حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) حضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت اور دفن کی کیفیت

(1)

حضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت اور دفن کی کیفیت

مرحوم شیخ صدوق ''عیون اخبار الرضا'' میں نقل ہوا ہے:ابا صلت ہروی کہتے ہیں:میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا:

اے ابا صلت!اس قبّہ میں کہ جہاں ہارون کی قبر ہے،داخل ہو اور اس کے چاروں جانب سے خاک اٹھا کے لے آؤ۔

میں گیا اور خاک اٹھا کر لے آیا اور چونکہ میں آنحضرت  کے سامنے کھڑا ہوا تھا آپ نے فرمایا:

یہ خاک مجھے دو۔میں جو خاک دروازے کے پاس سے اٹھائی تھی ،آنحضرت علیہ السلام کو دے دی۔

آپ نے مجھ سے وہ خاک لے کر سونگھی اور پھر زمین پر پھینک دی اور فرمایا:

یہاں میرے لئے قبر کھودی جائے گی اور پھر ایک بڑا پتھر نکلے گا کہ اگر خراسان کے سب لوگ اسے نکالنا چاہیںتواسے نہیں نکال پائیں گے۔

اس کے بعد جو خاک پاؤں اور سر کے نزدیک سے لایا تھا اس کے بارے میں بھی اسی طرح فرمایا اور پھر فرمایا:

وہ دوسری خاک مجھے دو کہ وہ میری تربت میں سے ہے۔

پھر فرمایا:یہاں میرے لئے ایک گڈھا کھودیںگے تو تم انہیں حکم دینا کہ سات پلّے نیچے تک کھودیں تا کہ میری قبر ظاہر ہو جائے اور اگر وہ لحد کھودنے کے علاوہ قبول نہ کریں تو انہیں حکم دینا کہ وہ لحد کو دو  زراع اور ایک وجب قرار دیں پھر خدا جس قدر چاہے گا اسے وسیع فرمائے گا۔

جب وہ ایسا کریں گے تو تمہیں میرے سر کے قریب ایک رطوبت دکھائی دے گی  اور میں تمہیں جوباتیں تعلیم دوں،اسے کہو۔وہاں سے پانی نکلے گا کہ قبر پانی سے بھر جائے گی اور تمہیں اس میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں دکھائی دیں گی،تم انہیں وہ نان کھلانا کہ جو میں تمہیں ان کے لئے  دوںگا۔جب اس میں سے کچھ بھی باقی نہ بچے تو وہاں سے ایک بڑی مچھلی نکلے گی کہ جو ان سب کو نگل جائے گی  یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گی۔پھر وہ چھپ جائے گی اور جب وہ چھپ جائے  تو تم پانی میں اپنا ہاتھ ڈالنا اور وہ کلمات کہنا کہ جو میں تمہیں سکھاؤں۔پانی نیچے چلا جائے گا اور  اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔یہ کام صرف  مامون کی موجودگی میں ہی انجام دینا۔

پھر فرمایا :اے ابا صلت!کل میں اس فاجر کے پاس جاؤں گا اگر میں اس سے واپسی پرننگے سر نکلوں تو مجھ سے بات کرنا اور اگر واپسی پر میرا سر ڈھکا ہو تو مجھ سے بات نہ کرنا۔

ابا صلت کہتے ہیں:کل جب صبح ہوئی تو امام  نے اپنا لباس زیب تن کیااور محراب میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے اسی حالت میں مامون کے  غلام داخل ہوئے  اور آنحضرت سے کہا کہ امیر المؤمنین نے آپ کو بلایا ہے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے پاؤں میں نعلین پہنے اور ردا اوڑھ کر چل دیئے ۔میں آنحضرت کے پیچھے چلتا گیا یہاں تک آنحضرت مامون کے پاس پہنچ گئے۔اس کے سامنے طشت میں انگور رکھے ہوئے تھے اور کچھ دیگر پھلوں کے طشت بھی تھے اس کے ہاتھ میں انگوروں کا ایک گچھا تھا کہ جس میں سے اس نے کچھ کھائے تھے۔جب اس نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا تو کھڑا ہو گیا اور آنحضرت  سے گلے ملا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آنحضرت کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔پھر انہیں انگور کا ایک گچھا دیا اور کہا:

یابن رسول خدا؛میں نے اس سے بہتر انگور نہیں دیکھے۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا؛بہشت سے بہتر انگور کہاں ہوں سکتے ہیں۔

اس نے کہا:آپ ان میں سے کچھ کھائیں۔حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا:

مجھے اس سے معاف ہی رکھیں۔

مامون نے کہا:ان سے گریز کیسا۔کون سی چیز آپ کو یہ کھانے سے روک رہی ہے۔شاید آپ مجھے متہم کر رہے ہیں؟اس نے انگور کا ایک گچھا اٹھایا  اور اس سے کچھ انگور کھائے ۔پھر اس نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیئے اور آنحضرت نے ان میں سے تین انگور تناول فرمائے اور باقی رکھ دئے۔پھر وہاں سے اٹھے ۔ مامون نے کہا:کہاں جا رہے ہیں؟آپ نے فرمایا:

جہاں تم نے مجھے روانہ کیا ہے۔

پھر آپ نے اپنی ردا سر پر رکھی اور باہر نکل آئے ۔لہذا امام رضا علیہ السلام کے حکم کے مطابق میں نے ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ وہ گھر میں داخل ہو گئے۔

پھر آپ نے فرمایا:گھر کے دروازے بند کر دو۔

گھر کے دروازے بند کر دیئے اور وہ بستر پر چلے گئے۔میں گھر کے صحن میں غمزدہ حالت میں کھڑا تھا  کہ اچانک حضرت امام رضا علیہ السلام سے مشابہ ایک خوبصورت جوان داخل ہوا میں ان کی طرف آگے بڑھا اور عرض کی کہ آپ کیسے آئے حلانکہ دروازے بھی بند ہیں۔فرمایا:

جو مجھے ایک ہی لمحہ میں مدینہ سے یہاں لایا اسی نے مجھے بند دروازے سے گھر میں بھی داخل کیا۔

میں نے کہا:آپ کون ہیں؟انہوں نے مجھ سے فرمایا:

اے ابا صلت! میں تم پر خدا کی حجت ہوں،میں محمد بن علی ہوں۔

پھر وہ اپنے والد گرامی کے پاس گئے اور مجھے بھی حکم دیا کہ میں بھی ان کے ساتھ آنحضرت کے پاس جاؤں ۔جب حضرت امام رضا علیہ السلام کی نظر اپنے فرزند پر پڑی تو فوراً اپنی جگہ سے اٹھے  اور ان سے گلے ملے انہیں اپنے سینہ سے لگا لیا اور ان کی پیشانی کو چوما۔پھر انہیں اپنے پستر کے پاس لے گئے ۔حضرت محمد بن علی علیہ السلام نے انہیں پکڑا ہوا تھا اور انہیں چوم رہے تھے اور ان کے والد گرامی آہستہ سے ان سے کچھ مطالب بیان کر رہے تھے کہ میں جنہیں نہیں سن سکا۔برف سے زیادہ سفید ی حضرت امام رضا علیہ السلام کے لبوں میں دیکھی کہ جسے محمد بن علی علیہ السلام نے اپنی زبان سے چوسا اور پھر انہوں نے اپنے ہاتھ دونوں لباس اور سینہ کے درمیاں داخل کئے اور چڑیا کی طرح کوئی چیز نکالی اور ابو جعفر اسے نگل گئے اور اس وقت حضرت امام رضا علیہ السلام اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

ابو جعفر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:

اے ابا صلت؛اٹھو اور میرے بابا کو غسل دینے کے لئے جگہ تیار کرو اور میرے لئے صندوق خانہ سے پانی لے آؤ۔

میںنے عرض کیا:نہ ہی تو غسل دینے کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی گھر کے صندوق میں پانی۔

فرمایا:میں تمہیں جو حکم دے رہا ہوں اسے انجام دو۔

میں گھر کے صندوق میں داخل ہوا تو میں نے وہاں پانی اور غسل دینے کی جگہ دیکھی میں نے وہ اٹھایا اور باہر لے آیا میں نے اپنا لباس لٹکا دیا تا کہ انہیں غسل دوں انہوں نے مجھ سے فرمایا:

اے ابو صلت! تم پیچھے ہٹ جاؤ؛کیونکہ تمہارے علاوہ کوئی اور میری مدد کے لئے ہے۔

پس وہ آنحضرت کے بدن مطہر کوغسل دے رہے تھے اور پھر فرمایا:

پھر صندوق خانہ میں داخل ہو ا ور وہ زنبیل  میرے لئے لے کر آؤ کہ جس میں کفن اور حنوط ہے۔ میں گھر کے صندوق میں داخل ہوا تو میں نے وہاںایسا زنبیل دیکھا کہ جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔میں نے وہ اٹھایا اور آنحضرت کے لئے لے آیا۔انہوں نے اپنے بابا کے بدن مطہر کو کفن دیا اور ان پر نماز ادا کی ۔اس کے بعد فرمایا:

میرے لئے تابوت لے آؤ۔

عرض کیا:کیا  بڑھئی کے پاس جا کر تابوت بنواؤں؟

فرمایا:گھر کے صندوق میں جاؤ اور وہاں سے تابوت لے آؤ۔جب میں وہاں داخل ہوا تو وہاں تابوت رکھا ہوا تھا کہ اس جیسا تابوت میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

انہوں اپنے بابا کا جسد مطہر اٹھا کر تابوت میں رکھا  اور ان کے پاؤں صاف کئے اور پھر دو رکعت نماز پڑھی ۔ابھی تک نماز تمام نہیں ہوئی تھی کہ تابوت اوپر اٹھا اور چھت کو شگاف کر کے باہر نکل گیا اور چلا گیا۔

میںنے عرض کیا:یابن رسول خدا!اگر ابھی مامون ہمارے پاس آئے اور حضرت امام رضا علیہ السلام کا مطالبہ کرے تو ہم کیا کریں؟فرمایا:

خاموش ہو جاؤ وہ واپس آجائے گا،اے ابا صلت ؛کوئی ایسا پیغمبر نہیں ہے کہ جو مشرق میں وفات پائے اور اس کا وصی مغرب میں وفات پائے۔مگر یہ کہ خداوند ان کی ارواح اور اجساد میں جمع کرے۔

ابھی تک انہوں نے حدیث تمام نہ کی تھی کہ چھت میں شگاف ہوا اور تابوت نیچے زمین پر آگیا،ابو جعفر علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کا بدن مطہر تابوت سے باہر نکالا اور ان کے بستر میں رکھ دیا کہ گویاابھی تک غسل و کفن نہ دیا ہو۔پھر انہوں نے مجھ سے فرمایا:

اے ابا صلت !اٹھو اور مامون کے لئے دروازہ کھولو۔

میں نے دروازہ کھولا تو مامون اور اس کے غلام باہر دروازے پر کھڑے تھے،وہ غمگین حالت میں روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے انہوں نے اپنے گریبان چاک کئے ہوئے تھے اور اپنے سر پر مارتے ہوئے کہہ رہے تھے:واسیداہ،اے ہماے آقا؛آپ کی مصیبت نے ہمیں دردمندو سوگوارکر دیا۔پھر وہ گھر میں داخل ہوا اور آنحضرت کے سر کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور  اس نے کہا:ان کی تجہیز کا انتظام کرو اور پھر اس نے قبر کھودنے کا حکم دیا ۔میں نے وہی جگہ کھودی ۔سب چیزیں ویسے ہی ظاہر ہوئیں کہ جیسے حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا تھا۔

اس کے بعض ہمنشینوں نے اس سے کہا:کیا ان کا عقیدہ نہیں تھا کہ وہ امام ہیں؟

اس نے کہا:ہاں،امام نہیں ہوتا مگر یہ کہ لوگوں سے پہلے اور ان سے آگے آگے۔پھر اس نے حکم دیا کہ قبلہ میں ان کے لئے قبر کھودی جائے۔

میں نے کہا:انہوں نے مجھے حکم دیا تھا کہ سات پلے نیچے جائیں اور ان کے لئے قبر کھودیں۔

اس نے کہا:ابا صلت جو حکم دے وہی انجام دو ،اس کے لئے قبر کھودو اور لحد تیار کرو۔

جب مامون کے لئے رطوبت ،مچھلیاں اور دوسری چیزیں ظاہر ہوئیں تو اس نے کہا: علی بن موسی الرضا علیہ السلام پہلے اپنی زندگی میں مجھے عجائب دکھاتے تھے اور اب وفات کے بعدبھی  مجھے عجائب دکھا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ جو وزیر تھا ،اس نے مامون سے کہا:کیا تم جانتے ہو کہ حضرت امام رضا علیہ السلام اس کام سے تمہیں کون سی خبر دینا چاہتے ہیں؟

اس نے کہا:نہیں

وزیر نے کہا:وہ خبر دے رہے ہیں کہ اے بنی عباس،تمہاری حکومت کی مدت زیادہ سے زیادہ ان مچھلیوں کی طرح ہے ۔تمہاری مہلت ختم ہوگی،تم لوگوں کے آثار منقطع ہو ں گے،تمہاری حکومت ختم ہو گی اور خدا ہم میں سے ایک شخص کو تم پر مسلط کرے گا کہ جو تم سب کو نابود کرے گا۔

اس نے کہا:سچ کہا ایسے ہی ہے۔پھر اس نے کہا :اے ابا صلت!تم نے ان کے ساتھ جو کلام کیا وہ مجھے بھی سکھاؤ۔

میںنے اسے کہا:خدا کی قسم میں اسے اسی لمحہ بھول گیا ہوں اور میں سچ کہہ رہا ہوں۔

مامون نے مجھے قید کرنے کا حکم دے دیا ۔حضرت امام رضا علیہ السلام دفن ہو گئے اور میں ایک سال تک قید میں رہایہاں تک کہ میرا سینہ تنگ ہو گیا،ایک رات صبح صادق تک بیدار رہا اور خداوند کریم کو دعاؤں کے ذریعہ پکارا  اور محمد و آل محمد علیھم السلام کو یاد کیا اور خدا سے ان کے توسل و حق سے دعاکی کہ مجھ پر آسانی مرحمت فرما۔میری دعا ابھی تمام نہ ہوئی تھی کہ ابو جعفر محمد بن علی علیہ السلام آئے اور فرمایا:

اے ابا صلت!کیا تمہارا سینہ تنگ ہو گیا ہے؟

عرض کیا:جی ہاں!خدا کی قسم

فرمایا:اٹھو اور باہر جاؤ!

پھر انہوں نے ان بند اور زنجیروں پر مارا اور انہیں کھول دیا اور میرا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے باہر لے آئے۔نگہبان اور غلام مجھے دیکھ رہے تھے لیکن ان میں کچھ کہنے کی طاقت نہیں تھی اور وہاں سے نکل گئے۔پھر فرمایا:

 خدا کی پناہ میں جاؤ اور جان لو کہ تم ہر گز اس تک نہیں پہنچ پاؤگے اور وہ تم تک نہیں پہنچنے پائے گا۔

ابا صلت کہتے ہیں:اس واقعہ کے بعد میں نے آج تک مامون کو نہیں دیکھا.(1)

 


1) عيون اخبار الرضا عليه السلام: 244/2، و نظير آن در الثاقب في المناقب: 489.

 

منبع: صحيفه رضويه ص 267

 

 

ملاحظہ کریں : 809
آج کے وزٹر : 21917
کل کے وزٹر : 21751
تمام وزٹر کی تعداد : 128950998
تمام وزٹر کی تعداد : 89565487