حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حقیقت کو درک کرنےکے لئے کوشش کریں

حقیقت کو درک کرنےکے لئے  کوشش کریں

حقیقت تک پہنچنے اور حق کے حصول  کے لئے کوشش کرنی چاہئے  اور اس راہ کی مشکلات اور  تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے۔کیونکہ سعی و کوشش اور مشکلات میں صبر اور انہیںبرداشت کئے بغیرحقیقت کو درک نہیں کر سکتے۔

مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

«لا يدرَكُ الحَقُّ إلّا بِالجِدّ و الصَّبر؛ جدیّت اور صبر کے بغیر حقیقت درک نہیں کر سکتے۔1
اس بنا پر حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش اور جدیّت کی ضرورت ہے  تا کہ ہماری تمام تر فعالیت اور کام خاندان نبوت علیھم السلام سے صادر ہونے والے دستورات کے مطابق ہو۔

اس بناء پر اگر آپ اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنا چاہیں اور اس چیز کو جاننا چاہیں جسے ہر کوئی درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس راہ میں کوشش کریں۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:
«العَمَلَ، العَمَلَ، ثُمَّ النِّهايةَ،! النِّهايةَکام!کام!پھر نہایت!نہایت!!».2
جس نے ابھی تک قدم نہ بڑھایاہو یا کسی دوسرے راستے کی طرف چل دیاہو تو وہ کس طرح حقیقت کو درک کر سکتاہے  اور کس طرح اپنی منزل  اور مقصد تک پہنچ سکتا ہے؟

هر كه چون سايه گشت خانه‌نشين
تابش ماه و خور كجا يابد؟
و آن كه پهلو تهي كند از كار
سره سيم و زر كجا يابد؟
گر هنرمند گوشه‌گير بود
كام دل از هنر كجا يابد؟
وآن‌كه در بحر، غوطه مي‌خورد
سلك درّ و گهر كجا يابد؟

اس بناء پردل کو دریاسے ملانے کی کوشش کریں کیونکہ نجات کی کشتی دریا میں ہی ہے ۔یقین

ریںکہ جو دریائے محبت میں نجات کی کشتی کا ناخدا ہو وہ کبھی بھی بلاؤں کے گرداب میں غرق نہیں ہو گا ۔

اب ہم جو واقعہ ذکر کر رہے ہیں ،وہ بھی انہی میں سے ایک ہے:

مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں۔اس نے کہا:

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیںکہ  جہاں رسول اکرم ۖ کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا ۔پہلے والے لوگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا نہ کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اور خاص کر جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ  ہے ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔ میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرمۖ کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوںنے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی لے لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:اطاعت،چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوںنے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمر اکرمۖ کی رسالت اور آپۖ کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا:  آپ  کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرتۖ کے خلیفہ ہیں۔

میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرمۖ کی زوجہ ہیں۔

ہم نے کہا:ایسے نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبرۖ کا جانشین وہ ہے کہ رسولۖ کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔

جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔

اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروانسرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میںآئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں۔ہماری اس کے علاوہ ہمارا اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔

ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان ۖ  اور آنحضرتۖ کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبرۖ کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میںنے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفید عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوںنے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

انہوںنے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میںنے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہابہت سے فرقے ہیں۔

انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

انہوںنے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

انہوںے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکں ان میں سے سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔

میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

انہوں نے فرمایا: انہوں نے اپنے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین جاؤ  اور پھر فرمایا:تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟کیونکہ گفتگو کے دوران  میں نے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔

مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟

میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیںہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا وقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی؟..۳.

وہ کچھ مدت تک شیخ محمد حسن کے مہمان رہے اور شیعیت کے حیات بخش عقائد سے آشنا ہوئے۔

جی ہاں!وہ اپنے پورے ذوق و شوق اور رغبت سے حق کی جستجو کے لئے نکلے جس کے لئے انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ،اپنا گھر  اور وطن چھوڑا لیکن انہوں نے اپنی کوشش و جستجو کو جاری رکھا اور آخر کارانہیں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عنایات سے منزل مل گئی۔

اب بھی بہت سے افراد حقیقت تشیع اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے خیالی امور کی وجہ سے وہ لوگ صادقانہ طور پر پرچم تشیع کے زیر سایہ نہیں آ تے اور اپنے مذہب سے دور رہتے ہیں ۔ہم نے یہ جو واقعہ ذکر کیا ہے یہ ایسے ہی افراد کے لئے ایک نمونہ ہے ۔انہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے:

نابرده رنج گنج ميسر نمي‌شود
مزد آن گرفت جان برادر كه كار كرد

اگر وہ حقیقت کے متلاشی ہوں  تو انہیں ہر قسم کی زحمتیں اٹھانا ہوں گی اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا اور کل کے انتظار اور مستقبل کی  آرزو میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔
حضرت علي عليه السلام نے  فرمایا:
اِيّاكُمْ وَ الْاِيْكالَ بِالْمُنَ فَإنَّها مِنْ بَضائِعِ الْعَجَزَةِ.4
اس کام سے  پرہیز کرو کہ اپنا کام آرزؤں کے سپرد کر دو ۔کیونکہ آرزؤں کی وجہ سے کام کو چھوڑ دینے کا سرمایہ عجز و ناتوانی ہے۔

هر كه دانه نفشاند به زمستان در خاك
نااميدي بوَد از دخل به تابستانش

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے عاشق اپنی امیدوں اور آرزؤں کو چھوڑکر حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو اور کوشش کریں ۔کیونکہ سعی وکوشش عظیم لوگوں کا عملی نعرہ اور حقیقی اسلام کی نشانی ہے۔

کام اور کوشش کے ذریعے اپنے ارادہ کو پختہ اور مضبوط کریں ۔آپ کی کوشش آپ کی شخصیت اور ارادے کو بیان کرتی ہے ۔کام اورکوشش کریں تا کہ بیکاری کے نتیجہ میں توہمات اور شیاطین کے نفوذ سے بچ سکیں۔
------------------------------------------
1. نهج البلاغه، خطبه 176.
2. بحارالانوار، ج 34، ص 132؛ شيخ طوسي، امالي، ج 1، ص 113.
3. معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:175(مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی)
4. امالي طوسي، ج 2، ص 19، بحارالانوار، ج 71، ص 188.

 

 منبع: کتاب كار و تلاش، رمز موفقيت ، کامیابی  کے  اسرار: ج2 ,114 صفحه 

 

ملاحظہ کریں : 2661
آج کے وزٹر : 9590
کل کے وزٹر : 92721
تمام وزٹر کی تعداد : 131490955
تمام وزٹر کی تعداد : 91161400