حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۱) جنگ جمل کے بعد عائشہ کو مدینہ واپس بھیج دینا

(۱)

جنگ جمل کے بعد عائشہ کو مدینہ واپس بھیج دینا

   مسعودى کہتے ہیں: اميرالمؤمنين علی علیہ السلام نے عبداللَّه بن عبّاس کو عائشه کے پاس بھیجا تا کہ اسے مدینہ منورہ واپس چلے جانے کا حکم دیں. عائشہ کی اجازت کے بغیر عبداللَّه بن عبّاس اس کے پاس گئے، اس کا سرہانہ کھینچ کر بیٹھ گئے.

   عائشه نے ان سے کہا: ابن عبّاس تمہیں جس سنت کا پابند کیا گیا تھا تم نے اس بارے میں غلطی کی اور میری اجازت کے بغیر میرے پاس آئے ہو اور میری اجازت کے بغیر میرے بستر پر بیٹھے ہو.

   ابن عبّاس نے جواب میں کہا: البتہ اگر تم اس گھر میں ہوتی کہ جہاں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے تمہیں چھوڑا تھا تو میں ہرگز تمہاری اجازت کے بغیر نہ آتا اور تمہارے حکم کے بغیر تمہارے بستر پر نہ بیٹھتا.لیکن اب اميرالمؤمنين نے مجھے بھیجا ہے اور حکم دیا کہ میں تم سے یہ کہوں کہ جلدی مدینہ واپس چلی جاؤ اور واپس جانے  کے لئے تیار ہو جاؤ.

   عائشه نے کہا: میں تمہاری بات ماننے سے انکار کرتی ہوں اور تم نے جس کا حکم بیان کیا ہے میں اس کی مخالفت کرتی ہوں.

   ابن عبّاس؛ اميرالمؤمنين ‏علی عليه السلام کے پاس گئے اور آپ کو بتایا کہ عائشہ نے آپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے انہیں ایک مرتبہ پھر عائشہ کے پاس بھیجا اور اس مرتبہ کہا: تمہارے بارے میں امیر المؤمنین کا یہ ارادہ ہے کہ تم واپس چلی جاؤ. اس بار عائشہ نے امام کے حکم کو تسلیم کیا. اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے اس کے لئے ایک قافله تیار کیا اور دوسرے دن اپنے بیٹوں حسن، حسین، اپنی پوری اولاد، اپنے بھائیوں اور بنی ہاشم کے ساتھ اس کے پاس آئے اور جب عائشہ کی نگاہ ان پر پڑی تو اس نے اپنے ہمراہ موجود عورتوں کے ساتھ مل کر کہا: اے دوستوں کو قتل کرنے والو.

   اميرالمؤمنين ‏عليه السلام نے جواب میں فرمایا: اگر میں دوستوں کو قتل کرنے والا ہوتا تو اس گھر میں موجود ہر شخص کو قتل کر دیتا. اور آپ نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا کہ جس میں مروان بن حكم، عبداللَّه بن زبير، عبداللَّه بن عامر اور بنی امیہ کا ایک گروہ چھپ کر بیٹھا تھا!

  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ آنے والے افراد نے یہ بات سن کر قبضۂ شمشير پر اپنے ہاتھ رکھ لئے کیونکہ وہ ڈر گئے تھے کہ کہیں اچانک وہ کمرے سے باہر نکل کر ان پر حملہ نہ کر دیں.

   ان کے درمیان ہونے والے گفتگو کے بعد عائشہ نے کہا: جو کچھ ہوا سو ہوا؛ لیکن اب میں یہ چاہتی ہوں کہ میں تمہارے ساتھ رہوں اور تمہارے دشمنوں سے جنگ کے لئے حاضر رہوں.

   اميرالمؤمنين‏ علی عليه السلام نے فرمایا: نہیں؛ بلکہ اسی گھر میں واپس چلی جاؤ کہ جہاں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے تمہیں چھوڑا تھا.

   پھر عائشہ نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کے بھانجے عبداللَّه بن زبير کو امان دیں کہ جسے اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے قبول کر لیا. حسن اور حسين‏ عليهما السلام نے بھی مروان کے بارے میں بات کی تو امام نے اسے بھی امان دے دی.(1)

   اس کے بعد عائشہ نے کہا:بخدا! اے فرزند بو طالب میرے غم و اندوہ میں اضافہ ہو گیا ہے اور میں چاہتی تھی کہ اس طرح خروج نہ کروں اور تم جانتے ہیں کہ اس کام میں مجھے کیسی کیسی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے.

   پھر مروان بن حكم نے کہا: اے امير المؤمنین! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کی بیعت کروں اور آپ کی خدمت میں رہوں.

   امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: لیکن کیا تم نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی اور پھر اسے توڑ دہا۔ مجھے تمہاری بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہاتھ؛ یہودی کا ہاتھ ہے.

   اگر وہ اپنے ہاتھ سے میری بیعت کرے گا تو اپنے پاؤں سے پیمان شکنی کرے گا. اس کی بادشاہی مختصر مدت کے لئے ہو گی کہ جیسے کتا اپنی ناک کو چاٹتا ہے اور وہ چار حکمرانوں کا باپ ہے۔ مسلمانوں کو اس کے اور اس کے بیٹوں کی وجہ سے خونی دور کا سامنا کرنا پڑے گا.

  مسعودى کے بقول جب عائشه مدينه کی طرف روانہ ہو گئی تو اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے اس کے بھائی عبدالرحمن (محمّد) بن ابى بكر کو بنی عبد قیس اور ہمدان(۲) کے تیس مردوں اور بیس عورتوں کو اس کے ساتھ بھیجا اور انہیں اس کی خدمت پر مأمور کیا اور جب عائشہ مدینہ پہنچ گئی تو اس سے پوچھا گیا: تمہارا سفر کیسا رہا اور علی علیہ السلام نےے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا؟

   اس نے جواب دیا: خدا کی قسم! فرزند ابو طالب نے بے شمار بخشش اور فروان عطا سے نواز لیکن انہوں نے میرے ساتھ مردوں کو بھیجا اور مجھے یہ کام پسند نہیں ہے.(3)

   عائشہ کے ساتھ آنے والی عورتوں نے جب اس کی یہ بات سنی تو انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور جب اسے اس بات کا علم ہوا تو وہ سجدہ میں گر گئی اور کہا: خدا کی قسم! اے ابو طالب کے بیٹے! تم نے اپنی عزت و کرامت اور بزرگواری میں اضافہ کیا ہے اور میں یہ پسند کرتی ہوں کہ کاش میں نے کبھی یہ خروج نہ کیا ہوتا حتی اگر مجھ پر سخت بلائیں اور مصیبتیں بھی آ جاتیں.(4) (5)


1) مسعودى نے مروج الذهب (378/2) میں کہا ہے: على‏ عليه السلام نے وليد بن عقبه، عثمان کے بیٹوں، بنى‏ اميّه میں سے دیگر افراد اور سب لوگوں کو امان دی اور جنگ کے دن یہ اعلان کیا کہ جو کوئی بھی اپنا اسلحہ پھینک دے اور اپنے گھر واپس چلا جائے وہ امان میں ہے.

  جنگ کے بعد عبدالقیس میں سے ایک عورت باہر آئی اور وہ اپنے مقتولین میں گھوم رہی تھی کہ اچانک اسے اس  کے دو بیٹوں کے جنازے ملے، اس کا شوہر اور بھائی بھی علی علیہ السلام کے بصرہ آنے سے پہلے قتل ہو گئے تھے۔ اس نے اپنے بیٹوں کے جنازے دیکھ کر یہ اشعار پڑھے:

شهدت الحروب فشيبتني

فلم أر يوماً كيوم الجمل

أضرّ على مؤمن فتنة

واقتله لشجاع بطل

فليت الظعينة في بيتها

وليتك عسكر لم ترحل

2) مسعودى نے کہا ہے: اميرالمؤمنين علی ‏عليه السلام نے عورتوں کو عمامہ پہنا دیا اور ان کی کمر سے تلواریں باندھ دیں اور ان سے کہا: عائشہ کو یہ پتہ نہ چلے کہ تم سب عورتیں ہو، اپنے چہرے چھپا لو کہ گویا تم لوگ مرد ہو.

3) مستدرك احقاق الحق میں عوام بن حوشب کی اسناد سے کہتے ہیں: میرا چچا زاد (جو بنى‏ حارث بن تيم اللَّه سے ہے اور جسے مجمع کا نام دیا گیا ہے) نے کہا: ہم اپنی ماں کے ساتھ عائشہ کے پاس گئے اور میری ماں نے اس سے پوچھا: تم جمل کے دن اپنے خروج کو کس طرح دیکھتی ہو؟ اس نے کہا: یہ خدا کی تقدیر تھی۔ میری ماں نے اس سے علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا: تم نے اس شخص کے بارے میں پوچھا ہے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور ایک دن میں نے على، فاطمه، حسن اور حسين (عليهم السلام) کو دیکھا کہ پيغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انہیں جمع کرکے اپنی آغوش میں بٹھایا اور پھر فرمایا: یہ میری اہلبیت اور میرے خاص ہیں، خدایا! ان سے رجس کو دور فرما اور انہیں پاکیزہ قرار دے. نك: احقاق الحقّ: 546/2.

4) ارشاد: 257/1، بحار الأنوار: 230/32. مصنّف نے بحار الأنوار میں ذکر ہوانے والے خطبہ سے کچھ مطالب کا اضافہ کیا ہے کہ جو حقیقت میں امام على ‏عليه السلام کے مکتوب سے مربوط ہیں اور جو آپ نے اصحاب جمل پر کامیابی اور فتح بصرہ کے بعد اہل کوفہ کے لئے لکھے تھے۔ گویا اس باب میں مصنف کو اشتباہ ہوا ہے.

5) نبرد جمل: 133.

 

منبع: معاويه ج ...  ص ...

 

ملاحظہ کریں : 951
آج کے وزٹر : 3044
کل کے وزٹر : 68799
تمام وزٹر کی تعداد : 130036619
تمام وزٹر کی تعداد : 90198465