حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) ولادت حضرت زینب سلام الله علیها

(1)

ولادت حضرت زینب سلام الله علیها

کتاب لسان الواعظین اور حزن المؤمنین کے مؤلف جناب حاجی شیخ محمد علی کاظمی اپنی کتاب سرور المؤمنین کی جلد زینبیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا حاملہ تھیں اور آپ کے بطن مطہر میں علیا مخدرہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا تھیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی سفر پر تھے۔ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی تو حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے بابا سفر پر گئے ہوئے ہیں لہذا آپ بتائیں کہ اس بچی کا کیا نام رکھیں؟ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:میں اس کام میں آپ کے بابا پر پہل نہیں کر سکتا، صبر کریں تا کہ آنحضرت جلد سفر سے واپس آ جائیں گے. جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ؛ خداوند متعال نے فاطمہ کو بیٹی عطا  فرمائی ہیں، آپ اس کا نام معین فرمائیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ کی اولاد میری اولاد ہے لیکن ان کے امور پروردگار عالم سے وابستہ ہیں لہذا وحی کے منتظر رہیں، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: خدا نے آپ کی خدمت میں سلام پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس بچی کا نام زینب رکھیں چونکہ یہ نام لوح محفوظ پر لکھا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کو لایا جائے، آپ نے انہیں چوما اور فرمایا کہ میں حاضرین اور غائبین سے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اس بیٹی کی حرمت کا پاس رکھا جائے بیشک یہ خدیجۂ کبریٰ علیہا السلام کی مانند ہیں.

کتاب بحر المصائب میں  کتاب ریاض المصائب سے ذکر کرتے ہیں کہ حضرت صدیقۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا حاملہ تھیں اور آپ کے بطن مطہر میں جناب زینب سلام اللہ علیہا تھیں تو روز بروز آپ مختلف قسم کے غم و اندوہ سے دچار تھیں اور جب حضرت زینب علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمۂ طاہرہ علیہا السلام کے حجرہ میں تشریف لائے اور اسی وقت امام حسین علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے بابا جان! بیشک خداوند متعال نے مجھے بہن عطا فرمائی ہے.

یہ بات سن کر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے، حضرت امام حسین علیہ السلام نے جب اس حالت غم کا مشاہدہ کیا اور اپنے بابا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو عرض کیا: اے بابا! اس گریہ اور غم و اندوہ کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: اے میرے نور چشم! تمیں جلد ہی اس کا سبب معلوم ہو جائے گا۔ اسی وقت رب جلیل کی جانب سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللّه! اس بچی کا زینب رکھیں اور پھر جبرئیل رونے لگے۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و اله و سلّم نے رونے کا سبب دریافت کیا تو جبرئیل نے عرض کیا: اس بچی کو اس دنیا میں زندگی کے آغاز سے اختتام تک رنج و مصائب، بلاؤں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی یہ آپ کے غم میں غمگین ہوں گی، کبھی یہ ماں کا ماتم  کریں گی، کبھی یہ اپنے بابا کی مصیبت میں غمگین ہوں گی، کبھی اپنے بھائی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے فراق میں غمزدہ ہوں گی اور ان سب سے بڑھ کر یہ مصائب کربلا اور نوائب دشت نینواء سے دچار ہوں گی، یہاں تک کہ ان کے بال سفید ہو جائیں گے اور کمر خمیدہ ہو جائے گی.

جب یہ خبر کشف ہوئی تو اہلبیت اطهار علیہم السلام غمگین اور اشکبار ہوئے۔ پس رسول خدا صلی الله علیه وآله نے حضرت زینب علیہا السلام کے چہرے پر اپنا چہرہ رکھا جب کہ آپ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ جب صدیقۀ طاہره سلام الله علیہا کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو عرض کیا:یا ابتاه! یہ گریہ کس لئے؟ خداوند متعال آپ کی آنکھوں کو نہ رلائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ! جان لو کہ میرے اور تمہارے بعد اس بچی کو بلاؤں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس پر طرح طرح کی مصیبتیں آئیں گی۔ یہ سن کر جناب فاطمۂ زہراء علیہا السلام نے عرض کیا: اے بابا جان! میری بیٹی زینب پر رونے والوں کو کیا ثواب عطا کیا جائے گا (فقال یا بضعتی و قره عینی) .فرمایا: اے میرے پارۂ قلب اور اے میری نور چشم! بیشک جو بھی اس پر اور اس کے مصائب پر گریہ کرے تو اس کے بھائی حسین علیہ السلام پر رونے والے کی طرح کا ثواب دیا جائے گا۔ پھر آپ نے ان کا نام زینب رکھا (1).


(1) ریاحین الشریعه ج 3 ص 37.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 1790

 

ملاحظہ کریں : 959
آج کے وزٹر : 57508
کل کے وزٹر : 89361
تمام وزٹر کی تعداد : 129442106
تمام وزٹر کی تعداد : 89900812