حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۳) جناب سلمان؛ سقیفہ کے بعد

(۳)

جناب سلمان؛ سقیفہ کے بعد

کتاب الثاقب فی المناقب میں وارد ہوا ہے: سلمان فارسى‏ رحمه الله کہتے ہیں:

  رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے بعد ایک دن اپنے گھر سے باہر آیا ، میں نے امير مؤمنان‏ على‏ عليه السلام کو دیکھا تو آپ نے فرمایا:

يا سلمان! جفوتنا بعد وفاة رسول اللَّه ‏صلى الله عليه وآله وسلم.

اے سلمان! رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد ہم پر ستم روا رکھا۔

عرض كیا: اے میرے حبيب!اے اميرالمؤمنین! آپ جیسی ذات پر یہ مخفی نہیں ہے (آپ جیسی ذات پر ستم روا نہیں ہے) مگر یہ کہ مجھ پر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کا غلبہ ہو گیا ہو جو آپ کی زیارت اور دیدار میں کوتاہی کا باعث بنا.

پھر اميرالمؤمنین على‏ عليه السلام نے فرمایا:

يا سلمان! ائت إلى منزل فاطمة عليها السلام فإنّها إليك مشتاقة، وتريد أن‏ تتحفك بتحفة قد أتحفت بها من الجنّة.

اے سلمان!اب فاطمه‏ عليها السلام کے گھر کی طرف جاؤکہ وہ تمہارے دیدار  کی مشتاق ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کے لئے جنت سے خدا کی طرف سے جو ہدیہ آیا ہے وہ تمہیں عطا کریں.

سلمان کہتے ہیں: (میں اس بارے میں حیران ہوا) عرض كیا: اے‏ امير المؤمنین! کیا رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد جناب ‏فاطمه ‏عليها السلام کے لئے جنت سے یہ ہدیہ پہنچا ہے؟

فرمایا: ہاں، اے سلمان!

   سلمان کہتے ہیں:میں تیزی سے فاطمه ‏عليها السلام کے گھر کی طرف روانہ ہوا، دروازہ پر دستک دی. جناب فاطمۂ زہرا علیہا السلام کی خادمہ جانب فضّه آئیں اور مجھے اندر آنے کی اجازت دی، میں حضرت فاطمه عليها السلام کی خدمت میں شرفياب ہوا۔ آپ نے بیٹھ کر عبا اوڑھ لی اور مجھے دیکھ کر فرمایا:

اے وفات کے بارے میں سوچ رہی تھی، مجھ پر غم و اندوہ  طاری تھا ، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے گھر کے دروازہ کو بند کیا، اور پھر اچانک گھر کا دروازہ کھل گیا جب کہ کسی نے اسے کھولا نہیں تھا، میں نے چار سلمان! بیٹھ جاؤ اور (جو کچھ کہہ رہی ہوں اس کے بارے میں) غور کرو، جان لو کہ میں کل اسی جگہ بیٹھی ہوئی رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی عورتوں کو دیکھا کہ جو میرے پاس آئیں  ،وہ اس قدر حسین اور خوبصورت تھیں کہ کسی دیکھنے والے نے ایسی خوبصورتی نہیں دیکھی ہو گی۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو میں کھڑی ہوئی اور ان سے ناآشنائی کا اظہار کیا اور ان سے کہا: کیا تم اہل مدینہ میں سے ہو یا اہل مکہ میں سے؟

انہوں نے کہا: ہم نہ تو اہل مدینہ ہیں اور نہ اہل مکہ حتی کہ ہم اہل زمین بھی نہیں ہیں بلکہ ہم حور العین ہیں۔ اے بنت پیغمبر خدا! ربّ العالمین نے ہمیں آپ کی جانب بھیجا کی تا کہ ہم آپ کو آپ کے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی جانسوز رحلت کے سلسلہ میں تسلی دیں۔

سیدۂ نساء العالمین حضرت فاطمه زهرا عليها السلام فرماتی ہیں:

میں نے ان میں سے ایک کی طرف رخ کے کے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟

اس نے کہا: «ذرّه».

میں نے کہا:میری حبيب!تمہیں کیوں «ذرّه» کا نام دیا گیا ہے؟

کہا: کیوںکہ میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم  کے بزرگ صحابی ابوذر غفارى کے لئے خلق  کی گئی ہوں۔

میں نے دوسری کی طرف رخ کرکے کہا: تمہارا نام کیا ہے؟

اس نے کہا: میرا نام «سلمى» ہے.

میں نے کہا:تمہارا نام «سلمى» کیوں رکھا گیا؟

اس نے کہا: چونکہ میں رسول‏ خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے صحابی و دوست سلمان کے لئے خلق کی گئی ہوں۔

میں نے تیسری کی طرف رخ کیا اور کہا: تمہارا نام کیا ہے؟

اس نے کہا: «مقدوده».

میں نے کہا:اے میری حبیب! تمہارا نام«مقدوده» کیوں رکھا گیا؟

کہا: میں صحابی رسول خداصلى الله عليه وآله وسلم مقداد بن اسود كندى  کے لئے خلق ہوئی ہوں۔

میں نے چوتھی کی طرف رخ کیا اور پوچھا:تمہا کیا نام ہے؟

اس نے کہا: «عمّاره».

میں نے کہا: تمہارا نام «عمّاره» کیوں رکھا گیاہے؟

کہا:میں بھی رسول ‏خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے باوفا صحابی اور دوست عمار بن یاسر کے لئے خلق ہوئی ہوں۔

پھر انہوں نے مجھے ایک ہدیہ دیا جس میں سے میں کچھ تمہارے لئے الگ کر کے رکھا ہے ۔

   (سلمان کہتے ہیں:) حضرت زهرا عليها السلام ایک سفید پلیٹ لے کر آئیں کہ جس میں کھجوریں تھیں، وہ کھجوریں «خشك نانج» (671) سے بڑی، برف سے زیادہ سفید اور مشك سے زیادہ خوشبودار تھیں۔ آپ نے ان میں سے مجھے دس کجھوریں عطا کیں کہ میں جنہیں اٹھانے کے لئے حیران تھا۔

پھر آپ نے مجھ سے فرمایا:

رات کو افطار کے موقع پر ان کجھوروں سے افطار کرو اور کل ان کی گٹھلیاں میرے پاس لے آؤ۔

سلمان کہتے ہیں: میں بی دو عالم کی خدمت سے رخصت ہوا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستہ میں مجھے جو کوئی بھی اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے جو شخص بھی ملا انہوں نے مجھ سے کہا: اے سلمان! تم سے کیسے مشک کی خوشبو آ رہی ہے؟

سلمان کہتے ہیں:میں نے یہ مخفی رکھا کہ میرے پاس کوئی چیز ہے، یہاں تک کہ میں گھر پہنچ گیا. افطار کے وقت میں نے ان کجھوروں سے افطار کیا اور مجھے ان میں کوئی گٹھلی نہ ملی۔

اگلے روز میں حضرت فاطمه‏ عليها السلام کی خدمت میں شرفياب ہوا۔ ددروازے پر دستک دی اور آپ نے مجھے داخل ہونے کی اجازت عنائت فرمائی، میں کمرے میں داخل ہو اور عرض کیا: اے بنے پیغمبر خدا! آپ نے فرمایا تھا کہ ان کجھوروں کی گٹھلیاں لے آؤں لیکن ان میں میں کوئی گٹھلی نہیں ملی۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام مسکرائیں جب کہ آپ اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد کبھی مسکرائی نہیں تھیں، اور پھر آپ نے مجھ سے فرمایا:

اے سلمان! یہ کجھوریں اس درخت کی ہیں کہ جو خداوند متعال نے بهشت میں میرے لئے اگایا ہے اور انہیں اس دعا سے کاشت کیا ہے کہ جو میرے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے تعلیم دی ہے اور میں ہر صبح و شام وہ دعا پڑھتی ہوں۔

میں نے عرض کیا: اے آقا زادی! وہ دعا مجھے بھی تعلیم فرمائیں۔

فرمایا:

إن سرّك أن تلقى اللَّه تعالى وهو عنك راض غير غضبان، ولاتضرّك وسوسة الشيطان مادمت حيّاً فواظب عليه.

اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرو کہ وہ تم سے راضی ہو(نہ کہ تم سے ناراض ہو) اور کسی شیطان کا کوئی وسوسہ بھی تمہیں نقصان نہ پہنچائے تو اس دعا کی پابندی کرو۔

  دوسری روایت میں وارد ہوا ہے:

إن سرّك أن لاتمسّك الحمّى ما عشت في دار الدنيا فواظب عليه،

اگر تم چاہتے ہو کہ جب تک دنیا میں ہو تمہیں بخار نہ ہو تو پس اس دعا کی پابندی کرو۔

سلمان کہتے ہیں: میں نے عرض كیا: یہ دعا مجھے بھی تعلیم فرمائیں:

آپ نے فرمایا:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ، بِسْمِ اللَّهِ النُّورِ، بِسْمِ اللَّهِ نُور النُّور، بِسْمِ‏ اللَّهِ نُورٌ عَلى نُور، بِسْمِ اللَّهِ الَّذي هُوَ مُدَبِّرُ الْاُمُور، بِسْمِ اللَّهِ الَّذي‏ خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ، اَلْحَمْدُ للَّهِِ الَّذي خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ، وَأَنْزَلَ‏ النُّورَ عَلىَ الطُّورِ، في كِتابٍ مَسْطُورٍ، في رِقٍّ مَنْشُورٍ، وَالْبَيْتِ‏ الْمَعْمُورِ، وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ، وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ، بِقَدَرٍ مَقْدُورٍ،عَلى نَبِيٍّ مَحْبُورٍ، بِسْمِ ]اللَّهِ(672)] الَّذي هُوَ بِالْعِزِّ مَذْكُور، وَبِالْخَيْر ِمَشْهُور، وَعَلَى السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ مَشْكُور.

خدائے رحمن و رحیم کے نام سے، خداوند نور کے نام سے، اس خدا کے نام سے جس نے نور کو روشنی بخشی ،اس خدا کے نام سے جو نور علی نور ہے، اس خدا کے نام سے جو مدبر الامور ہے، اس خدا کے نام سے جس نے نور کو نور سے خلق کیا.حمد اس خدا کے لئے ہے جس نے نور کو نور سے خلق کیا اور نور کو کوہ طور پر نازل کیا، جو کتاب میں لکھا گیا ہے اور کاغذ پر نشر ہوا ہے اور جو بیت معمور، سقف مرفوع، متلاطم دریا میں بزرگ پیغمبر پر معین مقدار میں ہے۔ اس خدا کے نام سے جسے عزت سے یاد کیا گیا ہے اور کو خیر سے مشہور ہے اور رنج و شادی میں مورد شکر ہے.

   سلمان کہتے ہیں: میں نے حضرت زہرا علیہا السلام سے یہ دع ا یاد کی ہے اور پھر میں نے مکہ و مدینہ کے ایک ہزار سے زیادہ افراد کو یہ دعا تعلیم کی کہ جو بخار میں مبتلا ہے اور ان میں سے جو بھی یہ دعا پڑھتا تھا وہ خدا کے اذن سے بخار سے جاتا تھا.(673)


671) خشك نانج: ایسا نان جو خالص آٹے، شکر، بادام اور پستہ سے بنایا جاتا ہے

672) در نسخه‏اى «الحمد للَّه» آمده است.

673) الثاقب فى المناقب: 297 ح3 (الفاظ میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ).

 

منبع : فضائل اهل بیت علیهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ:ج 2 ص 420

 

 

ملاحظہ کریں : 712
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 65030
تمام وزٹر کی تعداد : 129135183
تمام وزٹر کی تعداد : 89657608