حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1) مقام و منزلت امام حسن مجتبي عليه السلام

(1)

مقام و منزلت امام حسن مجتبي عليه السلام

اسی طرح كتاب «العدد القويّه» میں وارد پوا پے: امام باقر عليه السلام اپنے اجداد اطہار عليهم السلام سے نقل کرتے ہیں کہ جناب حذيفه کہتے ہیں :

 رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم انصار و مهاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ کوہ احد میں تھے کہ اچانک امام حسن ‏عليه السلام بڑے سکون اور وقار کے ساتھ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی طرف روانہ ہوائے،آنحضرت نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بڑے غور سے اور دقت سے دیکھ.

 حضرت بلال نے پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اے رسول خدا! کيا کوئی اور شخص بھی ان کے ہمراہ ہے؟ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

 إنّ جبرئيل عليه السلام يهديه وميكائيل يسدّده ، وهو ولدي والطاهر من نفسي ، وضلع من أضلاعي ، هذا سبطي وقرّة عيني بأبي هو .

بیشک جب جبرئیل ان کی راہنمائی کرتا ہے، میکائیل ان کی حفاظت کرتا ہے اور وہ میرا بیٹااور میری پاک جان ہے وہ میری شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، وہ میرا نواسہ  اور میری آکھوں کا نور ہے ،میرا باپ اس پر قربان جائے!

 اس کے بعد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اٹھے اور وہاں سے چلے گئے ہم بھی آپ کے ہمراہ چل پڑے ، جب کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم فرما رہے تھے: أنت تفّاحي ، وأنت حبيبي وبهجة قلبي ؛ «تم میرے دل کا میوہ، میرا دوست اور میرے دل کی خوشی ہو » امام حسن ‏عليه السلام کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے روانہ ہے اور ہم بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ آپ ایک مقام پر تشریف فرما ہو تو ہم بھی آپ کے اردگرد دائرہ کی صورت میں بیٹھ گئے ، ہم نے دیکھا کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم امام حسن‏ عليه السلام سے نگاہ نہیں پٹا رہے اور مسلسل دیکھتے جا رہے ہیں۔

اس کے بعد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: إنّه سيكون بعدي هادياً مهدياً ، هدية من ربّ العالمين لي ، ينبئ عنّي ويعرّف الناس آثاري ويحيي سنّتي ، ويتولّى اُموري في فعله ، وينظر اللَّه تعالى إليه ويرحمه ، رحم اللَّه من عرف له ذلك وبرّني فيه ، وأكرمني فيه .

بیشک وہ (حسن ‏عليه السلام) میرے بعد ہت جلد مسلمانوں کے ہادی و رہبر ہوں گے،وہ پروردگار کی طرف سے میرے لئے ایک ہدیہ یں، وہ میرے بار ے میں مطلع کریں گے اور لوگوں کو میرے آثار سے روشناس کرائیں گے، وہ میری سنت کو زندہ کریں گے اور اپنے کردار کے لحاظ سے میرے امور کو سنبجالیں گے اور سرپرستی کریں گے، خدا بھی انہیں محبت و رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا۔

 خدا اس پر رحمت كرے جو ان کے اس مقام و منزلت کو پہچانے اور ان کا احتام کرے اور مجھ سےنیکی کرے اور میرا احترام و تکریم کرے۔

ابھی پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی گفتگو ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک عرب زمین پر عصا کھینچتے ہوئے ہماری طرف آیا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ اس پر پڑی تو آپ نے فرمایا:جو شخص تمہاری طرف آ رہا ہے وہ ایسی گفتگو کرے گا کہ آپ کے بدن کی کھال لرزنے لگے گی، آپ لوگوں سے کچھ امور کےبارے میں سوال کرے گا جب کہ اس کا انداز گفتگو کرخت اور خشونت آمیز ہو گا۔

 اعرابى آیا،اور اس نے سلام کئے بغیر کہا:تم میں سے محمّد کون ہے؟

 ہم نے کہا: تم کیا چاہتے ہو ؟

اس وقت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : آرام و سکون سے رہو!

(اس نے پيغمبر کو پہچان لیا) اور کہا: اے محمّد! تجھے دیکھنے سے پہلے میرے دل میں تمہارے لئے کینہ و حسد تھا اور اب دیکھنے کے بعد اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اس دوران رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم مسکرائے  لیکن ہم اس عرب کی گستاخی پر غضبناک ہوئے اور اس کے بارے میں خطرناک منصوبہ بنایا۔اسی وقت پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم ہماری طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ہاتھ روک لو!

 اعرابى نے کہا: اے محمّد! تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم پیغمبر ہو ، حالانکہ تم پیغمبروں پت تہمت لگا رہے ہو جب کہ تمہارے پاس ان جیسی کوئی دلیل و برہان موجود نہیں ہے؟

 رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: اے اعرابى! تمہیں اس بات کا کیسے پتا چلا؟

اس نے کہا: اگر تمہارے پاس ک وئی دلیل و برہان ہے تو اسے بیان کرو!

پيغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ میں تمہیں یہ بتاؤں کہ تم اپنے گھر سے کیسے نکلے اور اپنے قبیلے کے سات مجلس میں کیا ارادہ کیا؟ اور اگر پسند کرو تو میرے اعضاء میں سے کوئی عضو اسے بیان کرے تا کہ تمہارے لئے ایک مھکم دلیل بن جائے؟

 اعرابى نے کہا:لیکن کیا انسان کے اعضاء و جوارح بھی گفتگو کرتے ہیں؟

 رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: ہاں.

 پھر آپ نے امام حسن‏ عليه السلام سے فرمایا:کھڑے ہو جاؤ اور اس سے گفتگو کرو۔

 اعرابى نے امام حسن ‏عليه السلام کو کمسن سمجھتے ہو بڑی حقارت سے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: وہ بچہ ہے میرے ساتھ کیا گفتگو کرے گا۔

 رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:تم ابھی دیکھ لو گے کہ وہ کیسے تمہارے سوالوں کے جواب دیتا ہے.

 امام حسن ‏عليه السلام نے فوراً اس اعرابی کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے اعرابی!سکون سے رہو! اس کے بعد آپ نے یہ اشعار پڑھے:

 ما غبيّاً سألت وابن غبيّ             بل فقيهاً إذن وأنت الجهول

 فإن تك قد جهلت فإنّ عندي       شفاء الجهل ما سأل السؤول

 وبحراً لا تقسّمه الدَّوالي             تراثاً كان أورثه الرسول

 تم نے کسی کند ذہن اور کند ذہن کے بیٹے سے سوال نیں کیا بلکہ ایک فقیہ اور دانشور سے سوال کیا ہے حالانکہ تم جاہل اور نادان ہو.

اگر تم مسائل سے جاہل ہو تو آگاہ ہو جاؤ کہ جہالت کی شفاء میرے پاس ہے جب تک پوچھنے والا پوچھتا رہے.

تم نے علم و خرد کے ایسے بحر بیکراں سے سوال کیا ہے جسے جسے بالیا تقسیم نہیں کر سکتیں ،اس نے یہ علم و دانش رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بطور میراث پایا ہے۔

اس  کے بعد امام حسن ‏عليه السلام نے فرمایا: بیشک تم نے اپنی گفتگو میں زبان درازی سے کام لیا اور حد سے تجاوز کیا اور تیرے نفس نے تمہیں دھوکہ دیا ہے لیکن اس کے باوجود تم یہاں سے باایمان لوٹ کر جاؤ گے!

 اعرابى نے حیرت سے مسکراتے ہوئے کہا: هيهات ! یہ بات کس قدر بعيد ہے .

 امام حسن ‏عليه السلام نے فرمایا:تم لوگوں نے اپنی جگہ پر یہ اجتماع کیا اور جہالت و کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں گفتگو کی اور یہ گمان کیا کہ محمّد صلى الله عليه وآله وسلم بے اولاد شخص ہے، تمام عرب اس کے دشمن ہیں،(جب اسے قتل کرو گے) تو کوئی نہیں ہے جو اس کے خون کا انتقام لے.

تم خیال کرتے ہو کہ آنحضرت کے قاتل ہو ،اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو اپنی قوم کے کندھوں سے بوجھ اتار دیا ہے، اس وجہ سے تیرے نفس نے تمہیں اس کام پر ابھارا ہے، سچ بات تو یہ ہے کہ تو نے عصا ہاتھ میں لیا ہے اور تم آنحضرت کو قتل کرنا چاہتے ہو ، لیکن یہ ارادہ تمہارے لئے مشکل پیدا کر دے گا اور اس کام میں تمہاری آنکھیں اندھی ہو جائیں گی ، اور تمہارے لئے بہتر تھا کہ تم یہ ذمہ داری قبول نہ کرتے  اور اب تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ کہیں تمہاری قوم تمہارا مذاق نہ اڑائے ، لہذا تم اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہو، جب کہ تم خیر و اچھائی کی طرف آئے ہو، میں تمہیں تمہارے سفر کی داستان سے آگاہ کرتا  ہوں کہ تمہارا سفر کیسے گزرا ہے، تو ایسی رات کے وقت باہر نکلا ہے کہ موسم صاف اور روشن تھا، اچانک شدید قسم کا طوفانآیا، جس کی وجہ سے ہر جگہ تاریکی چھا گئی ، آسمان تاریک ہو گیا اور بادل آپس میں ٹکرائے تو اس سرخ گھوڑے کی طرح مشکل میں پھنس گیا کہ اگر پاؤں آگے بڑھائے تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی اور اگر پیچھے ہٹے تو چربی کی مانند ہو جائے.(1)

تم نے نہ کسی کے پاؤں کی آواز سنی ہے اور نہ کسی کی گھنٹی کی. جب کہ بادل تمہیں گھیرے ہوئے تھے اور ستارے تمہاری آنکھوں سے پنہان تھے اور تم نہ تو چمکتے ہوئے ستارے کے وسیلہ سے راستہ پا سکو گے اور نہ ہی تمہارے پاس اتنی عقل و بینش تھی کہ جو تمہیں آگاہ کرتی۔

جب تم نے تھوڑی سی مساففت طے کر لی تو اپنے آپ کو بیابان میں دیکھا کہ جس کی کوئی انتہاء نہ تھی اور اگر اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہوئے چلتے تو تمہیں اچانک ایک ٹیلے کا سامنا کرنا پڑا اور راستے سے بہت دور ہو گئے ، اور تند و تیز ہواؤں نے تمہارے پاؤں اکھاڑ دیئے ، تاریکی میں کانٹے اور خوفناک رعد و برق نے تمہیں اذیت دی اور اس بیابان کے ٹیلوں نے تمہیں وحشت زدہ کیا اور اس کے سنگریزوں نے تمہیں تھکا دیا، اچانک جب متوجہ ہوئے تو تم نے اپنے آپ کو ہمارے پاس پایاجس وجہ سے تمہاری آنکھیں چمک اٹھیں ، تیرا دل خوش ہو گیا اور آہ و فیاد ختم ہو گئی .

 اعرابى (امام حسن‏ عليه السلام کے اس بیان سے بہت حٰران و پریشان ہوا) نے کہا: اے لڑکے!تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟ گويا تم نے میرے دل کی گہرائیوں سے پردہ اٹھا دیا ہے،گویا تم میرے ساتھ حاضر تھے، اور میرے بارے میں تم سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، گویا تم علم غیب رکھتے ہو.

 امام حسن ‏عليه السلام نے فرمایا: اللَّه أكبر ! کہو: «أشهد أن لا إله إلّا اللَّه وحده لاشريك له ، وأنّ محمّداً عبده ورسوله» .

 «میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمّد صلى الله عليه وآله وسلم خدا کے بندہ اور اس کے رسول ہیں».

 اس دوران اس اعرابى نے اسلام قبول کیا، رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم اور مسلمان اس بات پر خوشحال اور مسرور ہوئے، رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے قرآن کا کچھ حصہ اسے سکھایا.

 اعرابى نے کہا: یا رسول اللہ!مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی قوم کی طرف لوت کر جاو۷ں اور انہیں اس واقعہ سے آگاہ کرو؟

 رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے اجازت مرحمت فرمائی ، وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور جب وہ اعرابی دوبارہ واپس آیا تو اس کے ہمراہ اس کی قوم کا ایک گروہ تھا جو مسلمان ہو گیا تھا.

اس واقعہ کے بعد جب بھی لوگ امام حسن ‏عليه السلام کو دیکھتے تو کہتے تھے: اس شخص کو ایسا مقام اور منزلت عطا ہوئی ہے جو دنیا میں کسی کو عطا نہیں ہوئی.(2)

 


1) یہ لقیظ بن زرارہ کی گفتگو سے ایک اقتباس ہے جو اس نے جیلہ کی جنگ میں کی تھی ، وہ اس دن سرخ گھوڑے پر سوار تھا، اس نے گھوڑے سے کہا:اگر تو اپنی مرضی سے دشمنوں کی طرف گیا تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے اور اگر شکست کی وجہ سے عقب نشینی کرو گے تو وہ تمہارا پیچھا کرکے چربی کی طرح مسل دیں گے ، پس ثابت قدم رہو اور جرأت و وقار کو اپناؤ : 140/2) .

2) الثاقب في المناقب : 316 ح3 ، مدينة المعاجز : 359/3 ح 89 ، العدد القويّة : 42 ح 60 ، بحار الأنوار : 333/43 ح 5 (سند حدیث میں اختلاف کے ساتھ).

 

 

منبع: فضائل اهل بيت عليهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: ج 2 ص 472 ح 22

 

 

ملاحظہ کریں : 689
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 55624
تمام وزٹر کی تعداد : 129116389
تمام وزٹر کی تعداد : 89648203