حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) عثمان کے محاصرہ کے موقع پر امير المؤمنين‏ علی عليه السلام

(۲)

عثمان کے محاصرہ کے موقع پر امير المؤمنين‏ علی عليه السلام

   ابن اثير نے کہا ہے کہ : کہا گیا ہے کہ عثمان کے محاصرہ کے موقع پر علی علیہ السلام خیبر میں تھے اور جب مدینہ میں آئے تو لوگ طلحہ کے گرد جمع تھے اور وہ ان لوگوں میں سے تھا کہ جس کا اس واقعہ میں اہم کردار تھا ۔ جب علی علیہ السلام آئے تو عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا : میں اسلام ، برادری ، قرابتداری اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دامادی کا حق رکھتا ہوں اور اگر یہ نہ بھی ہوتا تو اور ہم زمانۂ جاہلیت میں ہوتے تو پھر بھی خاندان عبد مناف کے لئے ننگ و عار تھا کہ بنی تیم سے کوئی شخص ( یعنی طلحہ ) ان کے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

   على‏ عليه السلام اس سے کہا : جلد ہی تمہیں اس کی خبر مل جائے گی ۔ پھر آپ مسجد کی طر گئے اور راستہ میں اسامہ کو دیکھا اور اس کے ہاتھ پر تکیہ کرتے ہوئے طلحہ کے گھر داخل ہوئے کہ جہاں کچھ لوگ اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے اس سے کہا : اے طلحہ ! یہ کیا کام ہے کہ جو تم نے شروع کیا ہے ؟

   طلحه نے جواب دیا : يا ابا الحسن ! آپ چارپایوں کے مہار ہو جانے کے بعد آئے ہیں ۔ علی علیہ السلام وہاں سے واپس لوٹ گئے اور بیت المال کی طرف گئے اور کہا : اسے کھولو ، لیکن اس کی چابی نہ ملی ، پس اس کے دروازے کو توڑ دیا گیا اور آپ نے کچھ مال ان لوگوں کو دیا اور سب لوگ طلحہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہ وہاں تنہا رہ گیا ۔ عثمان اس کام سے بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد طلحۃ ؛ عثمان کے پاس آیا اور اس سے کہا : اے امیر المؤمنین ! میں نے ایک کام کا ارادہ کیا تھا لیکن خدا نے میرے اس کے درمیان  فاصلہ ڈال دیا ۔ عثمان نے اس کے جواب میں کہا : خدا کی ق سم ! تم توبہ کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ تم شکست کھا کر آئے ہو ، اے طلحہ ! خدا ہی تمہارے امور کو دیکھے ۔ (623)

   اور ایک دوسری روایت میں عبد اللَّه بن عباس بن ابى ربيعه کہتے ہیں: میں عثمان کے پاس گیا تو وہ میرا ہاتھ تھام کر دروازے کے پاس لے گیا اور اس نے مجھے وہ باتیں سمجھائیں کی جن کی آواز دروازے کے اوپر سے آ رہی تھی ۔ ان میں سے کچھ لوگ کہہ رہے تھے : کس چیز کے منتظر ہو ؟ اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے اسے مہلت دو ، جلد ہی واپس چلے جائے گا ۔ ہم اسی حالت میں کھڑے ہوئے تھے کہ وہاں سے طلحہ کا گزر ہوا اور اس نے کہا : ابن عديس كہاں ہے ؟

   ابن عديس اس  کے پاس گیا اور انہوں نے آپس میں کچھ باتیں کیں اور پھر اس نے واپس آ کر اپنے ساتھیوں سے کہا : کس کو عثمان کے پاس نہ تو جانے دو اور نہ ہی کسی کو عثمان کے پاس سے باہر آنے دو ۔ عثمان نے مجھ سے کہا : طلحہ نے اسے ایسا حکم دیا ہے ۔ خدایا ! طلحہ کے شرّ سے مری کفایت فرما ۔ وہی لوگوں کو میرے خلاف ورغلا رہا ہے اور میرے خلاف بھڑکا رہا ہے ۔ میری خدا سے آرزو ہے کہ اس واقعہ سے دور رہوں کہ اس کا خون بہایا جائے ۔ (624)  (625)


623) الكامل في التاريخ: 167/3.

624) الكامل في التاريخ: 174/3.

625) نبرد جمل: 24.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 982
آج کے وزٹر : 91861
کل کے وزٹر : 271725
تمام وزٹر کی تعداد : 172596925
تمام وزٹر کی تعداد : 126769992