حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) حديث دوات و قلم

(1)

حديث قلم و دوات

یحيى بن حمّاد نے ابوعَوانه، سليمان بن اعمش، عبداللَّه بن عبداللَّه،  سعيد بن ‏جُبير اور ابن عبّاس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کو پنجشنبہ کے دن شدید درد تھا۔

کہتے ہیں: ابن عبّاس رونے لگے اور کہا: پنجشنبه کا دن اور کیسا پنجشنبه کا دن ‏ہے. پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کا درد اور بیماری شدت اختیار کر گئی ہے اور فرمایا:

قلم و دوات اور ورق لے کر آؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسا نامہ لکھ دوں کہ جس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو۔

کہتے ہیں:وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں سے ایک نے کہا: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم هذيان بول رہے ہیں!(2004) پھر کسی نے کہا وہ جو مانگ رہے ہیں وہ لے آئیں؟

فرمایا: اب اس بات کے بعد؟ اور پھر انہوں نے قلم و ورق طلب نہ کیا۔

سفيان بن عُيينة نے از ابن ابو نُجَيْح  کے ماموں سليمان بن ابو مسلم ، سعيد بن جُبَيْر اور ابن عبّاس سے نقل کیاہے کہ وہ کہتے تھے کہ ابن عبّاس نے کہا: پنجشنبه کا دن اور یہ کیسا پنجشنبه کا دن ہے. کہ اس دن پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آُ نے فرمایا:

میرے لئے ورق اور قلم و دوات لاؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسا نامہ و نسخہ لکھوں کہ ہرگز گمراہ نہ ہو۔

حاضرین نے ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کیں حالانکہ کسی پیغمبر کے حضور میں سرگوشی کرنا جائز نہیں ہے۔بعض نے کہا:محمّد صلى الله عليه وآله وسلم کو کیا ہو گیا ہے وہ ہذیان بول رہے ہیں؟! ان سے پوچھو کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور جب انہوں نے اپنی بات دہرائی تو آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو( یعنی یہاں سے چلے جاؤ) میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو۔

آپ نے تین موارد میں وصیت فرمائی: پہلی یہ کہ مشرکین کو جزيرة العرب باہر نکال دو۔ دوسری یہ کہ آنے والے گروہوں اور نمائندوں کو اسی طرح انعام و پاداش دو کہ جس طرح میں انعام دیتا تھا اور تیسرے مورد کے بارے میں آپ کے خاموشی اختیار فرمائی اور میں نہیں جانتا کہ کیا آپ نے اس مورد کو بھی بیان فرمایا اور میں( ابن عباس) یہ بھول گیا ہوں کہ کیا آپ نے عمداً خاموشی اختیار فرمائی تھی۔

محمّد بن عبداللَّه انصارى نے قرّة بن خالد، ابوالزبير اور جابر بن عبداللَّه انصارى سے ‏نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم اپنی مرض الموت میں فرمایا:ورق لے کر آؤ تا کہ امت کے لئے ایسا نسخہ لکھا جائے کہ پھر ہرگز نہ کوئی گمراہ ہو اور نہ کسی کو گمراہ کرے لیکن گھر بھی سرگوشیاں اور نامعقول باتیں شروع ہو گئیں اور عمر بن خطاب نے بھی نامعقول باتیں کیں تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اپنے پاس سے بھگا دیا۔

حَفْص بن عمر حَوْضىّ؛ عمر بن فضل عبدىّ، نُعَيْم بن يزيد، علىّ بن ابى‏ طالب ‏عليه السلام سے نقل کرتے ہیں:

جب پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی حالت نازک ہو گئی تو فرمایا:اے علی! میرے لئے اونٹ کے شانہ کی ہذی(2005) لاؤ تا کہ اس میں ایک ایسی چیز لکھوں کہ میری امت میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو۔ اور میں ڈر گیا کہ اگر میں یہاں سے اٹھوں تو کہیں آپ کی رحلت نہ ہو جائے اور آپ کا سر مقدس میرے بازو پر تھا لہذا میں نے کہا: ایک ذراع کے برابر صحیفہ کو حفظ کر لوں گا اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے نماز ، زکات، غلاموں اور کنیزوں کے بارے میں بیان کیا اور شہادتین کا حکم دیا کہ خدا یگانہ ہے اور محمد اس کے عبد اور رسول ہیں؛ اور بدن سے روح پرواز کر گئی جو بھی شہادتین کہے اس کے بدن پر آتش حرام ہو گی۔

حجّاج بن نُصير نے مالك بن مِغْوَلْ، طلحة بن مصرِّف، سعيد بن جُبير اور ابن ‏عبّاس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: پنجشنبه اور کیسا پنجشنبه تھا.

کہتے ہیں: گویا ہم اب بھی ابن عباس کے آنسو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ جو ان کے چہرے پر جاری تھے۔ اور کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے اونٹ کے شانہ کی ہڈی لے کر آؤ اور قلم و دوات لاؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسا خط لکھوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو۔

بعض نے کہا: رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم هذيان بول رہے ہیں!

محمّد بن عمر (واقدى)؛ هشام بن سعد، زيد بن اسلم سے اور ان کے والد سے  اور عمر بن‏ خطّاب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے: ہم پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں تھے ،ہمارے اور عورتوں کے درمیان ایک پردہ تھا. رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

مجھے سات مشک پانی سے غسل دیا جائے اور قلم و دوات کے ساتھ ایک صفحہ لے کر آؤ تا کہ تمہارے لئے ایک خط لکھوں (لکھنے کا حکم دوں) کہ جس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔

عورتوں نے کہا: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم جو طلب کر رہے ہیں تم لوگ وہ لے آؤ.

عمر کہتا  ہے: میں نے کہا: خاموش ہو جاؤ کہ تم لوگوں کا یہ عالم ہے کہ جب یہ بیمار ہوں تو آنسو بہاتی ہو اور جب سالم ہوں تو ان کی گردن پر سوار ہوتی ہو۔ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

یہ عورتیں تم سے بہتر ہیں.

محمّد بن عمر (واقدى)؛ ابراهيم بن يزيد، ابوالزبير، اور جابر سے نقل کرتے ہیں کہ: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے رحلت کے وقت ایک صفحہ مانگا تا کہ ایسا نسخہ لکھیں کہ امت نہ تو گمراہ ہو اور نہ کوئی اسے گمراہ کرے لیکن پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے سامنے سخت اور تند لہجہ میں بات کی گئی اور پھر آنحضرت نے اس سے گریز فرمایا۔

محمّد بن عمر (واقدى) ؛ اُسامة بن زيد ليثىّ اور معمّر بن راشد سے اور وہ زُهرى سے، عبيداللَّه بن عبداللَّه بن عُتْبة، اور ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے:رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے احتضار  کے موقع پر کچھ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں موجود تھے کہ جن میں عمر بن خطّاب بھی شامل تھا. پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: آؤ تم لوگوں کے لئے ایسی تحریر لکھوں کہ اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔

عمر نے کہا: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم پر درد اور بیماری کا غلبه ہو چکا ہے۔ تمہارے پاس قرآن ہے اور یہی قرآن کتاب خدا ہمارے لئے کافی ہے!

گھر میں موجود لوگوں میں اس بارے میں اختلاف ہو گیا اور بعض نے کہا:لے کر آؤ تا کہ وہ ہمارے لئے لکھ دیں، اور بعض کہہ رہے تھے: عمر کی بات ٹھیک ہے۔ جب اختلافات شدید ہو گئے اور تند و تیز باتیں کہ جانے لگیں تو اس چیز نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کو بہت غمگین کیا اور فرمایا: میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔

عبيداللَّه بن عبداللَّه کہتے ہیں: ابن عبّاس نے کہا: کیسی مصیبت تھی اور اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں تھی کہ لوگ وہ اس تحریر کے لکھے جانے کی راہ میں حائل ہو گئے اور ایک دوسرے سے سخت اور شدید اختلافات کئے۔

محمّد بن عمر (واقدى) نے  ابراهيم بن اسماعيل بن ابوحبيبه، داود بن حُصين، عكرمه اور ابن عبّاس سے نقل کیا ہے کہ: پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم اپنی مرض الموت میں فرمایا:

میرے لئے دوات اور کوئی صفحہ لے کر آؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسی تحریر لکھوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔

عمر نے کہا: فلاں شہر اور روم کو فتح کرنے کے لئے کون ہو گا اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم اس وقت تک فوت نہیں ہو سکتے کہ جب تک ہم ان شہروں کو فتح نہ کر لیں اور اگر پیغمبر فوت ہوگئے تو ہم ان کے منتظر رہیں گے کہ جس طرح بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے منتظر رہے۔

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی زوجہ زینب نے کہا: ان کی بات سنو کیا تم لوگ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی وصیت اور عہد کو نہیں سن رہے ؟مگر وہ لوگ تند گوئی میں ہی مصروف رہے اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: یہاں سے اٹھ جاؤ. پس وہاں سے اٹھ کر باہر چلے گئے اور اسی وقت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم‏ رحلت فرما گئے (ان پر خدا کا درود و سلام ہو ) اور ان کی آل پر درود و سلام ہو.(2006)


2004) اہلسنت بھی معتقد ہیں کہ یہ بات عمر نے کہی تھی۔ اس بارے میں قاضى عيّاض نے كتاب «شفا» میں اس کے لئے بہانہ جوئی اور عذر خواہی کی کوشش کی ہے لیکن انہوں نے کوئی قانع کنندہ جواب نہیں دیا. م.

2005) کاغذ کی کمی کی وجہ سے مطالب اونٹ کے شانوں اور کھال وغیرہ پر لکھے جاتے تھے.

2006) طبقات: 230/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 772
آج کے وزٹر : 2710
کل کے وزٹر : 49009
تمام وزٹر کی تعداد : 129010568
تمام وزٹر کی تعداد : 89595288