حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(2) مخدرهٔ علیا حضرت زینب سلام الله علیہا کا علم و دانش

(2)

مخدرهٔ علیا حضرت زینب سلام الله علیہا کا علم و دانش

علم و دانش انسان کے افضل کمالات میں سے ہے اور انسان کی اشرف صفات دانش اور ادب ہے۔ خداوند عالم نے علم و دانش سے انبیاء کی تکمیل کی اور انہیں ہدایت بشریت کے لئے بھیجا اور خاص بندوں کو رفیع درجات تک پہنچایا، جیسا کا خداوند متعال نے فرمایا:( یَرْفَعِ اَللّٰهُ اَلَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَ اَلَّذِینَ أُوتُوا اَلْعِلْمَ دَرَجٰاتٍ (

اور خداوند کریم نے فرمایا: ( شَهِدَ اَللّٰهُ أَنَّهُ لاٰ إِلٰهَ إِلاّٰ هُوَ وَ اَلْمَلاٰئِکَهُ وَ أُولُوا اَلْعِلْمِ قٰائِماً بِالْقِسْطِ )

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( هَلْ یَسْتَوِی اَلَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَ اَلَّذِینَ لاٰ یَعْلَمُونَ ) 

جی ہاں! علم؛ حقائق کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور سعادت و رضائیت الٰہی تک پہنچنے کے اسباب فراہم کرتا ہے، اس لئے رسول خدا صلّی اللّه علیه و اله و سلّم نے ان دو افراد ( کہ جن میں سے ایک عالم اور دوسرا عابد تھا) کے بارے میں فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادنی رجل من امتی۔ نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:میری اہلبیت؛ خاندان علم ہے اور جس طرح بچہ دودھ سے اپنی غذا پاتا ہے اسی طرح میری امت میری اہلبیت سے علم ودانش اور فکر کی غذا پاتی ہے اور جو ان کے چشمۂ علم و فضیلت سے زیادہ بہرہ مند ہو اس کا باطن زیادہ روشن ہو جائے گا.

اور یہ جان لینا چاہئے کہ جس طرح شیخ جعفر نقدی نے بھی فرمایا ہے کہ جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کا علم و دانش دوسرے تمام انسانوں کے علم کی مانند نہیں ہے کہ جو اکتساب اور تحصیل کے ذریعہ حاصل ہوا ہو بلکہ آپ کے علوم کا منبع نبوت کے غیبی علوم تھے اور آپ امامت کے باب علم و دانش سے سیراب ہوئیں۔ آپ کی معلومات ہم جیسی نہیں ہیں بلکہ آپ کی معلومات کا وسیلہ الہامات خفیه، افاضات نبویه اور تعلیمات علویه ہیں۔ آپ نے ان ذرائع سے علم و دانش اخذ کیا کہ جن تک مادی دنیا کے معلمین کی رسائی بھی نہیں ہے۔ آپ کا علم قوت ربّانی کے وسیلہ تھا کہ جن کا منبع و سرچشمہ علوم غیبی تھے۔ اس بی بی نے اپنے جد، پدر اور دو بھائیوں کی تہذیب نفس سے خود تعلیم و تربیت حاصل کی۔ مخدرهٔ عصمت و طہارت زینب سلام الله علیہا اور آپ کے علم کی مثال لوہے اور مقناطیس کی مانند ہے اور اس مخدرۂ عصمت نے اپنی اس مقناطیسی کشش سے قدس نبوی و علوی اور حسنی و حسینی کے ذرّات کو اپنی طرف جذب کیا اور مقام عظیم پر فائز ہوئیں۔ اور چونکہ مبداء فیض میں بخل نہیں ہے لہذا آپ کا وجود علم و دانش کے نور سے منور تھا اور آپ نے اپنی استعداد تام  سے استفادہ کیا اور آپ مقام و مرتبۀ سامی ‌ذو حظ علیم اور امامت و ولایت کے خاص رتبہ پر فائز ہوئیں۔ آپ ریاضیات حقۀ شرعیه، عبادات جامعه، شرائط حقیقیه اور خداوند عالم کے ذکر کی پابندی سے کشف و شہود کے مقام تک پہنچیں اور حدیث میں وارد ہوا ہے: (من اخلص للّه تعالی عمله اربعین صباحا انفجرت ینابیع الحکمه فی قلبه و من قلبه علی لسانه .(

اور ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ جو دنیا میں زاہد ہو خداوند متعال اسے دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اس کے دل میں خدا حکمت ڈال دیتا ہے کہ جس کے ذریعہ اس کی زبان نطق کرتی ہے (و اثبت اللّه الحکمه فی قلبه و انطق بها لسانه)۔ نیز ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: (لیس العلم فی السماء فینزل علیکم و لا فی تخوم الارض فیخرج لکم تخلقوا باخلاق الروحانیین یظهر لکم) 

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مخدرۂ طاہرہ حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے پوری زندگی خالصتاً رضائے الٰہی کے لئے قیام کیا اور آپ ہمیشہ قرب خدا اور وجہِ الٰہی  کے لئے گامزن رہیں. کس طرح آپ کے قلب پر علوم کے منابع ظاہر نہ ہوں اور کس طرح یہ علوم  آپ کے قلب سے زبان پر جاری نہ ہوں اور بالخصوص اس  ہستی کی زبان پر کہ جس کے معلم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوں، جن کی تربیت علی علیہ السلام جیسی ذات کنے کی ہو، اور جسے فاطمۂ زہراء نے پستان عصمت و طہارت سے دودھ پلایا ہو۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا فصاحت و بلاغت، علم و عمل اور بیان کی قدرت رکھتی تھیں۔ پس یہ جائے تعجب و استبعاد نہیں کہ جو کچھ فاضل دربندی نے نقل کیا ہے کہ مخدرۂ علیا حضرت زینب علیہا السلام نے علم اور فصاحت و بلاغت اپنے بابا سے حاصل کی تھی۔ پس کچھ اصحاب جیسے سلمان، ابو ذر اور بعض تابعین جیسے رشید ہجری، اور میثم تمار؛ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اسرار رکھتے تھے اور یہ دربار یزید میں آپ کے خطبہ کے شاہد ہیں۔

اور ایک شعر میں کہا گیا ہے کہ حضرت زینب؛ آسیه و مریم بنت عمران سے افضل ہیں۔ اور  حضرت سجاد علیه السلام کا کلام کہ جس میں آپ نے فرمایا: « یا عمه انت بحمد اللّه عالمه غیر معلمه و فهمه غیر مفهمه» یہ اس مدعیٰ کی بہترین دلیل ہے اور اسی طرح آنحضرت کے حالات بھی اس کے بہترین دلائل ہیں.(1)


(1) ریاحین الشریعه ج 3 ص 55.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 1791

 

ملاحظہ کریں : 924
آج کے وزٹر : 29321
کل کے وزٹر : 89361
تمام وزٹر کی تعداد : 129385733
تمام وزٹر کی تعداد : 89872625