حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(۲) عبد اللَّه بن حسن سے سفّاح کی گفتگو

(۲)

عبد اللَّه بن حسن  سے سفّاح کی گفتگو

   عمر بن عبد اللَّه بن جميل عتكى نے عمر بن شبّه سے محمّد بن يحيى سے روايت كی ہے کہ جب ابو العبّاس سفّاح منصب خلافت تک پہنچا تو عبد اللَّه بن حسن بن حسن اور ان کے بھائی حسن ‏بن حسن (1611) اس کے پاس آئے ۔ سفّاح نے ان دونوں کا برا احترام و تکریم کیا اور بالخصوص ‏عبد اللَّه بن حسن کو بہت زیادہ انعام و اکرام سے نوازا ، جب کہ عبد اللَّه بن حسن گھر کے اسی مخصوص لباس اور ایک پیراہن کے ساتھ اس کے پاس آیا ۔ ابو العبّاس ‏نے اس سے کہا : خلیفہ کے نزدیک کسی اور کو ایسا مقام حاصل نہیں ہے لیکن چونکہ تم میرے چچا اور باپ کی طرح ہو لہذا تم اس مقام کے لائق ہو ۔

   پھر اس سے کہا :میں تم سے ایک خاص بات کہنا چاہتا ہوں ، عبد اللہ نے کہا : وہ کیا بات ہے ؟

   سفّاح نے محمّد ، ابراہيم اور عبد اللَّه کے بیٹوں کا نام لیا اور اس کے بعد کہا : آخر  کیا بات ہے کہ وہ دونوں میرے پاس نہیں آتے اور آخر کون سی چیز مانع آ جاتی کہ یہ دونوں جوان اپنے خاندان کے ساتھ میرے پاس نہیں آتے ؟

   عبد اللَّه نے جواب میں کہا : ان کا امیر المؤمنین ! کے دیار میں نہ آیا امیر المؤمنین ! کی نظر میں نامطلوب امر کی وجہ سے نہیں ہے اور ان کا نہ آنا خلیفہ سے کسی طرح کے تعمد اور دشمنی کی وجہ سے نہیں ہے ۔

   ابو العبّاس خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی بات  نہ کی ۔

   ایک رات دربار میں دوبارہ باتوں باتوں میں عبد اللہ  کا ذکر آیا اور کچھ دیر تک اس کے بارے میں بات ہوتی رہی اور اور اس نے پھر محمد اور ابراہیم کا ذکر کیا اور دوبارہ وہی سوال کیا کہ جس کا وہی جواب دیا گیا ۔ چند بار مذاکرات کے بعد یہ نوبت آئی کہ ابو العبّاس نے عبد اللَّه‏ سے کہا : تم نے خود انہیں چھپایا ہے ( اور انہیں یہاں آنے سے منع کیا ہے ) ، میں خدا کی قسم کھاتا ہو کہ محمد «سلع» کے پاس قتل ہو گا اور ابراہيم «نهر عياب» کے پاس قتل ہو گا ۔

   عبد اللَّه یہ بات سن کر افسردہ ہوا اور پریشان کے عالم میں گم و اندوہ کے ساتھ خلیفہ کے پاس سے روانہ ہوا اور اپنے بھائی حسن بن حسن کے پاس گیا ، حسن نے اس سے کہا : تم کیوں افسردہ اور پریشان ہو ؟

   عبد اللَّه نے سارا ماجرا ان سے بیان کیا اور حسن نے کہا : میں جو بھی حکم دوں گا کیا تم وہ انجام دو گے ؟ بتاؤ کیا بات ہے ؟

   اس  نے کہا : اگر اب اس نے ان دونوں کے بارے میں تم سے پوچھا تو کہنا : ان کا چچا حسن ان دونوں کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے ۔

   عبد اللَّه نے پریشانی کے عالم میں کہا : کیا تم میری جگہ اس سخت بات کے رد عمل کو قبول کرو گے ؟

   حسن نے کہا : ہاں ! میں قبول کروں گا ۔

   اس بار جب عبد اللَّه ؛ ابو العبّاس کے پاس گئے اور اس کے بیٹوں کا تذکرہ ہوا تو عبد اللہ نے فوراً کہا : اے امیر المؤمنین !! ان کے چچا ان دونوں کے حالات سے زیادہ با خبر ہے لہذا تم ان سے ان دونوں کے بارے میں تحقیق کرو ۔

   سفّاح خاموش ہو گیا اور جب عبد اللَّه وہاں سے روانہ ہوا تو اس نے کسی کو حسن‏ مثنّى کے پاس بھیجا م اور جب وہ حاضر ہوا تو اس سے سارا واقعہ پوچھا ، حسن نے کہا : اے امیر المؤمنین ! کس طرح تم سے بات کروں ؟ جس طرح خلافت میں رائج ہے یا جس طرح دو چچا زاد ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں ؟

   سفّاح نے کہا : جس طرح دو چچا زاد آپس میں بات کرتے ہیں اسی طرح مجھ سے بات کرو ، کیونکہ تمہیں اور تمہارے بھائی عبد اللہ کو میرے نزدیک بہت اہم مقام حاصل ہے ۔

   حسن نے کہا : میں جانتا ہوں کہ تم کس لئے ہمیشہ ان کے بارے میں پوچھتے ہو ۔ تم انہیں باتوں کی وجہ سے ان کے بارے میں پوچھتے رہتے ہو کہ جو تم نے ان کے بارے میں سنی ہیں کہ وہ تمہاری خلافت پر نطر رکھے ہوئے ہیں ۔ اب میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر خدا کے نزدیک یہ مقدر ہوا ہو کہ محمد و ابراہیم کو خلافت ملے گی تو زمین و آسمان کے تمام لوگ مل کر بھی انہیں روکنا چاہئیں تو کیا وہ تقدیر الٰہی کے مقابلہ میں انہیں خلافت سے روک نہیں پائیں گے ؟ اور دوسری طرف سے اگر خدا نے ان کے مقدر میں خلافت نہ لکھی ہو تو کیا پوری دنیا مل کر بھی انہیں خلافت دے سکتی ہے ؟

   سفّاح (نے کچھ دیر سوچنے کے) بعد جواب دیا : نہیں ! خدا کی قسم ! کوئی چیز بھی مشیت الٰہی اور تقدیر الٰہی کے بغیر انجام ہیں پا جا سکتی ۔

   حسن نے کہا : پھر تم ہمیشہ اپنی باتوں اور اپنے سوالات سے اس بوڑھے شخص کو کیوں تکلیف دیتے ہو اور کیوں ہمیں اور انہیں دی گئی اس نعمت کا مزہ تلخ کرتے ہو ؟

   سفّاح نے کہا : جب تک میں زندہ ہوں ، آج کے بعد میں کبھی بھی ان دونوں کا نام زبان پر نہیں لاؤں گا مگر یہ کہ مجھ سے اختیار سلب ہو جائے اور بے اختیار ان کی بات زبان پر آ جائے ۔ اور جیسا اس نے کہا تھا ، اس کے بعد کبھی بھی اس نے محمد اور ابراہیم کی بات نہ کی اور کچھ مدت کے بعد عبد اللہ بھی مدینہ کی طرف واپس چلا گیا۔  (1612)


1611) اس سے عبد اللَّه محض اور حسن مثلث مراد ہیں یعنى حسن بن حسن بن حسن بن علىّ بن ابى طالب‏ عليہما السلام .

1612) ترجمه مقاتل الطالبيّين: 194.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 979
آج کے وزٹر : 52069
کل کے وزٹر : 167544
تمام وزٹر کی تعداد : 143715164
تمام وزٹر کی تعداد : 99213667