حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(4) عائشه اور عثمان کا خون بہا

(4)

عائشه اور عثمان کا خون بہا

عثمان کی موت اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خلیفہ بننے  کے بعد اچانک سے عائشہ کے نظریات کیوں تبدیل ہو گئے؟!یہاں تک امیر المؤمنین علیہ السلام کے تمام مخالفین اس کے گرد جمع ہو گئے اور اس نے امام علیہ السلام کی مخالفت میں سپاہیوں کا اکٹھا کیا اور بعض سیاسی اور سماجی شخصیات کو خط لکھے اور ان سے اس بات کا تقاضا کیا کہ وہ اپنی بیعت کو توڑ کر ان منافقین اور شر پسند عناصر کے ساتھ مل جائیں جو عثمان کے خونخواہی کا دعویٰ کر رہے تھے  حلانکہ جب تک اس نے یہ خبر نہیں سنی تھی کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھال لی ہے ، تب تک وہ خوش اور مسرور تھی اور وہ یہ چاہتی تھی عثمان کے طلحہ یا زبیر خلافت سنبھالیں۔

کہا گیا ہے کہ قتل عثمان کے بعد کچھ لوگ مختلف شہروں میں گئے تا کہ اس کے قتل کی خبر لوگوں تک پہنچائیں اور جب ان میں سے ایک شخص مکہ آیا اور اس نے عائشہ کو عثمان کے قتل ہونے کی خبر دی تو وہ اس بات پر خوش ہوئی اور اس نے کہا: اس  کے اعمال و کردار نے اسے قتل کیا ہے، اس نے کتاب خدا کو جلا دیا اور سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کو مار دیا اور پھر خدا نے اسے ہلاک کر دیا۔

پھر اس نے پوچھا:لوگوں نے کس کی بیعت کی ہے؟

قاصد نے کہا:میں ابھی مدینہ سے دور نہیں ہوا تھا کہ طلحہ بن عبید اللہ نے اموال کو اپنے اختیار میں لے لیا اور اس نے بیت المال کے لئے چابیاں بنا لیں تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں نے اس کی بیعت کی ہوگی۔

عائشہ نے کہا:شاباش ! اس کام کے لئے تمہاری چند انگلیاں ہی کافی ہیں ۔ پھر اس نے کہا:میرا سامان سفر باندھا جائے  ، میں نے عمرہ بجا لایا اور اب مجھے گھر جانا چاہئے۔

کاروان تیار ہوا اور وہ اپنی سواری پر سوار ہوئی ۔قافلہ روانہ ہوا اور سرف(634) نام سے معروف مقام پر پہنچا تو وہاں عبيد بن امّ كلاب(635) کی اس سے ملاقات ہوئی۔عائشہ نے اس سے کہا: کیا تمہارے پاس کوئی خبر ہے؟

   اس نے کہا: عثمان قتل ہو گیا ہے.

   عايشه نے کہا: کيا نعثل قتل ہو گیا ہے؟

   اس نے کہا: ہاں نعثل قتل ہو گیا ہے۔

   عايشه نے کہا: اس کے واقعہ کے بارے میں بتاؤ کہ اس کا انجام کیا ہوا؟

  اس نے کہا: جب لوگوں نے اس کے گھر کا محاصرہ کیا تو می نے دیکھا کہ طلحہ بن عبیدہ اللہ امور سنبھالنے کے لئے تیار تھا اور اس نے بیت المال اور خزانے کی چابیاں تیار کر لیں تا کہ لوگ اس کی بیعت کریں لیکن جب عثمان قتل ہوا تو لوگ علی بن ابی طالب علیہما السلام کی طرف مائل ہو گئے اورپھر طلحہ اور دوسروں کو ان کے برابر نہ سمجھا اور علی علیہ السلام کے پیچھے چلے گئے۔اشتر،عمار،محمد بن ابی بکر ان کے پیش پیش تھے یہاں تک کہ وہ علی علیہ السلام کے پاس گئے کہ جو اپنے گھر میں تھے اور انہوں نے ان سے کہا؛ ہم آپ کی اطاعت میں آپ کی بیعت کرتے ہیں۔

علی علیہ السلام نے کچھ دیر انکار کیا یہاں تک کہ اشتر نے ان سے کہا: اے علی! لوگ کسی اور کو آپ کے برابر نہیں سمجھتے  پس اس سے پہلے کہ لوگوں میں اختلاف ہو آپ ان سے بیعت لے لیں۔

لوگوں میں طلحہ و زبیر بھی تھے اور میرا یہ خیال ہے کہ علی علیہ السلام اور ان لوگوں میں پہلے سے کوئی بات چیت ہو چکی تھی۔ اشتر نے طلحہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:اٹھو اور بیعت کرو۔ زبیر تم بھی اٹھو اور بیعت کرو۔آخر تم لوگ کس بات کے منتظر ہو؟!

وہ دونوں اٹھے اور انہوں نے بیعت کر لی۔ میں نے ان دونوں کے ہاتھوں کو دیکھا کہ انہوں نے بیعت کے عنوان سے علی علیہ السلام کے پاتھ پر اپنا پاتھ رکھا اور پھر علی علیہ السلام منبر پر گئے اور کچھ ارشاد فرمایا۔ مجھے اس کے سوا اور کچھ معلوم نہیں کہ اس دن لوگوں نے منبر پر ان کی بیعت کی اور بقیہ لوگوں نے دوسرے دن بیعت کی اور تیسرے دن میں شہر سے نکل آیا اور میرے بعد وہاں جو کچھ ہوا مجھے اس کا علم نہیں۔

   عايشه نے کہا: اے برادر بنى‏ بكرى! کیا تم نے خود دیکھا کہ طلحه نے على‏ عليه السلام کی بيعت كی؟

   اس نے کہا: ہاں؛خداکی قسم!میں نے اسے دیکھا کہ اس نے بیعت کی۔ اور میں نے جو کچھ دیکھا اس کے سوا کچھ بیان نہیں کیا۔ طلحہ و زبیر نے سب سے پہلے ان کی بیعت کی۔

اس وقت عائشه نے کہا: إنّا للَّه؛ خدا کی قسم! اس شخص (طلحه) کو مجبور كیا گیا ہے  اور علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام اس کے امر (یعنی اس کی خلافت) کو غصب كیا ہے، خليفهٔ خدا مظلومانه طور پر قتل ہو گیا ہے۔ میری سواری کو واپس پلٹا دو ،میری سواری کو واپس پلٹا دو اور مکہ پھر وہ مکہ واپس چلی گئی۔

   عبيد بن امّ كلاب کہتاہے: میں اس کے ساتھ روانہ ہوا اور وہ سفر کے دوران مجھ سے پوچھتی تھی اور جو کچھ رونما ہوا تھا میں اسے اس کی خبر دیتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:یہ میرے بعد ہوا۔ میں یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ لوگوں نے احد کے دن جو مصیبتیں دیکھیں اس کے باوجود وہ طلحہ سے عدول کریں گے ۔

   میں نے کہا : اگر (خلافت) میں مصیبتیں، مشکلات اور بلائیں ہیں تو پھر اس کے جس دوست کی بیعت کی گئی ہے (يعنى‏ على ‏عليه السلام) ؛ اس کے لئے زیادہ مشکلات ہیں ۔

میں نے کہا : اگر(خلافت)

   اس نے کہا : اے برادر بنى ‏بكرى ! میں نے اس کے علاوہ تم سے اور کوئی چیز نیں پوچھی ، جب تم مکہ میں داخل ہو اور لوگ تم سے پوچھیں کہ ام المؤمنین کس وجہ سے مکہ سے واپس چلی گئیں ، تو ان سے کہنا : عثمان کے خون بہا کے لئے قیام کرنے کی وجہ سے ۔

  مكّه میں يعلى بن مُنيه اس کے پاس آیا اور کہا: تم جس خلیفہ کو قتل کرنے کے لئے لوگوں کو ابھار رہی تھی اب وہ قتل ہو گیا ہے ۔

عائشه نے اس کے جواب میں کہا : میں خدا کے نزدیک اس کے قاتل سے بیزاری کا اظہار کرتی ہوں ۔

   يعلى نے کہا : ابھی؛ اور پھر اس نے کہا : ایک مرتبہ پھر اس کے قاتل سے بیزاری کا اظہار کرو ۔

   عبيد کہتے ہیں: عائشه مسجد میں گئی اور اس نے وہاں عثمان کو قتل کرنے والوں سے بیزاری و برائت کا اظہار کیا (636) ۔ (637)


634) سَرِف: سین پر زبر اور راء پر زیر کے ساتھ، مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک سخت اور دشوار راستہ - معجم ما استعجم: 735/1.

635) الكامل في التاريخ : 260/3 میں کہا گیا ہے : عبيد بن ابى سلمه ؛ وہی ابن امّ كلاب ہے ۔

636) نك: الفتوح : 434/1، الشافى : 457/4، مصنّفات شيخ مفيد : 163 - 161/1.

   ابن اثير اپنی کتاب الكامل في التاريخ  (ج 3 ص 206) میں کہتے ہیں : عائشه مکہ کی جانب واپس لوٹ گئی اور کہا کرتی تھی کہ خدا کی قسم ! عثمان مظلومانہ قتل ہو گیا ہے اور خدا کی قسم! میں اس کا خون بہا لوں گی ۔ اس سے کہا گیا : خدا کی قسم ! سب سے پہلے تم نے اپنی بات سے پھر گئی ہو اور یہ تم ہی تھی کہ جو کہا کرتی تھی : اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ کافر ہو گیا ہے ۔

   عائشه نے اس کے جواب میں کہا : انہوں نے اسے معاف کر دیا لیکن اس کے بعد اسے قتل کر دیا ، جب کہ تم اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ میری پہلی بات ، دوسری بات سے بہتر ہے ؟ امّ كلاب نے یہ باتیں سننے کے بعد بعد کچھ اشعار کہے ۔

637) نبرد جمل: 28.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 2079
آج کے وزٹر : 51338
کل کے وزٹر : 167544
تمام وزٹر کی تعداد : 143713702
تمام وزٹر کی تعداد : 99212936