوا تو عمرو نے اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا اور ایک قول کے مطابق اس نے اسے سوتے وقت قتل کیا اور پھر وہ زبیر کی تلوار اور انگوٹھی لے کر امير المؤمنين ‏عليه السلام  کے پاس آیا اور ایک قول کے مطابق وہ زبیر کا سر بھی لایا تھا.

امیر المؤمنین على ‏عليه السلام نے زبير کی تلوار ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا:

سيف طالما جلى الكرب عن وجه رسول اللَّه ‏صلى الله عليه وآله وسلم.

اس تلوار نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے چہرے سے غم و اندوه کو برطرف کیا ہے۔

بیشک زبیر کوئی ضعیف اور کمزور شخص نہیں تھا للكنه الحين ومصارع السوء وقاتل ابن ‏صفيّه في النار.

منقول ہے کہ جب «عمرو بن جرموز» نے آتش جہنم کی بشارت سنی تو یہ اشعار پڑھے:

أتيت عليّاً برأس الزبير

وقد كنت ارجوبة الزلفة

فبشّر بالنار قبل العيان

وبئس البشارة ذى التحفة

لسيان عندي قتل الزبير

وضرطة عنز بذي الجحفة

زبير پچہتر سال کی عمر میں قتل ہوا اور اس کی قبر «وادى السباع» میں ہے۔ مروان بن الحكم نے طلحہ پر تیر چلایا کہ وہ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا اور وہ بصرہ میں مدفون ہے۔

جنگ جمل میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لشکر کا علم آپ کے فرزند «محمّد» کے پاس تھا.آپ نے «محمّد» کو حکم دیا کہ وہ لشکر پر حملہ کریں اور چونکہ اہل بصرہ «محمّد» کے مقابلہ میں تیر برسا رہے تھے اور «محمّد» منتظر تھے کہ تیر کم ہو جائیں تو اس وقت حملہ کریں. امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے «محمّد» سے فرمایا: «احمل بين الاسنة فان للموت عليك جنة»، پس «محمّد» نے حملہ كیا اور پھر تیروں اور نیزوں کے درمیان رک گئے. امیر المؤمنین علی علیہ السلام ان کے پاس آئے اور «فضربه ‏بقائم سيفه وقال أدركك عرق من أمك».

پس آپ نے «محمّد» سے عللم لیا اور شدید حملہ کیا، امیر المؤمنین علیہ السلام کے لشکر نے بھی بہت بڑا حملہ کیا کہ جس نے بصرہ کے لشکر کو اس طرح سے اڑا دیا کہ جیسے آندھی خاک کو اڑا دیتی ہے۔ اس روز «كعب بن سور قاضى» نے ہاتھ میں قرآن پکڑا ہوا تھا اور اس نے طائفہ «بنوضبه» کے ساتھ مل کر «حميراء» کے اونٹ کا محاصرہ کیا ہوا تھا جب کہ «بنوضبه» یہ رجز پڑھ رہے تھے:

نحن بنو ضبة أصحاب الجمل

تنازع الموت إذا الموت نزل

والموت أحلى عندنا من العسل

اس واقعہ میں مہار شترتھامنے کی وجہ سے «بنوضبه» کے ستر ہاتھ قلم ہو گئے، ان میں سے جس کا ہاتھ بھی قلم ہو جاتا تو وہ مہار شتر کو چھوڑ دیتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا مہار شتر تھام لیتا، وہ اس اونٹ کو جس قدر بھی زخمی کرتے لیکن وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو جاتا یہاں تک کہ آخر میں اس کے اعضاء کو زخموں سے چور چور کر دیا، اس پر تلواروں سے وار کئے گئے ، اس وقت اہل بصریوں کو شکست ہو گئی اور جنگ کا اختتام ہو گیا۔

اميرالمؤمنين‏ علی عليه السلام آئے اور آپ نے «حميراء» کے ہودج (اس زمانہ میں خواتین ہودج میں سفر کرتی تھیں ہودج ایسی ڈولی نما چیز تھی جس کے اردگرد پردہ لگا ہوتا تھا اور اسے اونٹ پر رکھ دیا جاتا تھا) پر کسی چیر سے مارا اور فرمایا: اے حميراء! کیا پيغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہیں حکم دیا تھا کہ میرے خلاف جنگ کرنے کے لئے نکلو؟ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہیں یہ حکم نہیں دیا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھو اور باہر نہ نکلو؟ خدا کی قسم! ان لوگوں نے یہ انصاف نہیں کیا کہ جنہوں نے اپنی عورتوں کو پردہ میں مستور رکھا اور تمہیں باہر لے آئے۔

پس «محمّد ابن ابى‏بكر» نے اپنی بہن کو ہودج سے باہر نکالا۔اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے فرمایا:اسے «صفيه بنت الحارث بن ابى‏ طلحه» کے گھر لے جاؤ اور یہ واقعہ اس مہینہ کی دس تاریخ کو پنجشنبہ کے دن سنہ ۳۶ ہجری میں بصرہ کے مشہور مقام «حريبة» میں پیش آیا.

«زيد بن صوحان» اپنے دو بھائیوں «سبحان خطيب» اور «صعصعه» کے ہمراہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے اور آپ کا علم «سبحان» کے پاس تھا اور جب «سبحان» شہيد ہو گئے تو «زيد» نے علم پکڑ لیا اور جب «زيد» شہيد ہو گئے تو «صعصعه» نے علم تھام لیا اور وہ «معاويہ» کے زمانے تک زندہ تھے اور پھر «كوفه» میں وفات پا گئے اور جب «زيد» زمین پر گرے تو حضرت على ‏عليه السلام ان کے سرہانے آئے اور فرمایا:

«رحمك اللَّه يا زيد كنت خفيف المونة عظيم المعونة».

اے زيد؛ خدا تم پر رحمت کرے کہ دنیاوی تعلقات میں تمہارا حصہ کم اور دین میں تمہارا حصہ اور امداد بہت زیادہ ہے۔

پھر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام «بصره» میں داخل ہوئے اور آپ نے ایک خطبہ دیا کہ جس کے کچھ کلمات یہ ہیں:

يا جند المرأة يا أتباع البهيمة رغافا جبتم وعقر فانهرمتم أخلاقكم دقاق ‏وأعمالكم نفاق و دينكم زيغ وشقاق ومائكم اجاج وزعاق

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دوسرے خطبوں میں بھی بارہا اہل «بصره» کی مذمت فرمائی ہے.

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے جنگ سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے عفو و درگذر سے کام لیا اور صلح کی راہ پر چلتے ہوئے «عبداللَّه ‏بن زبير»، «وليد بن عقبه»، «اولاد عثمان» اور تمام بنی امیہ کو معاف کر دیا اور ان سے درگذر فرمائی، حسنین علیہما السلام نے «مروان حكم» کی سفارش کی تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس سے بھی درگذر فرمائی اور اسے قتل کرنے سے امان دی اور «حميراء» کو خوش اسلوبی سے «مدينه» کی طرف بھیج دیا اور یہ «عمروعاص» کے اقوال میں سے ہے کہ اس نے «عائشه» سے کہا: میں سے چاہتا تھا کہ تم جنگ ‏جمل میں قتل ہو جاتی۔ عائشہ نے کہا: آخر کس لئے؟ «عمرو» نے کہا: اس لئے کہ تم اپنی موت آپ مر جاتی اور جنت میں چلی جاتی اور ہمیں علی علیہ السلام کی برائی اور بدگوئی کرنے کا بہترین بہانا میسر آ جاتا.(1)


1) وقايع الأيّام: 239.

 

منبع: معاويه ج ...  ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 691
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 61213
تمام وزٹر کی تعداد : 130015368
تمام وزٹر کی تعداد : 90187835