حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(2) عمر اور حديث قلم و دوات کی طرف اشارہ

(2)

عمر  اور حديث قلم و دوات کی طرف اشارہ

ابن عباس (خدا ان سے راضی و خوشنود ہو) کہتے ہیں:میں عمر کی خلافت میں اس کے پاس گیا اور اس کے لئے کھجور کے پتوں سے بنی ہو ایک ٹوکری تھی جس میں ایک صاع کھجوریں تھیں۔ اس نے مجھے کھجوریں کھانے کی دعوت دی، میں نے صڑف ایک کھجور کھائی اور عمر نے وہ کھجوریں کھانا شروع کی تو ساری کھجوریں کھا لیں۔ اور پھر اس نے اپنے ساتھ رکھے ہوئے برتن سے پانی پیا اور پاس پڑے ہوئے بستر پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ اس نے خدا کی حمد کی اور چند بار اسے دہرایا اور پھر مجھ سے کہا: اے عبداللَّه کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا مسجد سے.کہا: تم نے اپنے چچا کے بیٹے کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ میں نے سوچا کہ اس کی مراد عبداللَّه بن‏ جعفر ہے. میں نے کہا: اس حال میں کہ جیسے ہم ایک ساتھ کئی سال تک کھیلتے تھے۔ اس نے کہا: میری مراد وہ نہیں ہیں بلکہ میری مراد سالار اور تمہارے بزرگ اهلبيت ہے. میں نے کہا:میں نے انہیں اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ بالٹی سے فلاں کے باغ میں پانی دے رہے تھے اور اسی حال میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔  اس نے کہا: اے عبداللَّہ !میں تم سے جو سوال پوچھنے لگا ہوں اگر تم نے اس کا جواب دے دیا تو میں تمہارے لئے قوی اونٹ کی قربانی دوں گا کیونکہ وہ سوال مجھ سے مخفی ہے؛ کیا اب میں ان کے دل میں خلافت کے مسئلہ میں کوئی چیز باقی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا:کیا وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کی‏ خلافت کی نص و تصريح فرمائی ہے؟ میں نے کہا: ہاں اور میں تمہارے لئے بھی یہ بات بیان کر دوں کہ میں نے اپنے بابا سے اس بارے میں پوچھا کہ جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ عمر نے کہا: ہاں! پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کی خلافت کے بارے میں بیان کیا لیکن اس طرح سے بیان نہیں کیا کہ جو حجت کو ثابت کر دے اور کوئی عذر باقی نہ چھوڑے (!) ہاں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بارے میں سوچ رہے تھے اور آپ اپنی بیماری کے عالم میں ان کے نام کی تصریح کرتنا چاہتے تھے لیکن میں نے اسلام سے محبت اور اس کی حفاظت(!) کے لئے اس کام کی مخالفت کی اور اس گھر کے خدا کی قسم! قریش ہرگز علی کے گرد جمع نہ ہوتے اور اگر علی خلیفہ بن جاتے تو عرب ہر طرف سے ان پر حملہ کر دیتے  اور پیمان توڑ دیتے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ سمجھ گئے کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے میں اس سے آگاہ ہوں تو آپ نے اس کے اظہار سے گریز کیا اور خدا نے بھی مقدر شدہ چیز پر امضاء کرنے سے گریز کیا۔

کتاب تاریخ بغداد کے مؤلف احمد بن ابی طاہر نے اپنی کتاب میں اس روایت کو مسند کی صورت میں ذکر کیا ہے.(3033)


3033) جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 190/5.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 782
آج کے وزٹر : 20614
کل کے وزٹر : 21751
تمام وزٹر کی تعداد : 128948393
تمام وزٹر کی تعداد : 89564184